پچھلے برس ایک کرم فرما کے لیے مارک ٹوین کا مضمون دی ڈیمڈ ہیومن ریس ترجمہ کیا تھا۔ ادب کے حوالے سے انتہائی محدود مطالعہ ہونے کی وجہ سے کبھی ادبی ترجمہ کرنے کی ہمت ہی نہیں ہوئی۔ یہ بچگانہ سی نوعیت کا ترجمہ بھی آپ احباب کے ساتھ ڈرتے ڈرتے بانٹ رہا ہوں۔
میں نے (نام نہاد) ادنیٰ حیوانات کے عادات و خصائل کا مطالعہ کیا ہے، اور انہیں انسان کے عادات و خصائل سے ملا کر دیکھا ہے۔ مجھے اس کا نتیجہ اپنے لیے باعثِ ذلت محسوس ہوا ہے۔ کیونکہ یہ مجھے مجبور کرتا ہے کہ میں 'انسان کے ادنٰی حیوانات سے عروج' کے ڈارونی نظریے کے ساتھ اپنی وفاداری سے اظہارِ برأت کر دوں؛ چونکہ اب مجھے صاف صاف لگتا ہے کہ اس نظریے کو ایک نئے اور زیادہ سچے نظریے سے تبدیل کر دینا چاہیئے، یہ نیا اور زیادہ سچا نظریہ 'اعلیٰ حیوانات سے انسان کا زوال' کہلا سکتا ہے۔
اس ناپسندیدہ نتیجے پر پہنچنے کے لیے میں نے اندازے یا قیاس کے گھوڑے نہیں دوڑائے، بلکہ ایک ایسا طریقہ استعمال کیا ہے جو عرفِ عام میں سائنسی طریقہ کار کہلاتا ہے۔ اس سے مراد ہے کہ میں نے سامنے آنے والے ہر مفروضے کو حقیقی تجربے کی ناگزیر کسوٹی پر پرکھا ہے، اور اس کے نتیجے کے مطابق اسے اپنایا یا مسترد کیا ہے۔ چنانچہ میں نے اپنے راستے کے ہر قدم پر تصدیق اور ثبوت کی فراہمی کے بعد ہی اگلا قدم اٹھایا ہے۔ یہ تجربات لندن زوالوجیکل گارڈنز میں سرانجام دئیے گئے، اور کئی ماہ کے جفاکش اور تھکا دینے والے کام پر مشتمل تھے۔
ان تجربات کی جزئیات بیان کرنے سے قبل، میں ایک یا دو چیزیں بیان کرنا چاہوں گا جو اگلے حصوں کی بجائے یہاں بیان کرنا مناسب معلوم ہوتی ہیں۔ ان کا مقصد صراحت پیدا کرنا ہے۔ ان اجتماعی تجربات نے میرے خیال کے عین مطابق کچھ عمومی اُصول ثابت کیے، یعنی:
1۔ یہ کہ نسلِ انسانی ایک ممیّز نوع سے تعلق رکھتی ہے۔ اس میں آب و ہوا، ماحول، اور دیگر عوامل کے باعث معمولی تغیرات (جیسے رنگ، قدوقامت، ذہنی استعداد وغیرہ وغیرہ) پائے جاتے ہیں؛ لیکن یہ اپنے آپ میں ایک نوع ہے، اور اسے کسی اور نوع کے ساتھ خلط ملط نہیں کرنا چاہیئے۔
2۔ یہ کہ چوپائے بھی ایک ممیّز خاندان ہیں۔ اس خاندان میں تغیرات پائے جاتے ہیں (جیسے رنگ، حجم، کھانے کی ترجیحات وغیرہ وغیرہ؛ لیکن یہ اپنی ذات میں ایک خاندان ہے)۔
3۔ یہ کہ دیگر خاندان (پرندے، مچھلیاں، حشرات، خزندے وغیرہ) بھی کم یا زیادہ ممیّز ہیں۔ وہ ایک تسلسل میں پائے جاتے ہیں۔ وہ ایک ایسی زنجیر کی کڑیاں ہیں جو اعلیٰ حیوانات سے نیچے پیندے میں موجود انسان تک پھیلی ہوئی ہے۔
