خلیل جبران کا کہنا ہے کہ آپ کی روحیں اس جگہ پر ہمیشہ منڈلاتی رہتی ہیں جہاں آپ نے زندگی کے پرلطف لمحات گزارے ہوں. یہ ضیاء کے آخری الفاظ تھے جو اس نے فنکشن کا اختتام کرتے ہوئے کہے.
ضیا یعنی ضیاء اللہ بدر بیچلر آف سائنس لنگوئسٹکس اینڈ لٹریچر کا طالب علم، ہمارا سینئیر اور کل رات ہونے والے فنکشن کا آرگنائزر، کمپئر اور پرفارمر.
ٹھہریں ذرا فلیش بیک کرتے ہیں. ایسے آپ کو سمجھ نہیں آئے گی.ہمارے سینئیرز یعنی علاوہ فرسٹ سمسٹر، تمام پروگرامز کے متعلقہ سمسٹرز کے فائنل امتحانات دو فروری سے شروع تھے. ڈیٹ شیٹ بن چکی تھی. ٹیچر پڑھا کر فارغ ہوچکے تھے. پریزنٹیشن اور اسائنمنٹس ہوچکی تھیں کہ اچانک امتحانات کو پندرہ دن کے لیے ملتوی کردیا گیا.
یہ پندرہ دن کا التواء پھر سے زندگی کی نوید لایا اور ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے ہی فنکشن کروانے کا اعلان کردیا گیا. شعبے کا سالانہ فنکشن کہہ لیں، ڈنر کہہ لیں یا لٹریری ایوننگ. خیر پھر کیا تھا، پھر دھڑا دھڑ تیاریاں شروع ہوگئیں. پیسے جمع کرنے ہیں، آئٹمز تیار کرنے ہیں، یہ وہ..
اسی دوران ایک عدد نمائش ہونی تھی عنوان "میں کون ہوں" انگریزی میں
Who Am I جس میں آپ کچھ بھی بنا سکتے تھے. اس کو بھی فنکشن کے ساتھ ہی جوڑ دیا گیا. چناچہ ایک جانب تقریب جاری تھی دوسری جانب لوگ اس حصے میں آجارہے تھے جہاں طلباء کے چارٹس، پینٹگز، کارڈز، گڑیاں، سینریاں اور دوسری چیزیں لگی ہوئی تھیں. (ہم نے بھی بنایا تھا ایک چارٹ :oops: . ان اللہ علی کل شیء قدیر کو ہم نے انتالیس فونٹس میں لکھا اوپن آفس میں اور چھ عدد پرنٹ نکال کر چارٹ پیپر پر چسپاں کرلیے. آرٹ کا آرٹ ٹیکنالوجی کی ٹیکنالوجی :grin: )
ہمارا پروگرام ایم ایس سی اپلائیڈ لنگوئسٹکس ہے اور سمسٹر ابھی پہلا. مابدولت کلاس کے سی آر ہیں اور ساتھ میں سینئیر بھی کہ پہلے ایک عدد پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ یہیں سے کیا ہے. ہم نے بھاگم بھاگ ایک عدد نظم لکھی. نظم کیا تھی بس قذاقی اور ڈاکا تھی. ہم نے زاہد فخری کی "کدی تے پیکے جا نی بیگم" کو "کدی تے چھٹی جا نی میڈم" کرلیا. ایک دو الفاظ بدل کر ہم نے سارا مفہوم بیگم سے میڈم اور گھر سے لنگوئسٹکس کے کلاس روم تک پہنچا دیا. خیر یہ تو ہماری ذاتی کہانی تھی. ہماری کلاس....پہلا سمسٹر... سارے بی اے...زندگی میں پہلی بار مخلوط طرز تعلیم میں آمد...یونیورسٹی کے ماحول سے کافی حد تک کم ہوچکی لیکن ابھی بھی باقی اجنبیت ... وغیرہ وغیرہ کے مارے ہوئے.. ہمیں ہمارے سینئرز جو پہلے ہی ڈیڈ سولز (جی مردہ روحیں اردو میں) قرار دیتے ہیں. ہم نے یعنی سی آر صاحب نے زور لگایا یار کجھ کرلو. تہانوں اللہ دا واسطہ نک دا سوال اے. تو اللہ اللہ کرکے ایک عدد ڈرامہ لکھا گیا، تھوڑی بہت پریکٹس بھی ہوئی. (لیکن ہم اس میں نہیں تھے) وقت کی کمی کی وجہ سے آخری وقت میں اسے اڑا دیا گیا.. :roll: اس کے علاوہ ہماری کلاس سے دو اور لوگ گانے میں حصہ لے رہے تھے ایک لڑکا اور ایک لڑکی اور ... ایک دن میں نے اور باقی لڑکوں نے غصہ کھا کر ایک مزاحیہ سکرپٹ بھی تیار کرڈالا..آئیڈیا زرداری کا توا لگانے کا تھا... لیکن یہ سکرپٹ پھر ہماری ہی عدم دلچسپی اور ناتجربہ کاری کی وجہ سے پیش ہی نہ ہوسکا. ہماری کاسٹ دوسرے ڈرامے میں مصروف تھی، مکالمے جاندار نہ تھے اور ہمارے ڈائرکٹر صاحب کا انداز چھڈ یار قسم کا تھا. سو ہم نے کہا بھاڑ میں جاؤ ہم تو نظم پڑھ دیں گے.
