جمعرات، 7 جنوری، 2016

خاک ہوتا میں تیری گلیوں کی

کچھ قارئین کے خیال میں کبھی کبھی میں بہت اچھا لکھ لیتا ہوں۔ لفظ جوڑنا بڑی پرانی بیماری ہے۔ عرصہ ہوا، ایک عشرہ اس بلاگ کو ہو گیا اور اس سے بھی پہلے سے لفظ جوڑ جوڑ کر ٹاٹ بُننے کی عادت ہے۔ کبھی کبھی لفظوں کی کُترن سے بنی یہ گدڑیاں اتنی اچھی بن جاتی ہیں کہ دیکھنے والے پسندیدگی کی رعایت دے جاتے ہیں۔ لفظ لکھاری کے غلام ہوتے ہیں۔ جیسے لوہا لوہار کا غلام ہوتا ہے، اس کے ہاتھوں میں ڈھلتا چلا جاتا ہے۔ جیسے بڑھئی لکڑی میں سے اور مصور رنگوں میں سے شاہکار نکال لاتا ہے۔ لیکن میرے جیسے لفظوں کے لکھاری نہیں لفظوں کے بھکاری ہوا کرتے ہیں۔ کہ جب دل کرے لفظ مہربان ہو جاتے ہیں اور جب دل کرے رُوٹھ جاتے ہیں۔ لفظوں کی یہ لُکن میٹی تاعمر چلتی ہے، دھوپ چھاؤں کا کھیل کبھی ختم نہیں ہوتا۔ اسی لیے کبھی کبھی تو پوبارہ ہو جاتے ہیں لیکن اکثر تین کانے ہی نکلتے ہیں۔

سنا ہے اقبال پر اشعار اُترا کرتے تھے۔ جب میرے جیسے بھکاری یہ سنتے ہیں تو خود کو اقبال نہیں تو اس کے آس پڑوس کی کوئی چیز سمجھ کر لکھنے بیٹھ جاتے ہیں۔ لیکن لفظ رُوٹھے ہوں تو خالی کاغذ منہ چِڑاتا رہتا ہے۔ چار حرف جُڑ بھی جائیں تو معنی سے خالی، بے روح ڈھانچے وجود میں آتے ہیں۔ ذہن و دل میں جو کچھ کہنے کی تمنا ہوتی ہے اس کو الفاظ کا جامہ نہیں پہنایا جا سکتا۔ جب لکھنا بھی ہو اور لفظ نہ ملیں تو اندر مانو آرے چلتے ہیں، بن پانی کے مچھلی کے کلیجے پر بھی شاید ایسے ہی آرے چلتے ہوں گے۔ جہاں کچھ بھی نہ ہو، کوئی ہریاول نہ ہو، بنجر بیابان ویرانہ ہو، وہاں سے بھلا چشمہ کیسے پھُوٹے؟ جب زبردستی چشمہ نکالنے کی کوشش کرو تو پھر یہی کچھ ہو گا۔ خلا میں سانس لینے سے بھلا آکسیجن تو نہیں مل جائے گی نا۔

بے بسی، بے کسی، کم مائیگی، کونسا احساس ہے جو اس تڑپن میں شامل نہیں ہوتا۔ اور جب لکھنا کسی ایسی ہستی کے بارے میں ہو، کہ جس کے بارے میں لکھنے میں لوگ فخر محسوس کریں، اور شاکر جیسے کمی کمین بھی ان ﷺکے مدح خوانوں میں نام لکھوانا چاہیں، لیکن لفظ نہ ملیں۔ دل کا مُدعا زبان پر آنے سے پہلے ہی آنسوؤں کے راستے بہ نکلے۔ تو ایسی بے بسی اور بے کسی کو کیا نام دیا جائے۔ حسان بن ثابتؓ سے لے کر آج تک ان کے جتنے مدح خواں ہوئے، کتنے خوش نصیب لگتے ہیں۔ اور پھر اپنے جلے نصیبوں پر نگاہ جاتی ہے تو اور رونا آتا ہے۔ آنسو اور اُبل پڑتے ہیں۔ محمد الرسول اللہ ﷺ کی شان میں لکھنے والے کتنے خوش نصیب ہیں۔ شاعر ان کی شان میں شعر کہتے ہیں، کتنے خوبصورت شعر کہتے ہیں۔ شاکر جیسے کمی کمین شعر نہیں کہہ سکتے تو نثر کے چار لفظ بھی نہیں لکھ پاتے کہ ان کی اتنی اوقات نہیں ہے۔ رحمتِ ایزدی کی آس میں نظریں ہر بار خالی لوٹ آتی ہیں، کاسہ لفظوں سے خالی ہی رہتا ہے اور پھر ایک وقت آتا ہے کہ آنسو بھی خشک ہو جاتے ہیں۔ صرف سسکیاں باقی رہ جاتی ہیں۔ اور حسن نثار پر رشک آتا ہے۔

تیرے ہوتے جنم لیا ہوتا
کوئی مجھ سا نہ دوسرا ہوتا
سانس تُو لیتا اور میں جی اُٹھتا
کاش مکہ کی میں فضا ہوتا
خاک ہوتا میں تیری گلیوں کی
اور تیرے پاؤں چومتا ہوتا

اتوار، 3 جنوری، 2016

دو مناظر

میرے سامنے دو مناظر ہیں، دو تصاویر، ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ موجود لیکن متضاد تصاویر اور میں ان دونوں تصاویر میں ایک مِس فٹ عنصر:

میری کھڑی کے پار پہلا منظر جیسے صدیوں سے یونہی ساکن ہے۔۔کسی مصور کی پینٹنگ کی طرح۔۔۔تاحدِ نگاہ برستی بارش ۔۔ایک کے بعد ایک قطرہ ایسے قطار اندر قطار اترتا چلا آتا ہے جیسے آسمان سے زمین تک پانی کی چادر ٹنگی ہوئی ہو۔ ایک مخصوص ردھم میں ہلتے درخت اور اکثر کانوں تک پہنچ جانے والی ٹِپ ٹِپ کی  آواز۔ لیکن اس منظر کے سکون میں کبھی کبھی ہلچل پیدا ہو جاتی ہے اور جیسے زندگی انگڑائی لے کر اُٹھنے کی کوشش کرنے لگتی ہے۔۔۔کسی کار کے گزرنے سے، کسی چمنی سے دھواں برآمد ہونے سے، کسی پرندے کے منظر میں در آنے سے۔ اب پھر اس ابدی پینٹنگ میں زندگی نظر آ رہی ہے کہ ایک پرندہ بارش کے خلاف بغاوت کر کے گھر سے نکل آیا ہے۔۔۔۔

یہ میری نسل کے لوگوں کا ا لمیہ ہے یا خوش قسمتی کہ میرے سامنے ایک دوسرا منظر بھی ہے۔ میرے لیپ ٹاپ کی برقی اسکرین پر چلتا ہوا ڈیجیٹل منظر۔۔جس پر کھڑکی کے باہر ہونے والے عوامل کا کوئی اثر نہیں ہے۔ سیانے کہتے ہیں کہ یہ منظر برقی اشاروں سے تخلیق کردہ ایک فریبِ نظر کے سوا کچھ نہیں، کہ ماؤس سے کلک کرنے اور لیپ ٹاپ اسکرین پر ہاتھ لگانے سے ردعمل کا احساس سب مصنوعی ہیں۔ لیکن حقیقت سے مجاز اور قدرتی سے مصنوعی کا فرق آج مجھے اچھا لگتا ہے۔ یہی وہ منظر ہے جس پر میرے اپنے، ہزاروں میل دور میرے دیس میں موجود میرے اپنے نمودار ہوتے ہیں تو میں چند لمحوں کے لیے کھڑکی کے باہر منجمد اس ازلی تصویر سے جدا ہو کر وہاں جا موجود ہوتا ہوں، ان گلی کُوچوں میں جن کا طواف میری روح اب بھی کرتی ہے۔ اور اسی مصنوعی منظر پر بار بار کچھ نئے چہرے بھی اُبھر آتے ہیں۔ زندہ، جوان، شوخ، چنچل، اور شرارت بھری آنکھوں والے کھلکھلاتے چہرے جنہیں ایک ماہ پہلے تک میں جانتا بھی نہ تھا۔ لیکن اب وہ ایک اجنبی دیس میں جیسے میرا خاندان ہیں۔ میرے دیس کی جانب کھُلنے والی کھڑکی، مجھے میرے اپنوں کی یاد دلاتے، حوصلہ دلاتے میرے اپنے، میرے مُلک کا سرمایہ، میرے مُلک کے ذہین ترین دماغ۔۔۔جن کا ساتھ میرے لیے باعثِ حوصلہ اور باعثِ فخر ہے۔

اور پھر میں ہوں، ان دونوں مناظر میں ایک مِس فٹ عنصر۔۔۔۔۔

بدھ، 30 دسمبر، 2015

قصہ ہماری ایک کچیچی کا

والدہ کہا کرتی ہیں کہ تیرے تایا عبد الرشید کے ماتھے پر پیدا ہوتے ہی تیوری چڑھی ہوئی تھی۔ اللہ سائیں تایا عبد الرشید کو صحت و تندرستی عطاء فرمائے ، میرے والد صاحب سے بڑے چار بھائیوں میں سے اب یہ اور تایا جمیل ہی حیات ہیں۔ تایا جی کی تیوری کچھ ایسی ہی چیز ہے جیسے کسی کمپنی کا رجسٹرڈ ٹریڈ مارک ہو۔ مائیکروسافٹ ونڈوز کے چار ڈبے، پیپسی کا نیلا اور سرخ دائرہ اور، انٹیل کا نیلا اسٹیکر دور سے ایک نظر میں پہچانا جاتا ہے۔ اسی طرح ہمارے تایا جی کا ٹریڈ مارک ان کے متھے کی چار لکیریں جنہیں اردو میں تیوری  اور پنجابی میں گھُوری کہتے ہیں، دور سے ہی نظر آ جاتی ہیں۔ ابھی میں نے آپ کو بتایا ہی نہیں کہ والدہ کو یہ کہنا یاد کیوں آیا کرتا ہے۔ تو اس کی وجہ میری ذات شریف ہے۔ پچھلے تیس برسوں میں روز افزوں وسیع ہوتے متھے کے ساتھ جو چیز میں نے بڑے نازوں سے اپنے ساتھ پالی ہے وہ میرے متھے کی چار لکیریں ہیں۔ اب تو اتنی عادت ہو گئی ہے کہ کبھی کبھی ہنستے ہوئے بھی متھا گھُورنے لگ جاتا ہے۔ والدہ کہتی ہیں کہ گھُوری تم نے اپنے تائے سے لی ہے۔

گھُوری میں تایا جی اور والد صاحب کے غصے کا دخل ہو سکتا ہے کہ یہ وراثتی معاملہ ہے۔ لیکن کچیچی اس میں قطعاً ہماری ذاتی ایجاد ہے۔ کچیچی کا اردو ترجمہ دانت پیسنا بنتا ہے لیکن پنجابی والے معانی اس میں عنقا ہیں۔ کچیچی ایک کیفیت کا نام ہے جو کسی بھی بندے کو کسی بھی وقت چڑھ سکتی ہے۔ یہ صرف ایک فعل نہیں، ایک حالت ہے۔ جب کچیچی چڑھتی ہے تو دانت پیسنے کے ساتھ ساتھ کچھ اور افعال بھی سرزد ہو جاتے ہیں۔ جیسے ماتھے پر گھُوری، جبڑوں کا بھینچ جانا، کان سرخ اور آنکھوں سے آگ برسانے کی کوشش، اور پھر خون کا نقطہ کھولاؤ کے قریب پہنچ جانا۔ ان ساری کیفیات سے یہ ناتواں اپنے ابتدائی ایام سے واقف ہے۔ اس ناتواں وجود پر فرانسیسی فلسفی رینے دیکارت کا قول ("میں سوچتا ہوں اس لیے میں ہوں") کچھ ترمیم و اضافے کے بعد ایسے فِٹ ہو سکتا ہے کہ "میں کچیچتا ہوں اس لیے میں ہوں"۔ شاید فدوی کو اپنے ہونے کا احساس ہی کسی اوّلین کچیچی سے ہوا تھا۔ اس حوالے سے ایک تھیوری یہ بھی ہے کہ اس دنیا میں پیدا کرنے کے مرکزی مقصد یعنی اللہ کی عبادت  کے علاوہ ہمیں خالق نے جو اضافی ذمہ داریاں سونپیں ان میں سے ایک کچیچنا بھی تھا۔ اور اللہ کے فضل سے پچھلے تین عشروں سے ہم عبادت کا فرض انجام دینے میں چاہے کوتاہی کر جائیں، کچیچی کا فرض بہ احسن و خوبی سرانجام دیتے چلے  آ رہے ہیں۔

فنکاروں، اداکاروں اور مشاہیر سے پوچھا جاتا ہے کیا بچپن سے ہی یہ بننا چاہتے تھے؟ پہلی بار کیسے احساس ہوا کہ آپ کے اندر ایک فلاں چھپا بیٹھا ہے؟ اسی فلو میں ہم سے پوچھا جائے کہ پہلی کچیچی کب لی تھی، تو اس کا جواب دینا مشکل ہو گا۔ چونکہ ہمارے لیے کچیچی روزمرہ کے معمولات کا ایک حصہ رہی ہے۔ کچیچی لینا ہمارے لیے کچھ ایسا ہی نارمل عمل تھا جیسے بکری کے بچے (میمنے) کے لیے بے بے کرنا۔ ایک عرصے تک ہم بھی کچیچنے کو ہوا، پانی اور روٹی کی طرح زندگی کی ضرورت سمجھتے رہے۔ یادوں کے افق پر اس کی نفی کرتی ہوئی پہلی رنگین تصویر جو نقش ہے وہ ہمارے گیارہویں کے ٹیوشن پڑھانے والے پروفیسر صاحب تھے۔ پی ایچ ڈی اسسٹنٹ پروفیسر جو جامعہ زرعیہ فیصل آباد میں استاذ تھے اور ساتھ ہومیو پیتھی کا شغل فرمایا کرتے تھے۔ انہوں نے ہمارے چہرے پر طاری رہنے والی اس مستقل کیفیت کو دیکھ کر ایک دن ہمیں پکڑ کر زبردستی بٹھا لیا، اپنی ہومیو پیتھی والی کتاب کھول لی اور ہم سے سوال جواب کرنے کے بعد ایک انتہائی کڑوی دوائی کے چند قطرے حکماً ہماری زبان پر ٹپکائے۔ اس دن ہمیں ایسا لگا کہ ہماری کچیچیی ہی دوائی کی صورت میں ہمارے سامنے آ گئی ہے۔ اللہ ان پروفیسر صاحب کا بھلا کرے، وہ ہمارا علاج تو نہ کر سکے لیکن علاج کرنے کی کوشش ضرور کی۔ اللہ انہیں نیت کا ثواب عطاء فرمائے۔

گیارہویں کے بعد بھی ظاہر ہے ہم زندہ و جاوید رہے اور ابھی تک بفضل تعالٰی شریکوں کے سینوں پر مونگ دلتے ہشاش بشاش، اور ہٹے کٹے (چلیں اس کا دس فیصد کر لیں) ہیں۔ اور ہمارا یہ شغل بھی ویسے ہی جاری و ساری ہے۔ اللہ نے وجود بھی دھان پان سا دے رکھا ہے، یا اس کو دھان پان رکھنے میں ہماری کچیچیوں کا عمل دخل ہے۔ ایک تھیوری یہ پیش کی جاتی ہے کہ کچیچیوں سے ہم اپنا خون اتنا جلا لیتے ہیں کہ وجود دھان پان سے آگے ہی نہیں بڑھ پاتا۔ اس سلسلے میں کتنی سچائی ہے اس کا جواب تو وقت ہی دے گا، ہم نے اپنی ایک کچیچی پر یہ سب لکھنے کا فیصلہ کیا تاکہ سند رہے اور بوقتِ ضرورت کام آوے۔

کل کچھ احباب کے ساتھ کہیں پھرنے پھِرانے کا پروگرام تھا اور حسبِ عادت کسی بات پر ہمیں کچیچی چڑھ گئی۔ آج صبح  سو کر اٹھے تو کچیچی جا چکی تھی۔ اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے ہم نے چند سطریں گھسیٹ ڈالیں۔ اپنی کچیچیوں سے ہی ہم نے سیکھا ہے کہ کچیچی کوئی اچھی چیز نہیں ہے۔ کچیچی میں خون مسلسل دھیمی آگ پر کھولتا رہتا ہے جسمانی و نفسیاتی درجۂ حرارت میں اضافہ اگر دیر تلک چلتا رہے تو صحت کے لیے قطعاً کوئی اچھی چیز نہیں ہے۔ ثبوت کے لیے آپ ہمارے فیس بُک صفحے پر ڈھیر ساری تصاویر ملاحظہ کر سکتے ہیں۔ کچیچنا ایک آرٹ ہے لیکن اس سے اتنی ہی جلد نجات حاصل کر لینا اس سے بھی بڑا آرٹ ہے۔ اور ہمارے نبی ﷺ کا ارشادِ گرامی کہ اس سلسلے میں اکسیر کا درجہ رکھتا ہے کہ غصہ آنے پر اندازِ نشست (کھڑے ہیں تو بیٹھ جائیں، بیٹھے ہیں تو لیٹ جائیں۔۔۔) تبدیل کر لیا جائے، وضو کر لیا جائے یا میں نے جھگڑا کرتے وقت سعودی عربوں کے طرزِ عمل بارے سنا ہے کہ چھڑانے والے لڑنے والے فریقین کو صلو علی الحبیب کے الفاظ سے درود شریف کی تلقین کرتے ہیں۔ اور نبی ﷺ کا تو نامِ نامی ہی ایسا ہے کہ زبان پر آتے ہی دل نرم پڑ جاتا ہے۔ اللہم صل علی محمد و اٰل محمد و اصحاب محمد۔

اپنی کچیچیوں سے تنگ آ کر ایک دن ہم بابا جی سرفراز اے شاہ صاحب کی خدمت میں چلے گئے جو کسی بابے کی خدمت میں حاضری کا اوّلین موقع تھا۔ ہم نے عرض کیا سر غصہ بہت آتا ہے جواباً انہوں نے دعا کر کے ایک ٹافی عنایت فرما دی۔ یہ ان کی دعا کا اثر ہے یا ہماری ڈھلتی عمر کا تقاضا ہے، وسیلہ جو بھی ہو ، اللہ کریم کی خاص رحمت ہے کہ اب احساس ہو جاتا ہے اور ہم اپنے آپ کو لعن طعن کر کے اس کیفیت سے نکلنے کی کوشش کر لیتے ہیں۔ جس طرح سٹنٹ سین کے نیچے لکھا ہوتا ہے کہ گھر پر ٹرائی مت کریں، اسی طرح آپ قارئین سے بھی التماس ہے کہ گھر پر غصہ ٹرائی مت کریں بلکہ نبوی ﷺ نسخہ آزمائیں، اور میری گزارش تو یہی ہو گی کہ درود شریف پڑھنے سے غصہ چلا جاتا ہے۔
اور آخر میں فیض کا ایک شعر
قرب کے نا وفا کے ہوتے ہیں
سارے جھگڑے انا کے ہوتے ہیں

جمعہ، 25 دسمبر، 2015

تاثرات

کرسمس کے باضابطہ آغاز میں ابھی کچھ وقت باقی ہے۔ شہر کے گرجا گھروں کے گھنٹے مسیح کی ولادت کی خوشی میں ہر کچھ عرصے بعد بجنے لگتے ہیں۔ میری کھڑکی پر ابھی ابھی ہونے والی بارش کے ان گنت قطرے ایسے بکھرے ہیں جیسے دور بہت دور میرے دیس پاکستان کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں بیس برس پہلے کی راتوں میں آسمان پر ستارے بکھرے ہوا کرتے تھے۔ میرے سامنے والی عمارتوں میں کہیں کہیں جگنو نما ننھی ننھی روشنیاں نظر آ رہی ہیں ۔ ایک دو جگہ ہشت رخ ستارے بھی روشن ہیں۔ سٹریٹ لائٹ  کی روشنیاں درختوں کے سائے، دھندلے سائے میری بصارتوں تک پہنچا رہی ہیں۔ ٹنڈ منڈ درخت جنہیں دن کی روشنی میں ذرادور سے دیکھنے پر ہریالی کا گمان ہوتا ہے لیکن قریب جانے پر احساس ہوتا ہے کہ بارشوں کی زیادتی نے ان پر کائی کی مستقل تہہ چڑھا رکھی ہے۔ دن ابھی روشن ہو تو کبھی کبھار کوئی اجنبی سا پرندہ قریب سے اڑتا چلا جاتا ہے اور اس کے پیچھے پیچھے یادوں کے پرندے بھی اڑان بھر کر اندر ہلچل مچا دیتے ہیں۔ میرے شہر فیصل آباد کی گرد اور دھواں، اور گرد بھرے درختوں پر چہچہاتی چڑیاں، کوے ، کبوتر بازوں کے کبوتر سب اڑان بھرنے چلے آتے ہیں۔ اور میں ہزاروں میل دور ہو کر بھی وہیں جا پہنچتا ہوں جہاں ایک ماہ پہلے میرے بھائی کی شادی کا ہلا گلا تھا، اور پھر میں یہاں آنے کے بارے میں اندر ہی اندر بے قرار تھا۔

یہ شہر بہت اچھا ہے۔ صاف ستھرا ، نیٹ اینڈ کلین، قانون انکل کے سامنے مؤدب اور فرمانبردار۔ لیکن اس سب کے باوجود جب بھی اس کے بارے میں سوچوں تو اجنبی، سرد، سرمئی جیسی صفات جیسے اوپر ہی کہیں رکھی ہوتی ہیں فوراً سامنے آن موجود ہوتی ہیں۔ ایک اجنبی دیس کا اجنبی شہر جس کی اجنبی زبان میں سیکھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ سو تک گنتی، سبزیوں اور پھلوں کے نام، نشست و برخاست کے کلمات اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہر روز گھر سے نکل کر اسی راستے پر، اسی عمارت میں پہنچتا ہوں اور پھر وہیں واپسی جہاں سے صبح چلا تھا۔ جیسے ایک دائرے کا سفر۔۔۔رہائش سے اسکول ۔۔۔مسجد ۔۔۔گروسری کی چند دوکانیں ۔۔۔گھر۔۔۔اسکول۔۔۔اور دائرہ مکمل ہو جاتا ہے۔ اس دائرے میں کہیں کہیں دراڑ اس وقت پڑتی ہے جب ہم چودہ لوگوں کا گروپ کوئی پارٹی ارینج کر لے۔ آج بھی پاکستان کے ان ہونہار ترین لوگوں میں بیٹھا تو جیسے پاکستان کی جانب ایک کھڑکی کھلی رہی۔ ہنسی، قہقہے، چھیڑ چھاڑ ، دیر سے آنے پر غصہ اور پھر کھانا۔۔۔۔اور بیچ میں میری چولیں۔۔۔میرے پرانے احباب کے خیال میں میری تعلیم ایم فِل لسانیات نہیں ایم فِل میراثیات ہے۔ شاید ان کا کہنا بھی ٹھیک ہی ہے کہ میں نے اپنے اوپر ایک خاص کیفیت کچھ ایسے طاری کر رکھی ہے کہ  تین عشروں بعد بھی آج بے تُکا، بے ڈھنگا، بے ہدائیتا، کھلنڈرا اور مورکھ ، بدتمیز شرارتی بچہ نظر آتا ہوں جس کی نظر ہمیشہ دوسرے بچے کو تنگ کرنے پر ہوتی ہے۔ اتنے قابل ترین لوگوں میں بیٹھ کر بھی مجھے ہدایت نصیب نہیں ہوئی اور نہ ہونے کی کوئی امید نظر آتی ہے۔