میرے کچھ تجربات خاصے متجسسانہ تھے۔ اپنے مطالعے کے دوران میرے سامنے ایک کیس آیا جس میں، کئی برس قبل، ہمارے عظیم میدانوں میں کچھ شکاریوں نے ایک انگریز ارل کی تفریح طبع کے لیے بھینسے کے شکار کا اہتمام کیا۔ انہوں نے بڑا دلکش کھیل پیش کیا۔ انہوں نے بہتر کی تعداد میں یہ عظیم حیوانات مار ڈالے؛ اور ان میں سے ایک کا کچھ حصہ کھا کر بقیہ اکہتر کو سڑنے کے لیے چھوڑ دیا۔ ایک ایناکونڈا اور ایک ارل (اگر ایسی کوئی چیز وجود رکھتی ہے تو) کے مابین فرق کا تعین کرنے کے لیے میں نے کئی ننھے بچھڑے ایک ایناکونڈا کے پنجرے میں ڈالے۔ اس ممنون خزندے نے فوری طور پر ان میں سے ایک کو کچل کر نگل لیا، اور پھر مطمئن ہو کر لیٹ گیا۔ اس نے بچھڑوں میں مزید کوئی دلچسپی ظاہر نہ کی، اور نہ انہیں نقصان پہنچانے کی جانب مائل ہوا۔ میں نے دیگر ایناکونڈا کے ساتھ یہی تجربہ سرانجام دیا؛ نتیجہ ہمیشہ یہی نکلا۔ اس سے ثابت ہوا کہ ایک ارل اور اینا کونڈا میں فرق یہ ہے کہ ارل ظالم ہے جبکہ ایناکونڈا ایسا نہیں؛ اور یہ کہ ارل کو جس کی ضرورت نہ ہو اسے خوامخواہ غارت کر دیتا ہے، لیکن ایناکونڈا ایسا نہیں کرتا۔ اس سے خیال پیدا ہوتا تھا کہ ایناکونڈا کا جدِ امجد ارل نہیں ہے۔ اس سے یہ خیال بھی پیدا ہوتا تھا کہ ارل کا جدِ امجد ایناکونڈا ہے، اور وہ اس وراثتی تبدیلی کے دوران بہت سے خصائل گنوا چکا ہے۔
میں باخبر ہوں کہ بہت سے انسانوں، جنہوں نے کروڑوں روپے کے اتنے انبار لگا لیے ہیں کہ تمام عمر خرچ کرنے سے بھی ختم نہ ہوں، نے مزید دولت کی سگ گزیدہ بھوک ظاہر کی ہے، اور جزوی طور پر یہ بھوک مٹانے کے لیے انہوں نے بے خبروں اور بے کسوں کی جمع پونجی لوٹنے سے بھی گریز نہیں کیا۔ میں نے ایک سو مختلف اقسام کے جنگلی اور پالتو حیوانات کو کھانے کی بڑی مقداریں ذخیرہ کرنے کے مواقع فراہم کیے، لیکن ان میں کسی نے بھی ایسا نہ کیا۔ گلہریوں اور شہد کی مکھیوں اور کچھ پرندوں نے ذخائر جمع کیے، لیکن وہ بھی ایک سرما کے برابر ذخیرہ کر کے پیچھے ہٹ گئے، اور انہیں ایمانداری یا حیلے بازی، کسی بھی طریقے سے مزید کرنے پر مائل نہ کیا جا سکا۔ اپنی بری شہرت کو مزید تقویت دینے کے لیے چیونٹی نے ظاہر کیا کہ وہ رسد ذخیرہ کر رہی ہے، لیکن میں نے دھوکا نہ کھایا۔ میں چیونٹی کو جانتا ہوں۔ ان تجربات نے مجھے قائل کیا کہ انسان اور اعلیٰ حیوانات میں یہ فرق پایا جاتا ہے: انسان حریص اور بخیل ہے؛ وہ نہیں ہیں۔
اپنے تجربات کے دوران میں نے خود کو قائل کیا کہ حیوانات میں سے انسان اکلوتا حیوان ہے جو اہانتیں اور زخم اکٹھے کرتا ہے، انہیں سینچتا ہے، موقع ملنے کا انتظار کرتا ہے، اور پھر بدلہ لیتا ہے۔ اعلیٰ حیوانات بدلہ لینے کے جذبے سے آشنائی نہیں رکھتے۔
مرغ حرم رکھتے ہیں، لیکن یہ ان کی داشتاؤں کی اجازت کے ساتھ ہوتا ہے؛ اس لیے اس میں کوئی برائی نہیں۔ انسان حرم رکھتا ہے لیکن اس کے لیے وحشیانہ طاقت استعمال کرتا ہے، اور اسے خبیثانہ قوانین کی حمایت حاصل ہوتی ہے جن کے بنانے میں دوسری صنف کو کوئی اختیار حاصل نہیں ہوتا۔ اس طرح سے انسان مرغ سے بھی کہیں پست مقام پر جا فائز ہوتا ہے۔
