آج تک بادلوں کا چکر، آکسیجن کا چکر اور ہائیڈروجن کا چکر پڑھتے آئے ہیں۔ آئیے آج آپ کو میونسپل کارپوریشن کی بنائی گئی سڑک کی زندگی کا چکر دکھاتے ہیں۔
- پتھر ڈالا جاتا ہے، یا تو پہلی سڑک بس ہوچکی ہے یا وہاں سڑک سرے سے تھی ہی نہیں۔
- پتھر ڈالنے کے بعد اس پر بلڈوزر پھیرا جاتا ہے۔ اس کے بعد کچھ عرصے تک، کئی بار یہ کچھ عرصہ مہینوں پر مشتمل ہوتا ہے، یہ پتھر یونہی رہتا ہے آخر ایک دن کول تار کے ڈرم، لکڑی اور گرم کول تار پھینکنے والی ایک مشین مع مزدور کہیں سے نمودار ہوتی ہے۔ پتھروں کو تیسی (ایک آلہ) سے کھرچا جاتا ہے اوپر کی مٹی الگ کرکے ان پر گرم کول تار کا چھڑکاؤ کیا جاتا ہے اور کول تار ملی بجری پھینک کر بلڈوزر چلا دیا جاتا ہے۔ لیول کا خیال نہیں رکھا جاتا، اونچ نیچ کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ مقصد بس پتھروں پر بجری کی تہہ بچھانا ہوتا ہے۔ اور اگر "کارپٹ" روڈ بنانی ہو تو گرم گرم تازی تازی سڑک پر کاربن بچھا کر ایک بار اور بلڈوزر گزار دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے سڑک فرش کی طرح ملائم ہوجاتی ہے۔
- دو تین دن میں یہ کام مکمل ہوجاتا ہے اور پھر سڑک چلنے لگتی ہے۔ محلے کے بچے اس کارپٹڈ یا سادہ روڈ پر دوڑتے بھاگتے ہیں، کرکٹ کھیلتے ہیں، سائیکل سے کرتب دکھاتے ہیں ریس لگاتے ہیں۔ موٹر سائیکل اور دوسری گاڑیاں اب زیادہ سپیڈ سے گزرنے لگتی ہیں۔
- چند دن محلے والے اس سب کو برداشت کرتے ہیں اس کے بعد سڑک پر سپیڈ بریکر کھڑے ہونے شروع ہوجاتے ہیں۔ ہر دوسرا گھر اپنی مدد آپ کے تحت سیمنٹ بجری لا کر ایک "مناسب" سا سپیڈ بریکر بنا دیتا ہے۔ چناچہ اب گاڑیوں، موٹر سائیکلوں اور سائیکلوں کو ہر چند میٹر کے بعد بریک لگا کر گاڑی آہستہ کرنی پڑتی ہے۔ کچھ چالاک سائیکل اور موٹرسائیکل والے سپیڈ بریکرز کی سائیڈوں سے نکال لے جاتے ہیں لیکن یہ چالاکی چند دن ہی چلتی ہے۔ یا تو سپیڈ بریکر کی سائیڈیں بھی مزید سیمنٹ بجری سے بھر دی جاتی ہیں یا وہاں پتھر یا اینٹیں رکھ دی جاتی ہیں۔ دوسری صورت میں ایک مسلسل کشمکش چل پڑتی ہے، سائیکل سوار ان کو آگے پیچھے کرکے گزرتے رہتے ہیں اور محلے دار ان پتھروں کو سیدھا کرکے لگانے میں لگے رہتے ہیں۔
- سڑک ابھی قابل استعمال ہے چونکہ ابھی بارش نہیں ہوئی یا کسی کا مکان بننا شروع نہیں ہوا لیکن ایسا بہت دیر تک نہیں رہے گا۔ ایک دن بارش ہوگی اور سڑک کے زیریں حصوں اور اطراف میں پانی کھڑا ہوجائے گا۔ چند ایک دفعہ کی بارش کے بعد وہاں گڑھا نمودار ہوجائے گا جو بڑھتا ہی چلا جائے گا۔ پانی کھڑا ہونے کا تیزرفتار ذریعہ گٹر کی بندش بھی ہے۔ گٹر بند ہوگیا تو نئی سڑک کا ستیا ناس ہو گیا، دس دن میں سڑک ایسے ادھڑ جائے گی جیسے پرانی رضائی کا حال ہو جاتا ہے۔
