پیر، 30 نومبر، 2009

زبان کا تغیر

تغیر یعنی بدلنا۔ صاحبو بدلنا زبان کا مقدر ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ آج سے صرف دو سو سال پہلے تک بولی جانے والی زبانوں کا آج وجود بھی نہیں۔ اور وہ زبانیں جو تب بھی بولی جاتی تھیں اور آج بھی زندہ ہیں، وہ زبانیں بھی وہی نہیں جو تب تھیں۔ میں آپ کو بائبل کی مثال دیتا ہوں۔ سولہویں صدی میں جب اس کا لاطینی سے انگریزی ترجمہ ہوا تو اسے اس وقت کی روزمرہ کی زبان میں ترجمہ کیا گیا تھا۔ ایسی زبان جو عامیوں کی تھی، میرے آپ جیسوں کی، جو گلی محلوں کی زبان تھی۔ آج چار صدیاں گزر جانے کے بعد زبان کا نام کیا ہے؟ انگریزی۔ لیکن اس کی ہئیت بدل چکی ہے۔ اس وقت کی عامی انگریزی اور آج کی عامی انگریزی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اہل زبان تو دور کی بات ہے آپ میں جو انگریزی کو بطور دوسری زبان یا تیسری زبان یا غیرملکی زبان کے جانتے ہیں، وہ بھی بائبل کی زبان کو پہچان لیں گے اور کہیں گے کہ یہ پرانی انگریزی ہے۔ جناب من یہی حال اردو کے ساتھ بھی ہوا۔ غالب کے زمانے کی اردو اور آج کی اردو، صرف ڈھیڑھ سو سال کا فاصلہ ہے لیکن ہر دو میں اچھا خاصا فرق موجود ہے۔ اجی دور کیوں جائیے یہی جسے آپ آج ثقیل اردو کہہ دیتے ہیں اس وقت کی روزمرہ تھی۔ لیکن وہ الفاظ کیا ہوئے؟ یا تو لغات میں حنوط شدہ ہیں یا سرے سے ہی ختم ہوگئے ہیں۔ آج اس اُردو کو بولنے والے گنتی کے چند بھی نہیں ہونگے۔
زبان کیوں بدلتی ہے؟ اس سوال کا جواب دینا شاید خاصا مشکل ہو۔ تاہم کچھ اندازے لگائے جاسکتے ہیں کہ جوں جوں جغرافیائی فاصلہ بڑھتا ہے زبان بدل جاتی ہے۔ یا جوں جوں کلچر اور ثقافت، ماحول بدلتا ہے تو اہل زبان کی ضروریات بھی مختلف ہوتی جاتی ہیں چناچہ زبان بھی ویسے ویسے بدلی جاتی ہے۔ یہی کلیہ وقت کے ساتھ بھی عمل کرتا ہے۔ جوں جوں وقت گزرتا ہے زبان میں نئی چیزیں آتی جاتی ہیں اور پرانی قصہ پارنیہ بنتی جاتی ہیں۔ جوں جوں ترقی ہوتی ہے نئے تصورات کو الفاظ کا جامہ پہنانے کے لیے زبان میں نئی اصطلاحات متعارف کرائی جاتی ہیں اور زبان بدلتی جاتی ہے۔ زبان بدلنے کی ایک اور وجہ بیرونی حملہ آوروں کا آنا بھی ہے۔ جیسے عربوں کی زبان یعنی عربی آج سے چند سو سال پہلے عربوں کے زیر قبضہ علاقوں میں گہرا اثر ڈالا اور آج بھی مسلمانوں کی اکثر زبانیں عربی سے مستعار شدہ رسم الخط استعمال کرتی ہیں اور ان کے ذخیرہ الفاظ میں عربی نژاد الفاظ کی ایک مناسب تعداد موجود ہے۔ جیسے دوریاں بڑھنے سے زبان بدلتی ہے ایسے ہی دو یا زیادہ زبانوں کا ملاپ ہو تو بھی زبان بدلتی ہے۔ ملنے والی زبانیں ایک دوسرے پر اثر ڈالتی ہیں، ایک دوسرے سے الفاظ لیتی ہیں اور ایک دوسرے کی گرامر کو حلقہ دام میں لے کر اس میں تبدیلیاں کردیتی ہیں۔ اردو کی تشکیل ایسی ہی ایک تبدیلی کی مثال ہے جب فارسی، عربی، ترکی اس وقت کی ہندی یا ہندوی اور دوسری علاقائی زبانیں آپس میں قریب آئیں۔
زبان کا بدلاؤ کہاں سے شروع ہوتا ہے؟ یہ بڑا تکنیکی سا سوال ہے لیکن جہاں تک میرا علم کہتا ہے زبان کا تغیر سب سے پہلے ذخیرہ الفاظ میں نظر آتا ہے۔ اس کے بعد گرامر، اس کی صوتیات اور دوسرے شعبے تغیر پذیر ہوتے ہیں۔ 
زبان کا تغیر اور آج
