منگل، 1 دسمبر، 2009

زبان کا تغیر اور اردو وکی پیڈیا

میری پچھلی تحریر زبان کے تغیر سے متعلق تھی۔ اس میں مَیں نے اردو وکی پیڈیا کے طرز عمل کا جائزہ لینے کی کوشش کی، لیکن یہ پوسٹ اسی کام کے لیے وقف نہیں تھی۔ چناچہ موجودہ پوسٹ میں مَیں کچھ مزید عوامل کا جائزہ لینے کی کوشش کروں گا جو میری نظر میں اردو وکی پیڈیا کے طرز عمل کو انتہاپسندانہ بنادیتے ہیں۔
زبان بدلتی ہے۔ یہ تو ہم جانتے ہیں اب یہ بدلاؤ کہاں کہاں آسکتا ہے؟
یہ بدلاؤ زبان کے ہر لیول پر آسکتا ہے۔ لیکن سب سے زیادہ اور جلدی تغیر ذخیرہ الفاظ میں آتا ہے۔ ہر چند سال کے بعد، ہر چند کلومیٹر کے بعد زبان کا ذخیرہ الفاظ بدل جاتا ہے۔ اگرچہ یہ تبدیلی کتنی ہی معمولی کیوں نہ ہو، لیکن ایک مناسب فاصلے کے بعد خواہ وہ زمانی ہو یا مکانی، زبان میں ذخیرہ الفاظ کا ایک سیٹ دوسرے سیٹ سے بدل جاتا ہے۔ اس کی  وجہ سیاسی، سماجی یا لسانی کوئی بھی ہو، لیکن ایسا ہوتا ہے۔ اردو میں فارسی اور عربی نژاد الفاظ کی جگہ اگر انگریزی اور مقامی زبانوں کے الفاظ زور پکڑ رہے ہیں تو یہ اسی تغیر کی نشانی ہے۔ انگریزی تو خیر اب سیاسی برتری کی بھی حامل ہے چناچہ اس کے الفاظ اردو میں زیادہ استعمال ہورہے ہیں۔ دوسرے انگریزی تعلیم و ترقی کی بھی زبان ہے یہ بھی ایک بڑی وجہ ہے۔
اس کے علاوہ صوتیات بھی متاثر ہوتی ہیں۔ اردو کے حوالے سے اتنی مثال دینا چاہوں گا کہ اگر آپ انگریزی الفاظ کو اردو میں انگریزی لہجے کے ساتھ بولنے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ ایسے کسی ممکنہ تغیر کا پیش خیمہ ہوسکتی ہے جس کے ذریعے اردو میں انگریزی کے مصوتے یعنی واؤلز داخل ہوجائیں گے۔ شاید آئندہ دس سالوں میں یا پچاس سالوں میں۔
تغیر کا عمل یہیں پر نہیں رک جاتا۔ زبان کی گرامر بھی اس سے متاثر ہوتی ہے۔ میں آپ کو تاریخ کی بات نہیں بتاؤں گا کہ اردو نے کیسے عربی اور فارسی سے گرامر مستعارلی، اسم، فعل، صفت وغیرہ کی حالتیں وہاں سے حاصل کیں۔ میں آج کی بات بتاؤں گا جس کا میں مشاہدہ کرچکا ہوں۔ انگریزی کے پاسٹ رافی ایس سے تو سب واقف ہونگے۔ اسلم کی کار کو انگریزی میں اسلمز کار لکھا جائے گا نا۔ ایک کوما ڈال کر ساتھ ایس لکھ کر۔ تو میں آپ کو یہ بتاتا ہوں کہ اسلم کی کار کو اردو میں بھی "اسلم'ز کار" لکھا  جارہا ہے۔ اگرچہ یہ ابھی صرف  اشتہاراتی زبان میں ہے، اور سائن بورڈز پر نظر آتا ہے لیکن یہ کسی ممکنہ تغیر کا پیش خیمہ ہوسکتا ہے جب اردو میں بھی "پاسٹ رافی ز" استعمال ہونے لگے۔
آپ کو شاید ان مثالوں پر ہنسی آئے یا آپ اسے دیوانے کی بڑ سمجھ کر نظر انداز کردیں۔ لیکن صاحب تغیر ایسے ہی آتا ہے۔ زبان ہر لیول پر اس سے متاثر ہوتی ہے۔ لفظ سے لے کر صوتیات اور گرامر تک۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمیں سب سے پہلے اور سب سے زیادہ احساس ذخیرہ الفاظ کی تبدیلی سے زبان میں تغیر کا احساس ہوتا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ زبان بدلنا اگر اتنا لمبا چوڑا کام ہے، یعنی ہر لیول متاثر ہوتا ہے، تو اگر ایک لیول یعنی ذخیرہ الفاظ بدل رہا ہے تواس میں ایسی کیا بات ہے؟ اردو کی گرامر تو نہیں بدل رہی؟ ہم انسٹال کو انسٹالڈ تو نہیں لکھ دیتے؟ انسٹال کرنا، انسٹال کیا، انسٹال کریں گے ہی لکھتے ہیں نا۔ صرف بنیادی لفظ یا سٹیم انگریزی سے حاصل کرتے ہیں وہ بھی اس وجہ سے کہ تکنیکی اصطلاحات ہیں جو اردو میں پہلے سے موجود نہیں۔ چلیں فعل کو چھوڑیں ہم اسم کی بات کرتے ہیں۔ انٹرنیٹ، کمپیوٹر، ویب، کی بورڈ، ماؤس۔۔۔ ان سب کو اردو میں لکھ دینے سے کیا ہوتا ہے؟ کیا اس سے اردو میں وسعت نہیں آرہی؟ کیا اردو میں پہلے سے ان تصورات کو بیان کرنے کے لیے الفاظ تھے؟ نہیں تھے۔ اب اگر یہ مستعار لیے جارہے ہیں تو اس میں اعتراض کی کیا بات ہے؟ اردو وکی پیڈیا پر بھی تو عربی فارسی سے الفاظ مستعار ہی لیے جارہے ہیں۔ یا نہیں؟ یہ جو فارسی نژاد اصطلاحیں بنائی جارہی ہیں، اور جن موجودہ یتیم و یسیر اصطلاحات کا حلیہ بگاڑا جارہا ہے )جیسے احصاء جسے کیلکولس کی اردو کہتے ہیں، ہمارے ماہرین اس کی اردو کچھ اور ہی کررہے ہیں اس وقت یاد نہیں آرہی۔ ایسے ہی پرائم نمبر کو اردو میں مفرد عدد کہتے ہیں اس پر بھی اعتراض ہے( یہ سب اردو کے ذرائع استعمال کرکے بنائی جارہی ہیں؟  یہاں میری اردو سے مراد وہ اردو ہے جسے اردو کے اہل زبان سمجھتے ہیں۔ جو اصطلاحات بنائی جارہی ہیں اسے اردو کے اہل زبان نہیں سمجھتے۔ اگر کوئی لنک کی بجائے ربط سمجھ جاتا ہے تو میں استعمال کرتا ہوں۔ لیکن اگر کوئی ویب کی بجائے "بین جال" یا ایسی ہی کوئی جناتی اصطلاح نہ سمجھ سکے تو اس میں اُس بے چارے کا کیا قصور ہے۔ کہ وہ اردو جانتا ہے؟  ٹائی کی ہندی کسی نے کی "کنٹھ لنگوٹی"۔ موج ہے نا لیکن سارے ہندی بولنے والے اسے ٹائی ہی کہتے ہیں۔ وجہ کیا ہے؟ وجہ یہ ہے کہ صارف آسانی چاہتا ہے۔ ایک یک لفظی اسم کی بجائے آپ دو یا تین الفاظ کا ایک مرکب ہاتھ میں پکڑا دیں اور پھر وہ سمجھ بھی نہ آتا ہو تو صارف کو ضرورت ہی کیا ہے کہ وہ اپنی زبان ٹیڑھی کرکے اسے پڑھے اور لکھے۔
تو میری مودبانہ گزارش ہے کہ جناب من، میرے ماہرین، میرے اساتذہ: آپ بہت اچھے لوگ ہیں۔ مجھ سے بھی زیادہ قابل اور صاحب علم۔ لیکن آپ کا طرز عمل طوفان کو دیکھ کر آنکھیں بند کرلینے والا ہے۔ آپ یہ بات ماننے کو تیار نہیں کہ زبان بدل رہی ہے۔ اور زبان اہل زبان سے ہوتی ہے۔ زبان ٹھونسی نہیں جاتی۔ زبان وہی زندہ رہتی ہے جو گلی محلوں میں اور لوگوں کی زبانوں پر ہوتی ہے۔ لغات اور اصطلاحاتی کتابیں زبان کا قبرستان بن جاتے ہیں۔ جن میں مردہ الفاظ کے کتبے بھی دیکھنا کوئی
پسند نہیں کرتا۔ میری دعا ہے کہ اردو وکی پیڈیا اردو کا ایسا ہی کوئی قبرستان نہ بن جائے۔
اور آخری بات یہ کہ ہمیں توجہ اس بات پر رکھنی چاہیے کہ صارف یہ سب سمجھ سکے اور آسان اردو میں سمجھ سکے۔ ہمیں اردو کو بطور تعلیم کی زبان ترویج دینا ہے ورنہ انگریزی تو پہلے ہی یہ مقام حاصل کرچکی ہے۔ ہم غیرشعوری طور پر یہ مان چکے ہیں کہ ہمیں پڑھنا انگریزی میں ہے، لکھنا اردو میں ہے اور بات کسی علاقائی زبان میں کرنی ہے، بولنا پنجابی میں یا سندھی میں یا بلوچی میں یا پشتو میں ہے۔ اسے میں ڈومین سیٹ ہونا کہتے ہیں، یعنی خاص مواقع کے لیے خاص زبان استعمال کرنا۔ اس پر پھر کبھی بحث کریں گے۔
وما علینا الا البلاغ۔

2 تبصرے:

  1. شاکر صاحب آپ کی دونوں بلاگ پوسٹس نہایت اہم ہیں اور کافی حد تک آپ نے وہ باتیں کی ہیں جن سے اختلاف کرنا اتنا آسان نہیں۔ ویسے بھی وقت کا پہیہ الٹا چلانے والے آگے بڑھتے زمانے کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے چاہے کتنی ہی کوشش کرلی جائے۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. شاکر بھائی یکے بعد دیگرے آپ کے دونوں مراسلے پڑھے اور اپنے دل کی آواز آپ کی جادو بیانی سے ہم آہنگ ہوتی دیکھی۔ یقیناً ان کو پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ کسی لسانیات کے ماہر کے مطالے، تجربے اور مشاہدے کا ما حصل ہے

    جواب دیںحذف کریں

براہ کرم تبصرہ اردو میں لکھیں۔
ناشائستہ، ذاتیات کو نشانہ بنانیوالے اور اخلاق سے گرے ہوئے تبصرے حذف کر دئیے جائیں گے۔