- اسی کے ساتھ ساتھ کوئی نہ کوئی پرانی مکان یا تو ترمیم و اضافہ کی سٹیج پر آجاتا ہے یا پھر اس کے مکینوں کے پاس اتنے پیسے آجاتے ہیں کہ ڈھا کر نیا بنائیں۔ چناچہ مکان دوبارہ بنتا ہے اور ساتھ سیوریج کا پائپ بھی دوبارہ ڈالا جاتا ہے (گھر سے مین ہول تک)۔ چناچہ سڑک پر ایک لمبا چیرا لگ جاتا ہے۔ کبھی اس چیرے کو سیمنٹ بجری سے بھر دیا جاتا ہے لیکن یہ سیمنٹ بجری چند ماہ کے بعد ہی اڑنے لگتی ہے اور چیرا ظاہر ہوجاتا ہے۔ کبھی اس عمومًا ترچھے چیرے پر ایک عدد نیا سپیڈ بریکر بنا دیا جاتا ہے جو دوہرا کام کرتا ہے، سپیڈ بھی کم کراتا ہے اور چیرے کی بدصورتی بھی چھپاتا ہے۔
- مکانوں کی تعمیر کے ساتھ ساتھ ٹیلی فون، واسا اوراسی قبیل کی دوسری کمپنیوں کو ترقیاتی کام یاد آجاتے ہیں چناچہ سڑک بننے کے ایک آدھ سال میں ہی یہ کھودی جاچکی ہوتی ہے۔ اگرچہ یہ کھدائی ایک سائیڈ سے ہوتی ہے لیکن جہاں سے سڑک پار کرنی ہو، وہاں پر نشان ساری عمر کے لیے رہ جاتا ہے کہ یہاں سے فلاں کمپنی کے مزدوروں نے سڑک پار کی تھی۔
- سڑک اب سال بھر پرانی ہوچکی ہے۔ ایک آدھ برسات سہ چکی ہے اور کئی ایک بار گٹر کی بندش بھی، کئی مکان بن چکے ہیں اور واسا بھی ایک بار نظر کرم کرچکا ہے۔ سڑک کا اپنا میٹریل بھی جواب دیتا جا رہا ہے چناچہ گڑھے نمودار ہو رہے ہیں، پہلے سے موجود وسیع ہو رہے ہیں اور سڑک کا پتھر ننگا ہورہا ہے۔
- اگر کارپوریشن کے پاس فنڈ ہوا تو اگلے ایک آدھ سال میں ان بننے والے گڑھوں کو پر کرنے کے لیے بجری آجائے گی ورنہ یہ وسیع ہوتے جائیں گے۔ اور ہر بارش کے بعد ان کی چوڑائی اور گہرائی میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ ایک وقت یہ آئے گا کہ محلے والوں کا پیمانہ صبر لبریز ہوجائے گا اور وہ اپنی مدد آپ کے تحت سڑک بنانا شروع کر دیں گے۔ ری سائیکلنگ کے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے نوتعمیر شدہ مکانوں کا ملبہ سڑک کے گڑھوں میں ڈالا جانے لگے گا۔ اور چند ماہ میں سڑک جو کچھ نہ کچھ ہموار تھی اب سطح مرتفع پوٹھوہار کا منظر پیش کرنے لگے گی۔ اس پر سائیکل، موٹرسائیکل چلانا عذاب بن جائے گا چناچہ سائیکل موٹرسائیکل والے متبادل راستے ڈھونڈیں گے۔ کاریں وغیرہ اوکھی سوکھی چلتی رہیں گی اور وقت گزرتا رہے گا۔
- حکومت بدلے گی یا فنڈ آئیں گے تو اس سڑک کا کسی کو خیال آجائے گا اور دوبارہ سے اس کی تعمیر شروع ہوجائے گی۔ ٹریکٹر آئیں گے جو سڑک پر دبائے ہوئے گھروں کے ملبے کو اکٹھا کریں گے اور ٹرالیاں اٹھا کر شہر سے باہر پھینک آئیں گی۔ چھ انچ سے دس انچ تک پتھر ڈالا جائے گا، بلڈوزر پھرے گا اور پھر بجری کا لیپ ہوگا۔ ایک اور سڑک بن جائے گی، پھر سے ٹوٹنے کے لیے۔
- یہ سارا چکر تین سال میں اوسطًا پورا ہوجائے گا اور ایسے چار یا پانچ چکروں یعنی قریبًا بیس سال بعد نئے بنے مکان، جو تعمیر کے وقت کئی فٹ اونچے رکھے گئے تھے، سڑک کے برابر آجائیں گے یا چند انچ بلند رہ جائیں گے۔ مکینوں کو احساس ہونے لگے گا کہ مکان نیواں ہونے لگا ہے اور برسات میں پانی اندر گھس آیا کرے گا۔ چناچہ مکان کی دوبارہ تعمیر کے منصوبے بننے لگتے ہیں۔ مکان پھر تعمیر ہوتے ہیں اور سڑک پر پھر چیرے لگا جاتے ہیں۔