بلیوں کا اخلاق کمزور ہوتا ہے، لیکن وہ بے خبری میں ایسا کرتی ہیں۔ آدمی بلیوں سے نسبِ وراثت کے حصول کے دوران ان کی کمزور اخلاقیات تو اپنے اندر لے آیا لیکن اس نے بے خبری کو پیچھے چھوڑ دیا (خاصیت جس کے باعث بلیاں قابلِ معافی قرار پاتی ہیں)۔ بلی معصوم ہے، انسان نہیں ہے۔
ابتذال، سفلہ پن، فحاشی عریانی (یہ بعینہ انسان تک محدود ہیں)؛ یہ اس نے ایجاد کیے۔ اعلٰی حیوانات میں ان کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔ وہ کچھ نہیں چھپاتے؛ وہ شرمسار نہیں ہوتے۔ انسان، اپنے آلودہ دماغ کے ساتھ، خود کو ڈھانپتا ہے۔ وہ اپنا سینہ اور پُشت برہنہ چھوڑ کر کمرہ ملاقات میں بھی داخل نہ ہو گا، چنانچہ وہ اور اس کے رفقاء نازیبا مشورے سے اتنے حساس ہوتے ہیں۔ انسان ایک ایسا حیوان ہے جو قہقہہ لگاتا ہے۔ لیکن بندر بھی ایسا کرتا ہے، جیسا کہ مسٹر ڈارون نے اشارہ کیا؛ اور اسی طرح آسٹریلوی پرندہ، جسے قہقہہ لگاتا گدھا کہا جاتا ہے، بھی کرتا ہے۔ نہیں! آدمی ایک ایسا حیوان ہے جو شرم سے سرخ ہو جاتا ہے۔ وہ ایسا کرنے یا کرنے کا موقع پانے والا اکلوتا حیوان ہے۔
اس مضمون کے آغاز پر ہم نے دیکھا کہ چند دن قبل تین بھکشوؤں کو جلا کر مار دیا گیا، اور ایک مہمتمم کو سنگدلانہ اذیت پہنچا کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ کیا ہم تفصیلات میں جائیں؟ نہیں؛ یا کیا ہمیں سراغ لگانا چاہیے کہ مہمتمم کے اعضاء کی قطع برید کو اشاعتی الفاظ کی حد میں نہیں لایا جا سکتا۔ انسان (جب وہ شمالی امریکی انڈین ہو) اپنے قیدیوں کی آنکھیں نکال لیتا ہے؛ جب شاہ جان ہو تو بھتیجے کو بے ضرر بنانے کے لیے لوہے کی سرخ سلائیاں پھیر دیتا ہے؛ قرونِ وسطیٰ میں کافروں کے مقابل جوشیلا مذہبی ہو تو اپنے قیدی کی زندہ ہی کھال کھینچ کر پشت پر نمک چھڑک دیتا ہے؛ رچرڈ اول کے دور میں ہو تو کثیر تعداد میں یہودی خاندانوں کو ایک ٹاور میں بند کر کے آگ لگا دیتا ہے؛ کولمبس کے عہد میں ہو تو ہسپانوی یہودیوں کے ایک خاندان کو پکڑ لیتا ہے اور (لیکن یہ قابلِ اشاعت نہیں ہے؛ ہمارے زمانے کے انگلینڈ میں ایک آدمی کو دس شلنگ کا جرمانہ ہوا اور اس کا جرم صرف اپنی ماں کو کرسی کے ساتھ مار مار کر ادھ مُوا کر دینا تھا، اور ایک اور شخص کو چالیس شلنگ کا جرمانہ بھرنا پڑا کہ اس کے قبضے سے چکور کے چار انڈے برآمد ہوئے جن کے ذریعۂ حصول کے بارے میں وہ قابلِ اطمینان وضاحت پیش نہ کر سکا)۔ تمام حیوانات میں، صرف انسان ہی ظالم ہے۔ وہ اکلوتا حیوان ہے جو درد اس لیے دیتا ہے کہ اس سے لطف اندوز ہوا جا سکے۔ یہ ایک ایسی خاصیت ہے جو اعلیٰ حیوانات کے لیے اجنبی ہے۔ بلی خوفزدہ چوہے کے ساتھ کھیلتی ہے؛ لیکن اس کے پاس بہانہ ہے، کہ وہ نہیں جانتی کہ چوہا تکلیف میں ہے۔ بلی معتدل ہے (غیر انسانی طور پر معتدل: وہ چوہے کو صرف ڈراتی ہے، وہ اسے تکلیف نہیں پہنچاتی؛ وہ انسان کی طرح اس کی آنکھیں نہیں نکالتی، یا اس کی کھال نہیں کھینچتی، یا اس کے ناخنوں تلے لکڑی کی کھچیاں نہیں گھسیڑتی)؛ جب وہ چوہے سے کھیلنے سے اکتا جائے تو ایک ہی بار نوالہ بنا کر اسے تمام تکلیف سے نجات دلا دیتی ہے۔ انسان ظالم حیوان ہے۔ وہ اکیلا ہی اس امتیاز کا حامل ہے۔