خیر ہم اور میں سے باہر آئیں کہ فنکشن اس سے باہر باہر ہی ہوا. ہمارے انگلش ڈیپارٹمنٹ میں دو ذیلی شعبے ہیں. لنگوئسٹکس اور لٹریچر. لنگوئسٹکس میں چار کلاسیں بی ایس آنرز کی ہیں جو چار سال کا کورس ہے اور اس میں لٹریچر بھی پڑھایا جاتا ہے مع لسانیات. دو کورس ایک تھرڈ اور ایک فرسٹ ایم ایس سی اپلائیڈ لنگوئسٹکس اورلٹریچر میں چار کلاسیں ایم اے انگریزی صبح و شام اور فرسٹ و تھرڈ سمسٹر کی ہیں. خیر تو اتنی ساری کلاسوں میں سے کس نے زیادہ حصہ لیا. تو اس کا جواب ہے کہ بی ایس 7 اور ایم ایس سی 3 سمسٹر والوں نے. یہ دونوں کلاسیں اصل میں ایک ہی کمرے میں ہوتی ہیں وجہ کمروں کی کمی ہے، ان کے کورسز بھی ایک ہیں بس پروگرام کا نام مختلف ہے. یہ جی سی کے کھنڈ لوگ ہیں. ضیاء اللہ بدر، غلام دستگیر عرف جی ڈی، زین، امجد، قندیل اور حنان وغیرہ وغیرہ. ضیاء جانا مانا ڈرامہ نگار ہے. مجھے تو شکل سے ہی ڈرامے باز لگتا ہے. ہاتھ میں سگریٹ، عینک وہی بال، لگتا ہے ابھی آواز دے گا اوئے ابھی تک سیٹ نہیں لگا، جلدی کرو. اس نے پچھلے سال فنکشن پر شیکسپئر کے تین ڈراموں کی ہدایات دی تھیں. اس بار اس نے اپنا ڈرامہ لکھا اسٹیشن بستی سیداں والی. اچھا ڈرامہ تھا، لو سٹوری تھی. لیکن اچھا تھا اگرچہ اس کا مرکزی کردار وہ خود تھا، فیصل آباد کے گھنٹہ گھر کی طرح سارے راستے اسی کی طرف جاتے تھے، لیکن پھر بھی اچھا ڈرامہ تھا، محنت ہوئی تھی اس پر اور پسند کیا گیا. وائس چانسلر صاحب اسی دوران آئے تھے اور اس ڈرامے سے اتنا متاثر ہوئے کہ پانچ ہزار کے انعام کا اعلان کرگئے. خیر...یہ تو 7 سمسٹر والوں کا تھا ایک ڈرامہ لٹریچر والوں کی طرف سے تھا. ایک عدد قوالی تیار کی گئی تھی جس میں حسب توقع بی ایس 7، ایم ایس سی 3 اور بی ایس 3 کے لوگ شامل تھے. قوالی کا بنیادی مقصد لٹریچر والی کی مٹی پلید کرنا تھا. اور خوب کی گئی. ہوسکا تو اس کی ویڈیو پوسٹ کروں گا. بول کچھ ایسے تھے " لٹریچر والوں سے اللہ بچائے" حسن والوں سے اللہ بچائے کی طرز پر.