- اور یہ چکر چلتا رہتا ہے۔
کیسا لگا پاکستان میں سڑکوں کی زندگی کا چکر؟
بڑی چھیتی اردو ول نس کے آیا ایں
جواب دیںحذف کریںالسلام علیکم
جواب دیںحذف کریںبہت زبردست لائف سائیکل پیش کی ہے۔۔۔
پچھلے مہینے دو ہفتوں کے دوران میں یہ ساری لائف سائیکل، بننے سے ادھڑنے تک دیکھ چکا ہوں۔
گھر کے سامنے سڑک زير تعمير ہے؟
جواب دیںحذف کریںشاکر صاحب، بہت عمدہ مشاہدہ ہے 'سڑک کے لایف سایکل' کا۔ اب اسکی اگر ایک تصویری شکل بھی ہو جاتی تو السٹریشن کا مزا آجاتا :)
جواب دیںحذف کریںبتمیز پنجابی لکھدیاں اے نئیں سی کہیا کہ اردو لکھنی ای نئیں، دوزبانی بلاگ بناون دا کہیا سی۔ تے لکھاں گے پنجابی انشاءاللہ تسیں وی دیکھو گے۔
جواب دیںحذف کریںشکریہ عین لام میم۔
پھپھے کٹنی جی کب زیر تعمیر نہیں ہوتی۔ اطراف میں کوئی نہ کوئی سڑک زیر تعمیر ہوتی ہی ہے، ورنہ آتے جاتے تو نظر آتا ہی ہے۔
عدنان میرے ذہن میں بھی یہ خیال آیا تھا لیکن وقت کی کمی وجہ سے اس پر عملدرآمد نہ ہوسکا۔
کئی لوکاں دیاں گلاں دا غصہ نئیں کری دی، اونہاں دا معدہ تبصریاں نال کنیکٹ ہوندا اے، تبصرہ نہ کرن تے روٹی ہضم نئیں ہوندی انہا دی ۔
جواب دیںحذف کریںباقی یہ چکر میرا خیال ہے پوری دنیا میں چلتا ہے، یہاں نیویارک میں تو سڑک بن رہی ہوتی ہے ساتھ ہی کسی دوسرے ادارے والے اسے ادھیڑ رہے ہوتے ہیں، فرق صرف اتنا ہے کہ یہاں جو سڑک ادھیڑتا ہے وہ کام مکمل کرنے کے بعد اسے ٹھیک بھی کر کے جاتا ہے ۔
میرا تبصرہ کدھر گیا؟
جواب دیںحذف کریںکبھی کبھی ميرے دل ميں خيال آتا ہے
جواب دیںحذف کریںکميٹی والوں کو سڑک بننے کے بعد
پائپ دبانے کا کيوں خيال آتا ہے
جناب جب ميں بچہ تھا اور پھر لڑکا تھا يعنی جب ٹيکنالوجی اڈوانس نہيں ہوئی تھی تو سڑک بنانے سے پہلے کھدائی ہوتی تھی کوئی ايک ايک فٹ پھر بڑے پتھر ڈالے جاتے اس پر بجری ڈال کر روڈ رولر چلايا جاتا ۔ پھر موٹی کرش ڈال کر روڈ رولر چلايا جاتا پھر کولتار ڈالا جاتا پھر کولتار والی باريک بجری ڈال کر روڈ رولر چلايا جاتا پھر بغير کولتار باريک بجری ڈال کر روڈ رولر چلايا جاتا ۔
پرانی سڑک ہو تو اُس کے بڑے پتھروں کے اُوپر والی سڑک کو اکھيڑ کر پھينک ديا جاتا اور بغير بڑے پتھر ڈالے پھر اسی طرح سڑک بنائی جاتی جيسے ميں نے لکھا ہے ۔
میرے دوست۔۔۔ اگر یہ سائکل نہ چلے۔۔۔ تو بہت سارے محکموں والے بھوکے ہی مر جائیں۔۔۔
جواب دیںحذف کریںکیا بات ہے ۔۔۔
جواب دیںحذف کریںزبردست لکھا ہے جی
بہت هی اجھی اور ادبی تحریر ہے
جواب دیںحذف کریںبہت اجھی اور زبردست تحریر ہے
جواب دیںحذف کریںممشاہدہ تو غضب کا ہے۔ جہت عمدہ تحریر ہے، آپ نے تو لفظوۂ سے سماں باندھ دیا۔
جواب دیںحذف کریں