اعلیٰ حیوانات انفرادی لڑائیوں میں ملوث ہوتے ہیں، لیکن کبھی منظم جتھوں میں یہ کام نہیں کرتے۔ انسان اکلوتا حیوان ہے جو خباثتوں کی خباثت، یعنی جنگ، میں ملوث ہوتا ہے۔ وہ اکلوتا حیوان ہے جو اپنے بھائی بندوں کو گرد جمع کرتا ہے اور سفاکی اور پرسکون دل کے ساتھ اپنی نوع کو نابود کرنے کے لیے نکل پڑتا ہے۔ وہ اکلوتا حیوان ہے جو فرومایہ اجرت کے بدلے جنگ پر نکل کھڑا ہو گا، جیسے ہمارے انقلاب میں کرائے کے جرمن سپاہیوں نے کیا، اور جیسے لڑکا نما شہزادہ نپولین نے زولو کی جنگ میں کیا، اور اپنی ہی نوع کے اجنبیوں کے قتلِ عام میں مدد فراہم کرے گا جنہوں نے اسے کوئی نقصان نہیں پہنچایا اور جن کے ساتھ اس کا کوئی جھگڑا نہیں۔
انسان اکلوتا حیوان ہے جو اپنے بے کس ہم وطن کو لوٹ لیتا ہے -- اس کو قبضے میں لے لیتا ہے اور اسے ملکیت سے بے دخل کر دیتا ہے یا تباہ کر دیتا ہے۔ انسان نے ہر قرن میں ایسا کیا ہے۔ اس کُرے پر زمین کا ایک ایکڑ بھی ایسا نہیں ہے جو اپنے جائز حقدار کے قبضے میں ہو، یا جسے مالک در مالک، سلسلہ در سلسلہ، طاقت اور خون ریزی کے ذریعے ہتھیایا نہ گیا ہو۔
انسان اکلوتا غلام ہے۔ اور وہی اکلوتا حیوان بھی جو غلام بناتا ہے۔ وہ ہمیشہ کسی نہ کسی شکل میں غلام رہا ہے، اور ہمیشہ اس کی جبری بندش میں کسی نہ کسی انداز میں غلام موجود رہے ہیں۔ ہمارے دور میں وہ ہمیشہ اجرت کے لیے کسی نہ کسی انسان کا غلام ہوتا ہے، اور اس انسان کا کام کرتا ہے؛ اور اس غلام کے نیچے کم تر اجرت پر دیگر غلام ہوتے ہیں، اور وہ اِس کا کام کرتے ہیں۔ اعلٰی حیوانات اس حوالے سے خاص ہیں کہ وہ اپنے کام بذاتِ خود سرانجام دیتے ہیں اور اپنی روزی آپ کماتے ہیں۔
انسان اکلوتا محب وطن ہے۔ وہ خود کو اپنے ملک، اپنے ذاتی جھنڈے کے نیچے الگ تھلگ کر لیتا ہے اور پھر دوسری اقوام کا ٹھٹھہ اڑاتا ہے، اور بھاری اخراجات پر بے شمار وردی پوش قاتل تیار رکھتا ہے تاکہ دوسروں کے ممالک کے ٹکڑے ہتھیا سکے، اور انہیں اپنے ملک کے ساتھ ایسا کرنے سے باز رکھ سکے۔ اور مہمات کے درمیانی اوقات میں، وہ اپنے ہاتھ دھو کر خون صاف کر لیتا ہے اور منہ سے انسان کی عالمی اخوت کا درس دینے لگتا ہے۔
انسان مذہبی حیوان ہے۔ وہ اکلوتا مذہبی حیوان ہے۔ وہ اکلوتا مذہبی حیوان ہے جس کے پاس سچا مذہب ہے، کئی ایک سچے مذہب۔ وہ اکلوتا حیوان ہے جو اپنے پڑوسی سے اپنی ذات کی طرح محبت کرتا ہے، اور اگر اس کا عقیدہ درست نہ ہو تو اس کا گلا کاٹ دیتا ہے۔ اس نے خوشی اور جنت تک اپنے بھائی کا راستہ صاف کرنے کی مخلصانہ کوشش میں کرۂ ارض کو ایک قبرستان بنا دیا ہے۔ اس نے سیزر کے عہد میں ایسا کیا، اس نے عہدِ تفتیش میں ایسا کیا، اس نے فرانس میں دو صدیوں تک ایسا کیا، اس نے میری کے دور کے انگلینڈ میں ایسا کیا، وہ تب سے ایسا کر رہا ہے جب اس نے پہلی روشنی دیکھی تھی، اس نے آج کے کریٹ میں ایسا کیا (بمطابق اوپر پیش کردہ ٹیلی گرام) وہ مستقبل میں بھی کسی جگہ ایسا ہی کرے گا۔ اعلٰی حیوانات کا کوئی مذہب نہیں۔ اور ہمیں بتایا جاتا ہے کہ آخرت کی زندگی میں انہیں شامل نہیں کیا جائے گا۔ میں حیران ہوتا ہوں کہ آخر کیوں؟ پسند کا یہ معیار قابلِ اعتراض سا معلوم ہوتا ہے۔
آدمی عقلی حیوان ہے۔ خیر دعویٰ تو یہی کیا جاتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس پر مباحثہ ہو سکتا ہے۔ درحقیقت، میرے تجربات نے مجھے بذریعہ ثبوت بتایا کہ وہ غیر عقلی حیوان ہے۔ اس کی تاریخ دیکھیں، جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا۔ مجھے تو صاف لگتا ہے کہ وہ جو کچھ بھی ہو کم از کم ایک عقلی حیوان نہیں ہے۔ اس کا ماضی ایک جنونی کا شاندار ماضی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس کی ذہانت کے خلاف مضبوط ترین حقیقت یہ ہے کہ اپنے پیچھے ایسے ماضی کے باوجود وہ بڑی نرمی سے خود کو ان سب کا سربراہ حیوان مقرر کر لیتا ہے: جبکہ اپنے ہی معیارات کے مطابق وہ ارذل ترین حیوان ہے۔
حقیقت میں، انسان ایک ایسا احمق ہے جس کا علاج نہیں ہو سکتا۔ سادہ چیزیں جو دیگر حیوان باآسانی سیکھ لیتے ہیں، وہ انہیں سیکھنے کے قابل نہیں۔ میرے تجربات میں یہ پیش آیا۔ ایک گھنٹے میں مَیں نے ایک بلی اور کتے کو دوست رہنا سکھایا۔ میں نے انہیں ایک پنجرے میں ڈالا۔ اگلے گھنٹے میں مَیں نے انہیں خرگوش کے ساتھ دوستی سے رہنا سکھا دیا۔ دو دنوں کے دوران میں ایک لومڑی، ایک ہنس، ایک گلہری اور کچھ فاختاؤں کو شامل کرنے میں کامیاب رہا۔ آخر کار ایک بندر بھی شامل کر لیا۔ وہ پرامن -- بلکہ پیار بھرے -- انداز میں اکٹھے رہے۔
اس کے بعد، میں نے ایک پنجرے میں ٹپریری سے ایک آئرش کیتھولک کو محبوس کر دیا، جیسے ہی وہ سدھایا گیا تو میں نے ایبرڈین سے ایک اسکاچ پريسبيٹيريَن کو ساتھ ڈال دیا۔ بعد ازاں قسطنطنیہ سے ایک ترک؛ کریٹ سے ایک یونانی عیسائی؛ ایک آرمینیائی؛ آرکنساس کے جنگلات سے ایک میتھوڈسٹ؛ چین سے ایک بُودھ؛ بنارس سے ایک برہمن۔ آخر میں واپِنگ سے جیشِ نجات کا ایک کرنل ڈالا۔ پھر میں دو مکمل دن ان سے دور رہا۔ جب میں نتائج کے اندراج کے لیے واپس آیا، تو اعلیٰ حیوانات کا پنجرہ بالکل ٹھیک تھا، لیکن دوسرے پنجرے میں خونی فسادات اور پگڑیوں کے سِروں اور طرپوشوں اور اونی چادروں اور ہڈیوں اور ماس کے علاوہ کوئی زیرِ مطالعہ نمونہ باقی نہیں بچا تھا۔ یہ عقلی حیوانات ایک مذہبی مسئلے پر اختلاف کا شکار ہوئے تھے اور اس مسئلے کو ایک 'اعلٰی عدالت' میں لے گئے۔