تو صاحب یہ پس منظر تھا، فنکشن پہلے چار کو ہونا تھا پھر چھ کو کردیا گیا. ہم یعنی سی آر صاحب نے بھی اپنا نام انتظامیہ میں لکھوا لیا کہ چلو اسی بہانے ذرا چوہدراہٹ بن جائے گی. لیکن ...آہ کیا بنا.. بنا یہ کہ کل ہمارے سیٹ کی ایک بیٹری جواب دے گئی اور ہمیں دوسری بیٹری نکال کر اسے چارج کرنا پڑا. اس کی چارجنگ پورٹ خراب ہے چناچہ چارجنگ تو موبائل آف.. اب وہاں ہمیں کال کیا جاتا ہے اور ہمارا موبائل بند.... ہم بھی کیا کریں ایک گھنٹے بعد ایک گھنٹے کے لیے بجلی آتی تھی جب آتی ہم موبائل چارجنگ پر لگا دیتے جب چلی جاتی تو اسے پھر آن کرلیتے. :roll: شام کو جب ہم وہاں تشریف لے جانے سے پہلے جی آر سے مخاطب ہوئے کہ میڈم وہ پاسز اور لسٹ لیتی آنا یاد سے تو آگے سے ہماری جو ہوئی :grin: .... نہ پوچھیں... اس بے چاری کی ہماری ٹیچر نے کی تھی کہ کم بخت نے انتظامیہ میں نام لکھوا لیا اور اب اس کا سیل بھی آف ہے. خیر ہم کیا کہتے عذر پیش کردیا جوکہ خاصا معقول بھی تھا... وہاں پہنچے تو پہلے زین اور قندیل نے واٹ لگائی... پھر جی آر نے ایک بار پھر سے... :oops: ...پھر دوران فنکشن جی ڈی نے بڑے پیار سےاور ابھی میڈم یعنی ہماری ٹیچر رہتی ہیں.. یا اللہ خیر :neutral:
تو جناب فنکشن شروع ہوتا ہے... کتنے بجے پانچ بجے لیکن پانچ بجے صرف انتظامیہ کے ٹانویں ٹانویں لوگ تھے وہاں اصل کام ساڑھے چھ شروع ہوا... آتے ہی پہلے تھیم سانگ چلا، تجھ سے نیناں لاگے پر 7 اور 3 سمسٹر کے چار لڑکوں کی گھمن گھیریاں، ہمیں تو ککھ سمجھ نہیں آئی کہ تھیم کیا تھا، خیر پھر ضیاء کا ڈرامہ جو تیس منٹ کی بجائے پونے گھنٹے سے اوپر لے گیا.. پھر ایک انگریزی ٹیبلو سا سنو وائٹ پیش کیا گیا. پھر دو گز کی چادر سٹیج ہوا. اسی دوران قوالی بھی ہوچکی تھی بس ضیاء کا ڈرامہ اور یہ قوالی ہی دیکھی ہم نے اور ادھر ادھر پھرتے رہے. تصاویر کھنچوانے، گروپ فوٹو بنوانے جو کہ بن ہی نہ سکی ہر بار دو چار بندے کم ہوجاتے..اور ہم یعنی شاکر میاں اپنی نظم پڑھنے کی باری کا انتظار کرنے ...ہان شہزاد بھی جس نے گانا گانا تھا اور اس کے لیے وہ اپنا مووی کیمرہ بھی لے کر آیا تھا اور مجھے سکھا بھی چکا تھا کہ مووی کیسے بنانی ہے. :oops:
آہ... لیکن حسرت ان غنچوں پہ جو بن کھلے مرجھا گئے. اس دوران دس بج گئے تھے، کئی لڑکیاں جاچکی تھیں اور کئی کو لے جانے والے آچکے تھے. چناچہ فنکشن کو مہمان خصوصی اور چئیر پرسن کے اختتامی کلمات کے ساتھ دی اینڈ کردیا گیا اور ہم دل کے ارماں آنسوؤں میں بہہ گئے گاتے کھانے پر ٹوٹ پڑے. جیسا تیسا کھایا کہ ہم سے تو ایسے مواقع پر کھایا ہی نہیں جاتا... پھر آخر میں تھوڑا سا کام کروا دیا کہ تھوڑا سا ازالہ کردیں صبح نہیں اب تو کروایا ہے کام. آہ پھر واپسی.
