اتوار، 16 اگست، 2009

میرا بچپن

سب سے پہلے تو ان تمام احباب کا شکریہ جنہوں نے مجھے پرچوں کے سلسلے میں کامیابی کی دعائیں دیں۔ الحمداللہ پرچے بہت اچھے ہوگئے امید ہے اس بار بھی پچھلے سمسٹر کی طرح پہلی پوزیشن میری ہی ہوگی۔
اس کے بعد عرض ہے کہ مصروفیت نے ایک عرصے سے اردو بلاگنگ سے کنارہ کش کردیا ہے۔ اس عرصے میں بہت سی نئی آوازیں اور لہجے شامل ہوئے اور خوب شامل ہوئے۔ اردو بلاگرز اب بالغ نظر ہوتے جارہے ہیں۔ خیر یہ تو بات سے بات تھی۔ اصل بات وہی عنوان والی ہے۔ اگرچہ اس بار بھی دل تھا کہ سیدہ شگفتہ کی فرمائش اور پھر منظر نامہ کے ذریعے اس تجویز کا تفاذ دیکھ کر پھر سے کھسک لوں کہ اس بار بھی کچھ نہیں لکھنا۔ لیکن۔۔۔۔ پھر دل نے کہا کہ اپنے لیے نہیں کمیونٹی کے لیے لکھو۔۔۔ سو لکھ رہا ہوں۔
تو صاحبو اوپر کے سارے وعظ کے بعد بات اتنی سی ہے کہ ہمارے بچپن کا کوئی ایسا واقعہ نہیں جو آپ کو ہنسا سکے۔۔۔ یا رُلا سکے۔ بڑا سادہ سا اور انتہائی عام سا بچپن گزرا ہے جس کی یادیں ساری بلیک اینڈ وائٹ ہیں اور دھندلی دھندلی سی۔۔۔ خیر کھینچ کھانچ کر ایک پرانی پوسٹ سے متعلق ہی ایک تفصیلی واقعہ نکالا ہے یادوں کے کباڑخانے سے۔ ملاحظہ کیجیے۔
میرا پلان بالکل مکمل تھا۔ لیٹرین کے ساتھ ٹینکی نما چیز کو دیکھ کر ہی یہ پلان میرے ذہن میں آیا تھا کہ بس اب تو اپنی جان چھوٹی ہی چھوتی۔ تو صاحبو ہم نے وضو کرنے کا بہانہ بنایا ٹینکی سے لیٹرین پر اور وہاں سے دیوار پر اور اس کے بعد چھ سات فٹ سے ہم نے چھلاگ لگا دی اور نکل لیے۔
خیر آپ کو کیا سمجھ آئی ہوگی۔ اوپر دئیے ربط پر چلے جائیں تو شاید کچھ سلسلہ جڑ جائے۔ اصل میں ہم پانچویں کے بعد مدرسے میں ڈال دئیے گئے تھے حفظ قرآن کے لیے۔ کچھ عرصہ تو سکون سے گزرا ہم اچھا خاصا حفظ کرتے رہے لیکن پھر ہم سے پڑھائی کا شیڈول برداشت نہ ہوا اور ہم نے بغاوت کردی۔: او میں نئیں پڑھناں ہور ہُن۔۔ تو اس کا حل قاری صاحب نے یہ نکالا کہ ہماری ٹانگیں ایک دوسرے لڑکے کو پکڑوا کر ہماری تشریف پر گدھے ہنکانے والی بید کی سوٹی سے ٹکور کی۔ اور اسی ٹکور کے دوران ہم پر انکشاف ہوا کہ یہ ساری کاروائی شیطان کی تھی ہمارا کوئی قصور نہیں ہم نے چیخ چیخ کر قاری صاحب کو یہ باور کرانے کی کوشش کی لیکن قاری صاحب نے ٹریٹمنٹ پورا کرکے ہی جان چھوڑی۔ خیر اس علاج کے بعد کچھ ماہ سکون سے گزرے اور پھر ہم نے جو کارنامہ سرانجام دیا وہ اوپر تحریر ہے۔ اس دوران ہماری چھٹی بند تھی۔ قاری صاحب ایسے بچے کی پہلے روزانہ کی چھٹی بند کرکے ہفتہ وار کرتے تھے اگر پھر بھی نصیحت نہ آتی تھی تو عید کے عید ہی ملتی تھی چھٹی۔
خیر تو ہم بھاگ پڑے۔ چھوٹا بھائی کھانا دینے آرہا تھا اس نے ہمیں بھاگتے دیکھ لیا کچھ دور تک وہ ہمارے پیچھے بھاگا پھر واپس گھر چلا گیا۔ اور ہم ۔۔۔ ہم پہنچے سیدھے نشاط آباد سٹیشن پر۔ یہ فیصل آباد کے بڑے سٹیشن کے بعد لاہور کی طرف جاتے ہوئے دوسرا سٹیشن ہے۔ ابا جی کو چونکہ ہماری ساری گیم کا پتا تھا انھوں نے ہمیں وہاں سے جا لیا اور پھر ہماری دھلائی بھی ہوئی اور ہاتھ باندھ کر سائیکل پر بٹھا کر گھر لایا گیا۔
قصہ مختصر عزیزان گرامی ہم نے ایسے دو ایک اور ڈرامے کھیلے اور ہمیں مدرسے سے نجات مل گئی۔ ہم نے آخری پانچ پارے حفظ کرلیے تھے چھٹا پاؤ ہو گیا تھا لیکن سب کچھ چھوٹ گیا۔ اس واقعے نے ہماری زندگی کا رخ موڑ ڈالا۔ شاید اس وقت ایسا نہ ہوتا تو ہم آج بلاگر نہ ہوتے۔۔ ہوتے بھی تو اتنے ۔۔۔۔ نہ ہوتے۔

9 تبصرے:

  1. شاکر یوں کہو کہ قوم بلکہ محلے کی مسجد ایک حافظ سے محروم رہ گئی۔
    کیا پھر کبھی مولوی صاحب کہیں نہیں ٹکرائے؟؟؟

    جواب دیںحذف کریں
  2. جی ادھر ہی ہوتے ہیں اب تو اپنا مدرسہ ہے خیر سے ان کا۔ چار منزلہ بلڈنگ ہے، پہلے موٹر سائیکل تھا اب پک اپ ہے ان کے پاس۔ بچہ جواب ہورہا ہے جو ان کی طرح سائز میں عام آدمی سے دوگنا ہے اور وہی آئندہ جانشین ہوگا اس مدرسے کا۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. کبھی پچھتاوا ہوا آپ کو کہ حفظ نہ کرسکے؟
    سب سے اچھا کاروبار ہے پاکستان میں‌مذہب کا کاروبار۔۔۔
    لگے رہتے تو آج اس پڑھائی کے جھمیلوں سے جان چھوٹ جاتی
    ایک ڈبل کیبن پک اپ ہوتی
    چار بیویاں ہوتیں
    اور ڈھیر سارے جانشین۔۔۔

    جواب دیںحذف کریں
  4. ایسی کہانیاں میں نے اخبارات میں بھی پڑھی ہیں لیکن حیرت ہوتی ہے کیونکہ میرا ایک دوست حافظِ قرآن ہے جب کہ وہ ایم ایس سی انجنیئرنگ کے بعد بھی کچھ پڑھا ہوا ہے ۔ ان کا بڑا بیٹا بھی حافظِ قرآن ہے اور کمپیوٹر ایکسپرٹ ہے ۔ اس سے چھوٹا جو ابھی سکول میں ہے بھی قرآن حفظ کر چکا ہے

    جواب دیںحذف کریں
  5. بڑے شریف تھے یار جو بار بار بھاگ کر واپس گھر آ جاتے تھے
    شکر ہے میرے اماں ابا نے مجھے مدرسے میں نہیں ڈالا
    ورنہ میں نے ایک ہی دفعہ بھاگنا تھا
    اور پھر ان کے ہاتھ نہیں آنا تھا
    :D

    جواب دیںحذف کریں
  6. اوہ فو
    بہت افسوس ہوا سن کر
    کہ آپ کا مدرسہ چھوٹ گیا
    آپ اللہ پاک کی قربت پانے کے موقع سے چوک گئے،

    ایک بات کہوں گا، ہم سب کے لیے حافظ قران شایدبہت مزاحیہ یا بے وقوف چیز ہوتی ہے، جسے نہ پہننے کا ڈھنگ ہے، نہ ملنے ملانے کا
    مگر وہ جاہل نما، دنیاوی تعلیم سے نا آشنا ،اور بے وقوف اللہ کی نظر میں کتنا پسندیدہ ہے اسکا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے

    جواب دیںحذف کریں
  7. جعفر کی چار بیویوں والی بات پڑھ کر تو آپ کو افسوس ضرور ہوا ہوگا۔ حفظ قرآن بہت بڑی سعادت ہے لیکن اذیت دئیے بغیر بھی قرآن حفظ ہوسکتا ہے۔ ہمارے مولویوں کو خیر یہ بات سمجھانے کا فائدہ نہیں کہ اس بے پناہ تشدد کے ذریعے وہ ایسے اذہان پیدا کرتے ہیں جو ان کی تشریح دین کو حرف آخر سمجھ کر ان کے ایجنڈے کو آگے چلاسکیں اور بوقت ضرورت پھٹ کر ثواب دارین ضائع کرسکیں۔

    جواب دیںحذف کریں
  8. میں ایسے حافظ قرآن کو بھی جانتا ہوں جو پڑھ لکھ کر کسی سرکاری ادارے میں ملازم ہوئے جناب رشوت کے لیئے فرماتے تھے کہ بھئی میں مال حرام کو ہاتھ نہیں لگاؤں گا البتہ جیب میں ڈال دو پھر گھر جاکر بیگم سے فرماتے تم نکال کر گھر میں استعمال کرو،
    وجہ ظاہر ہے دین کو سمجھ کر حاصل نہ کیا تو رٹوطوطے تو ایسے ہی کریں گے نا

    جواب دیںحذف کریں

براہ کرم تبصرہ اردو میں لکھیں۔
ناشائستہ، ذاتیات کو نشانہ بنانیوالے اور اخلاق سے گرے ہوئے تبصرے حذف کر دئیے جائیں گے۔