فرد یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہے کہ کردار کے حقیقی غرور میں مبتلا انسان گھٹیا ترین اعلیٰ حیوانات تک پہنچنے کا دعویٰ بھی نہیں کر سکتا۔ یہ بالکل واضح ہے کہ وہ دستوری طور پر اس بلندی تک پہنچنے کے لیے معذور ہے؛ یہ کہ وہ دستوری طور پر ایک نقص کا شکار ہے جس کے باعث ایسی کوئی کوشش ہمیشہ کے لیے ناممکن ہو جانی چاہیئے، چونکہ یہ عیاں ہے کہ اس میں یہ نقص مستقل، لازوال اور ناقابلِ انسداد ہے۔
میرے خیال میں یہ نقص حسِ اخلاق ہے۔ ایسی کوئی چیز رکھنے والا یہ اکلوتا حیوان ہے۔ یہ اس کی تنزلی کا راز ہے۔ یہ ایسی صفت ہے جو اسے غلط کرنے کے قابل کرتی ہے۔ اس کا اور کوئی منصب نہیں ہے۔ یہ کوئی اور فعل سرانجام دینے کے قابل ہی نہیں۔ ایسا کبھی نہیں ہو سکتا تھا کہ نفرت کا کوئی اور مقصد ہو۔ اس کے بغیر، انسان کچھ غلط نہیں کر سکتا تھا۔ وہ فوراً اعلیٰ حیوانات کے رتبے پر عروج کر جائے گا۔
چونکہ حسِ اخلاق کا صرف ایک ہی منصب ہے، اکلوتی اہلیت (یعنی انسان کو غلط کرنے کے قابل بنانا) یہ صریحاً اس کے لیے کسی قدر کی حامل نہیں۔ یہ اس کے لیے اتنی ہی بے قدر ہے جیسے کوئی بیماری ہو۔ درحقیقت، یہ اعلانیہ طور پر ایک بیماری ہے۔ باؤلا پن برا ہے، لیکن یہ اس بیماری جتنا برا نہیں۔ باؤلا پن انسان کو ایک کام کرنے کے قابل بناتا ہے، جو وہ صحت مند حالت میں کبھی نہ کرے: زہریلے دانتوں سے کاٹ کر اپنے پڑوسی کو مارنا۔ باؤلے پن کا شکار کوئی بھی انسان بہتر نہیں ہے: حسِ اخلاق انسان کو غلط کرنے کے قابل بناتی ہے۔ یہ اسے ہزاروں طریقوں سے غلط کرنے کے قابل بناتی ہے۔ باؤلا پن تو حسِ اخلاق کے مقابلے میں ایک معصوم بیماری ہے۔ تو پھر، حسِ اخلاق کا حامل کوئی بھی انسان بہتر انسان نہیں ہے۔ تو کیا آدم پر خدائی لعنت اس کی وجہ ہے؟ صاف طور پر یہ آغاز میں جو تھی: انسان پر حسِ اخلاق کا عذاب؛ اچھائی کو برائی سے ممتاز کرنے کی صلاحیت؛ اور اس کے ساتھ، لازماً، برائی کرنے کی صلاحیت؛ چونکہ مُرتکب میں برائی کے شعور کے بغیر کوئی برا فعل سرزد نہیں ہو سکتا۔
تو اس لیے میں نتیجہ نکالتا ہوں کہ ہم، کسی دُور پار کے جد سے (کوئی خردبینی ایٹم جو پانی کے ایک قطرے کے عظیم افقوں کے مابین اتفاقاً مزے لے رہا ہو گا) حشرہ در حشرہ، حیوان در حیوان، خزندہ در خزندہ، طویل راستے پر گندگی اور کم تر معصومیت پر اترتے رہے، یہاں تک کہ ہم ارتقاء کی ارذل ترین منزل پر آ پہنچے (جسے نسلِ انسانی کا نام دیا جا سکتا ہے)۔ ہم سے ارذل کچھ نہیں ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
براہ کرم تبصرہ اردو میں لکھیں۔
ناشائستہ، ذاتیات کو نشانہ بنانیوالے اور اخلاق سے گرے ہوئے تبصرے حذف کر دئیے جائیں گے۔