اگرچہ:
ہماری کلاس کا ڈرامہ ریجیکٹ ہوگیا.. برا سا لگا
ہمارے دونوں گانے اور نظم شامل نہیں کی گئی.
فنکشن لیٹ شروع کرکے اس میں پرفارمنسز وہ کاٹی گئیں جو ہماری تھیں یا جہاں ایم ایس سی 3 اور بی ایس 7 کے لوگ نہیں تھے. :sad:
ہمیں کھانے کے دوران بوتل نہیں ملی :oops: چار بندوں نے ایک بوتل شئیر کی..
اور ہمارا نام انتظامیہ میں شامل نہ ہوسکا کہ ہم تو آئے ہی نہیں تھے..قسم سے ہمیں اپنی جی آر اور جی ڈی لوگوں سے ڈھیر سارا حسد محسوس ہوا جب وہ آرگنائزر کا کارڈ گلے میں ڈالے قریب سے گزرتے :cry:
لیکن:
اس کے باوجود یہ تقریب ایک اچھی یاد بن کر دل کے کینوس پر نقش ہوگئی.
ہم نے اسے انجوائے کیا.
بقول عاصم صاحب یہ لائف سائنسز ہیں آپ کو پہننے، اوڑھنے، کھانے، پینے کا سلیقہ دیتی ہیں یہ تقاریب. آپ کو آداب سکھاتی ہیں. چناچہ ہم نے بھی بہت کچھ سیکھا. ہم جو وہاں شاید سفید کرتے شلوار میں پہنچ جاتے لیکن ہمیں مت دی گئی کہ کاکے ڈنر میں گہرے رنگ چلتے ہیں، ٹو پیس کرلینا. چناچہ ہم نے پینٹ شرٹ گھر سے پہنی اور کوٹ ایک دوست کی مہربانی سے وہاں جاکر پہن لیا.. سنا ہے کہ خاصے معقول صورت بلکہ خوبصورت ہی لگ رہے تھے، تصویر مہیا کرنے کی کوشش کریں گے. :oops: :razz:
آج ہمیں لگ رہا ہے جیسے ہماری روح کا ایک حصہ وہیں رہ گیا ہے. جی سی کے اسی لان پر منڈلاتا ہوا، اس فنکشن کے اندر باہر آتا جاتا.. عجیب خالی پن سا لگ رہا ہے، جیسے یکدم آپ کسی بھیڑ والی جگہ سے خلا میں آجائیں جہاں پہلے سینکڑوں چیزیں اور لوگ تھے اب وہاں صرف آپ ہوں اور مہیب خلاء، بیکراں سناٹے اور ملگجا سا اندھیرا. شاید خلیل جبران نے ٹھیک ہی کہا کہ آپ کی روحیں اس جگہ پر ہمیشہ منڈلاتی رہتی ہیں جہاں آپ نے اپنی زندگی کے پرلطف لمحات گزارے ہوں.
یعنی خوب مستی ہوئی :lol:
جواب دیںحذف کریںآپ خوش قسمت ہیں۔۔۔مابدولت نے کبھی یونیورسٹی کا اگا پچھا نہیں دیکھا۔ یہی دن ہیں انجوائے کرنے کے، بعد میں ہماری طرح پہلی تاریخوں کے منتظر رہیں گے۔
جواب دیںحذف کریںکوئی نہیں بھیا، آگے اور بھی بہت مواقع آئیں گے، کہاںکہاں روحوں کو بھٹکاتے رہیں گے؟
جواب دیںحذف کریںتقاریب کا دیر سے شروع ہونا تو پاکستان میں معمول ہے، منتظمین کو اسی حساب سے وقت تقسیم کرنا چاہئے تھا۔ جب اگلی مرتبہ آپ بنیں تو خیال رکھئے گا۔ :grin:
عبدالقدوس: بس مناسب سی مستی ہو ہی گئی۔
جواب دیںحذف کریںساجد: دعا کیجیے کہ جلد اس سے آگے نکلیں، کرنی تو مزدوری ہے لیکن تعلیم حاصل کرکے۔۔ہم آپ کو خوش قسمت سمجھتے ہیں جنھیں چھوٹے چھوٹے خرچوں کے لیے والدین کی جانب نہیں دیکھنا پڑتا۔
فیصل: آپ کو کیا بتائیں لوگ بھی پانچ بجے نہیں پہنچے تھے۔ ساری قوم کا یہی حال ہے۔ کس کس کو کہیں :roll: