ہمارے سر سنایا کرتے ہیں کہ جامعہ زرعیہ فیصل آباد میں تجربات کے بعد نتائج کو سگنیفیکنٹ significant ایسے بنایا جاتا ہے کہ شماریات کے فارمولے لگائے جاتے ہیں اگر فرق قابل ذکر نہ ہو تو پیچھے سے آواز آتی پے پُتر سگنیفیکنٹ کر ہور۔ اور اس کام کے لیے فریکوئنسی بڑھا دی جاتی ہے۔ اور یہ اس وقت تک بڑھائی جاتی رہتی ہے جب تک نتائج اصلی تے وڈے نہ ہوجائیں۔ چناچہ ایسے ہی ایک دفعہ کپاس کے پودوں کے اگاؤ وغیرہ پر کی گئی ریسرچ کے نتائج اتنے سگنی فیکنٹ تھے کہ ریسرچ میں سامنے آنے والے پودوں پر پھولوں کی تعداد جو 52 بنتی تھی، عملی طور پر کسی بھی پودے پر ممکن نہ تھی۔ اتنے پھول پودا سہار ہی نہیں سکتا۔ لیکن یار لوگوں نے ریسرچ میں یہ نتائج "نکالے" اور زبردستی نکالے۔
صاحبو ریسرچ بڑا اوکھا کام ہے ناک سے لکیریں نکلوا دیتی ہے یہ رسرچ۔ آج کل ہم جوگی ہوئے ہوئے ہیں، کن پڑوائے بغیر ہی جوگی۔ اور جوگن ہمارا تھیسز ہے۔
تھیسز تھیسز کردی نیں میں آپے تھیسز ہوئی
ہمارا ڈیٹا اینالیسس فیز چل رہا ہے لیکن دو ماہ سے چلے ہی جارہا ہے۔ کارپس پر مشتمل یہ ریسرچ پاکستانی اور برطانوی انگلش میں دو مونہے افعال (Ditransitive Verbs) کا موازنہ ہے۔ دومونہے ہم نے ابھی ایجاد کیا ہے لیکن امید ہے اردو وکی پیڈیا پر اس کا بڑا عالمانہ قسم کا ترجمہ موجود ہوگا فارسی کے تڑکے کے ساتھ۔ خیر یہ تو ایک پنجابی والی چُونڈی تھی۔ ریسرچ بڑا اوکھا کم ہے سائیں۔ ابھی 3 گھنٹوں سے صرف فریکوئنسیاں ہی نکال رہا ہوں اور دماغ لسی ہوگیا ہے۔ ابھی اس کام کے لیے میں اپنے ذاتی تیار کردہ سافٹویر استعمال کررہا ہوں۔ لیکن وہ جو کہتے ہیں نیم حکیم خطرہ جاں۔ تو جو کام میں سافٹویر سے اتنی دیر لگا کر، بار بار ڈی بگ کرکے، غلطیاں نکال نکال کر کرتا ہوں وہ شاید ہاتھ سے جلدی ہوجاتا۔ ;-D شاید نا ہو۔ چلو دل کو ڈھارس تو ہے کہ "جلدی" ہورہا ہے۔
میں اصل میں ٹیکسٹ پروسیسنگ کرتے ہوئے ریگولر ایکسپریشنز پر بہت انحصار کرتا ہوں۔ لالچ یہ ہوتا ہے کہ کام جلدی ہوجائے گا لیکن کام خراب بھی ہوجاتا ہے اور اکثر ہوجاتا ہے۔
اوہ، تو آج کل تھیسز لکھ رہا ہے بچہ۔۔ :)
جواب دیںحذف کریںشاباش بچہ لکھو تھیسز رام بھلی کرے گا۔۔
اور اپنے لکھے ہوئے سوفٹویر کی بجائے اگر کوئی اچھا سٹیٹس سوفٹویر استعمال کر لیتے تو کیا بہتر نہیں رہتا؟
غیر سائینسی مضامین میں ڈیٹا کلیکشن آسان ہوتا ہے۔ جبکہ سائینسی مضامین میں اس مرحلے تک پہنچنا ہی بڑا مشکل کام ہوتا ہے۔ جب میں پی ایچ ڈی کر رہی تھی تو عام طور پہ یہ سوال پوچھا جاتا تھآ کہ اور تھیسس کتنا لکھ لیا۔ مجھے انہیں یہ سمجھانا مشکل ہوتا تھآ کہ یہاں تھیسس تو اگ اس پہ لگ جاءووں تو مہینہ بھر میں لکھ جائے گا۔ مگر کیا اپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ ایک پروجیکٹ پہ سارا پچھلا ڈیٹا اکٹھا کر کے اس پہ نئے تجربات کی بنیاد رکھی جاتی ہے پھر مہینوں یا سالوں کی دن رات کی تھکا دینے والی محنت کے بعد پتہ چلتا ہے کہ یپ پروجیکٹ کوئ نئے نتائج دینے سے قاصر ہے اس لئے اسے بدل دیا جائے۔ یا اس میں کچھ اور تبدیلیاں لائ جائیں۔ تو ہمارے کیس میں لیبارٹری کے اندر کئے گئے کام کی بڑی اہمیت ہے۔
جواب دیںحذف کریںیہاں میرے ایک قریبی عزیز ہیں جنہوں نے انگلش لنگواسٹک میں پی ایچ ڈی کیا ہے۔ انہیں میں دیکھتی ہوں کہ انکے ذہن میں کوئ پروجیکٹ ہوتا ہے اور پھر کتنے مزے سے ڈیٹا کلیکشن ہوتا ہے اور اسکے بعد انٹر نیشنل پبلیکیشن تیار۔ موصوف کئ انٹرنیشنل کتابوں کے مصنفین میں شامل ہیں۔
نبیل پائین تھیسز لکھنا نہیں شروع کیا ابھی تو رزلٹس نکل رہے ہیں۔ شماریات کا سافٹویر جیسے ایس پی ایس ایس استعمال کروں گا لیکن ابھی فریکوئنسیاں تو نکال لوں۔ اپنے سافٹویر میں ٹیکسٹ پروسیسنگ کے لیے ہی استعمال کرتا ہوں جس کے ذریعے مختلف پیٹرن نکالتا ہوں کارپس کے ڈیٹا سے۔ کارپس کا تو پتا ہوگا آپ کو،۔
جواب دیںحذف کریںعنیقہ جی آپ کی بات بجا ہے، لنگوئسٹکس میں بھی جب آپ کو کارپس وغیرہ بنانا ہو تو یہی حالت ہوتی ہے۔ کارپس ٹیکسٹ کی کلیکشن ہوتی ہے۔ پاکستانی انگلش کا کارپس تین سال میں بنا تھا، جس میں پورے پاکستان سے حاصل کردہ کتابوں، رسائل اور دوسرے انگریزی اشاعت شدہ مواد کو شامل کیا گیا تھا۔ میرے لیے کلیکشن مسئلہ نہیں چونکہ کارپس پہلے سے موجود ہے، اس میں سے مطلوبہ جملے دیکھنا اور پھر انھیں پڑھ کر شمولیت کا غیر شمولیت کا فیصلہ کرنا۔ پھر ان کی فریکوئنسی اور دوسری شماریات نکالنا یہ بڑا درد سر ہے۔ خیر اس کے بھی آخری سر پر ہوں اب بہت کھپا ہوں پچھلے دو ماہ اس کے پیچھے۔
لنگوئسٹکس کے کونسے شعبے میں انھوں نے پی ایچ ڈی کی ہے؟ نام بتا دیجیے ان صاحب کا بائیو ڈیٹا ہم نکال لیں گے خود ہی۔
بالکل انکا نام بتا سکتی ہوں کہ ایک خاصے لائق شخص ہیں۔ نام ہے انکا احمر محبوب۔ اب بائیو ڈیٹا آپ نکالیں۔ دینے کو میں دے سکتی ہوں۔ لیکن آپ خود سے تلاش کریں گے تو زیادہ مزہ آئے گا۔
جواب دیںحذف کریںجی احمر محبوب کو کون نہیں جانتا۔ واقعی کئی انٹرنیشنل کتابوں کے مصنف ہیں۔ میری ان سے واقفیت پاکستانی انگلش پر ان کے ایک پیپر کی وجہ سے ہے جو 2009 میں شائع ہوا تھا، شاید اس وقت سویڈن میں تھے یہ۔ پاکستان میں لسانیات پر چند گنے چنے ہی نام ہیں، تو واففیت رکھنی پڑتی ہے۔ خصوصًا پاکستانی انگریزی پر ریسرچ کرنے والے تو دو ایک ہی ہیں۔ پہلے ایک صاحب رابرت بم گارڈنر تھے 1993 میں ایک کتاب لکھی، اس کے بعد احمر محبوب نے بم گارڈنر کی کتاب اور آرتیکلز کو بنیاد بنا کر 2009 میں پاکستانی انگلش پر ایک پیپر لکھا تھا۔
جواب دیںحذف کریں