چارلی چپلن کہتا ہے کہ مجھے بارش میں چلنا پسند ہے تاکہ کوئی میرے آنسو نہ دیکھ سکے۔ یوں لگتا ہے کہ ہر زمانے میں کچھ ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو خلوت اور جلوت میں دو الگ الگ چہروں کے حامل ہوتے ہیں۔ دوہرے چہرے والے لوگ، ان کے اندر کیسے ہی الاؤ روشن ہوں، دکھ کا سرما پھیلا ہو یا اداسی کی خزاں اتری ہو، اوپر سے ہمیشہ پُر بہار نظر آتے ہیں۔ کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ میں بھی ایسے ہی دو چہرہ لوگوں میں سے ہوں۔ اصل چہرے پر نقاب چڑھا کر اس بات کے آرزومند لوگ کہ دیکھنے والا "اگنور" کا بٹن دبا کر نقاب کو پرے کر دے اور براہِ راست اصل چہرے سے ہم کلام ہو۔

منگل، 15 دسمبر، 2015

132 بچے

ہاں 132 بچے تھے اور 16 دسمبر کا دن تھا۔ پچھلے برس بھی جب یہ خبر میرے سامنے آئی تھی تو میں کلاس پڑھا رہا تھا۔ پھر جیسے جیسے شام ہوتی گئی قطرہ قطرہ کر کے غم برداشت سے باہر ہوتا گیا اور میری آنکھیں برس پڑی تھیں۔ یہ تحریر انہیں لمحات میں لکھی گئی تھی۔
آج ایک دن کم ایک برس بعد میرے اندر لگے الارم کلاک نے پھر وہی کیفیت تازہ کر دی ہے۔ آج میں اپنے وطن سے ہزاروں میل دور ایک سرد اور اجنبی سرزمین پر تنہا بیٹھا اسی غم میں ڈوبا ہوا ہوں۔ 132 بچے اور ان میں ایک ننھی سی بچی بھی تھی۔ میرا کوئی بچہ نہیں ہے، اس لیے شاید مجھے احساس نہیں ہے کہ بیٹے اور بیٹیاں کھو دینے کا دکھ کیا ہوتا ہے۔ لیکن میں اس غم کا ایک اربواں حصہ شاید محسوس کر سکتا ہوں جو ان بچوں کے ماں باپ پچھلے ایک برس سے جھیل رہے ہیں۔ جوان اولاد کھونے کا دکھ تو میرے ماں باپ بھی سہہ چکے ہیں اس لیے شاید میں اس اذیت کا عینی شاہد ہوں جو تاعمر ماں باپ کے جھریوں زدہ چہروں میں پیوست ہو جاتی ہے۔ جوان اولاد کی موت کا دُکھ بہت بڑی اور بُری چیز ہے۔ کمر توڑ دیتا ہے، بال سفید کر دیتا ہے، قویٰ میں سے جان نکال لیتا ہے اور زندگی بھر کا روگ لگا جاتا ہے۔ ہر عید شبرات اور خوشی پر تازہ ہو جانے والے زخم دے جاتا ہے۔ ماں باپ کو اولاد کبھی نہیں بھولتی چاہے رب اور کتنے ہی دے دے۔ ماں باپ کو بنایا ہی ایسا گیا ہے۔
اور میں یہاں بیٹھا قطرہ قطرہ پگھل رہا ہوں۔ شاید یہ ان معصوم طلبہ کا دکھ ہے، یا ان سے پہلے اس جنگ کا ایندھن بننے والے ہزارہا معصوموں کا دکھ ہے یا میرا اپنا بازو ٹوٹ جانے کا دکھ ہے۔ میں جذباتی ترانے سنتا ہوں تو میرے اندر سے غم اُبل اُبل کر باہر آتا ہے۔ لیکن ساتھ ہی مرے ذہن میں بیٹھا ایک اور شخص جمع تفریق بھی کر رہا ہے۔
پچھلے ایک برس میں کیا بدلا ہے؟
آتش و آہن کے کھیل کو روکنے کے لیے آتش و آہن کے استعمال کے علاوہ ہم نے اور کیا کِیا ہے؟
تعلیم اور تربیت، ذہن سازی اور قوم سازی کے لیے ہم نے کیا کِیا ہے؟
ابھی کل ہی لاہور حفیظ سنٹر پر ایک مذہبی اقلیت کے نازیبا کلمات ہٹانے کے خلاف ہونے والے احتجاج کی خبر پڑھ کر میں حیران ہو رہا تھا کہ آخر بدلا کیا ہے؟ کیا رویے بدل گئے ہیں؟ کیا برداشت پیدا ہو گئی ہے؟
کیا تیس برس قبل ہم نے نفرت و عداوت اور شدت پسندی کا جو کوڑھ کاشت کرنا شروع کیا تھا اسے آج ختم کرنے کے لیے اقدامات کیے جا چکے ہیں؟
کیا ہم نے اپنے ماضی سے سبق سیکھا ہے؟
برداشت، رواداری، حسنِ سلوک اور محبت یہ وہ جادوئی رویے ہیں جو ہمیں پھر سے یکجا کر سکتے ہیں۔ آج ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہے کہ صرف آتش و آہن سے ہی نہیں کسی اور محاذ پر بھی ایک ضربِ عضب کی ضرورت ہے۔ اور اس کے لیے ہمیں اپنے اپنے ذہنوں میں قانون سازی کرنی ہو گی۔ ہمارے ادارے (خدا کرے کہ یہ خیال درست ہو) اپنی غلطیوں سے سبق سیکھ چکے ہیں، بحیثیت قوم اور افراد ہمیں سبق سیکھنا اور اپنے رویوں کی اصلاح کرنی ہے۔ وگرنہ ہمارا کام ہر سفاکی کے بعد اس کو کفار کی سازش ثابت کرنا ہی رہ جائے گا جیسے پچھلے دنوں امریکی شہر میں ہونے والے قتل عام میں ملوث پاکستانی خاتون کے معاملے میں ہوا ہے۔
اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِحَيِّنَا وَمَيِّتِنَا وَشَاهِدِنَا وَغَائِبِنَا وَصَغِيْرِنَا وَکَبِيْرِنَا وَذَکَرِنَا وَاُنْثَانَا. اَللّٰهُمَّ مَنْ اَحْيَيْتَه مِنَّا فَاَحْيِه عَلَی الْاِسْلَامِ وَمَنْ تَوَفَّيْتَه مِنَّا فَتَوَفَّه عَلَی الإِيْمَانِ.
اَللّٰهُمَّ اجْعَلْهُ لَنَا فَرَطاً وَّاجْعَلْهُ لَنَا اَجْرًا وَّذُخْرًا وَاجْعَلْهُ لَنَا شَافِعًا وَّ مُشَفَّعًا.
اَللّٰهُمَّ اجْعَلْهَا لَنَا فَرَطاً وَّ اجْعَلْهَا لَنَا اَجْرًا وَّ ذُخْرًا وَّ اجْعَلْهَا لَنَا شَافِعَةً وَّ مُشَفَّعَةً.
اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ 
اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