اس پوسٹ کو لکھنے کے دو مقاصد تھے۔ ایک تو میں کچھ مشاہدات آپ سے شئیر کرنا چاہتا تھا جو میں نے ہماری مقامی زبانوں کے سلسلے میں کیے ہیں۔ دوسرے میں اردو وکی پیڈیا پر لکھی جانے والی اردو کے بارے میں اپنے علم کے مطابق کچھ تحفظات کا اظہار کرنا چاہتا تھا۔
صاحبو تغیر زبان کا مقدر ہے۔ آج ہمارے سامنے جتنی زبانیں موجود ہیں یہ تغیر کے سلسلے میں ہی وجود میں آئی ہیں۔ یورپ کو دیکھیں تو کلاسیکی یونانی اور لاطینی کی جگہ وہاں اب بیسیوں زبانیں بولی جاتی ہیں۔ جو کہ کسی نہ کسی طرح ان دو زبانوں سے تعلق تو رکھتی ہیں لیکن ان دادا زبانوں اور موجودہ یورپی زبانوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ انگریزی بھی کئی ساری زبانوں سے مل کر وجود میں آئی ہے۔ فرانسیسی، یونانی، لاطینی اور انگلستان کی کچھ مقامی زبانیں اس کی امائیں خیال کی جاتی ہیں۔
تغیر ہوتا رہا ہے، ہوتا ہے اور ہوگا بھی۔ لیکن جو تغیر آج ہورہا ہے یہ ماضی کے تغیر سے مختلف ہے۔ ماضی کا تغیر ایسے ہے جیسے بڑے بوڑھوں کی جگہ ان کی اولاد لے لیتی ہے۔ ماضی کے تغیر میں نچلے درجے کی ورائیٹیز اس وقت کی اعلی درجے کی ورائیٹیز کی جگہ لیتی رہی ہیں۔ (یہاں ورائٹی سے مراد ہر وہ زبان کی قسم ہے جو رنگ، نسل، وقت، شعبے کسی بھی لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہوسکتی ہے۔ پٹواریوں کی زبان ایک ورائٹی ہوگی چونکہ ایک شعبے سے متعلق ہے، سترہویں صدی کی انگریزی ایک ورائٹی ہوگی چونکہ وہ آج کے وقت سے مختلف ہوگی، پاکستانیوں کی انگریزی آسٹریلین کی انگریزی سے مختلف ہوگی چونکہ ان کی نسل اور جغرافیہ مختلف ہے، ۔۔۔ایسے ہی کئی ورائیٹیز بنیں گی)۔ اس کی مثال اطالوی سے دی جاسکتی ہے جس نے اطالیہ میں لاطینی کی جگہ لی۔ اطالوی لاطینی سےہی وجود میں آئی لیکن یہ اس سے بہت مختلف ہے اور یہ اپنے ابتدائی دور میں بہت نچلے درجے کی زبان خیال کی جاتی تھی۔ یعنی اسے بولنا پسند نہیں کیا جاتا تھا۔
آج کا تغیر مختلف ہے۔ آج کا تغیر سماجی برتری کی بنیاد پر وقوع پذیر ہورہا ہے۔ اس تغیر میں کوئی ورائٹی نیچے سے اوپر کی طرف نہیں آرہی بلکہ لوگ وہ ورائٹی اپنا رہے ہیں جو طاقتور طبقے کی زبان ہے یعنی انگریزی۔دنیا کی کسی بھی زبان کو تاریخ میں ایسے پروموٹ نہیں کیا گیا جیسے آج انگریزی کو کیا جاتا ہے۔ میڈیا ایک ایسا ہتھیار ہے جس نے آج زبانوں کے تغیر کی آگ اتنی تیزی سے بھڑکا دی ہے کہ ماضی میں کبھی بھی ایسا نہ ہوا تھا۔ گلوبلائزیشن کا تصور اور دنیا کو ایک دیہہ سمجھنے کے آئیڈیے نے انگریزی سیکھنے اور سکھانے کی ضرورت اور بڑھائی ہے۔ بزنس، تعلیم اور آپسی رابطوں کے لیے ایک زبان کی ضرورت شدت سے محسوس کی جاتی رہی ہے اور انگریزی اس کام کے لیے بہترین ہے۔ یہ طاقتور کی زبان بھی ہے اور اسے پروموٹ بھی کیا جاتا ہے، اسے سیکھا سکھایا بھی جاتا ہے چناچہ اسے تیزی سےاپنایا جارہا ہے۔
اس سب کا اثر کیا ہورہا ہے۔
اس سب کا پہلا اثر تو یہ ہورہا ہے کہ تعلیم انگریزی میں دی جاتی ہے۔ ایجادات انگریزی میں ہوتی ہیں۔ چناچہ دوسری زبانوں کو انگریزی سے الفاظ اور اصطلاحات مستعار لینی پڑتی ہیں۔ یہی وہ نکتہ ہے جس کو اردو وکی پیڈیا کی انتظامیہ ماننے کو تیار نہیں۔ لفظ صرف ایک لفظ نہیں ہوتا۔ اس کے ساتھ معانی کا پورا جہان ہوتا ہے۔ وہ لفظ کس موقع پر اور کیسے استعمال کرنا ہے، بطور اہل زبان، یہ ہمارے علم میں ہوتا ہے۔ صارف جب کی بورڈ پڑھتا ہے تو اس کے ذہن میں فورًا کمپیوٹر کے کی بورڈ کا تصور آتا ہے۔ لیکن کلیدی تختہ؟ کلید یعنی چابی اور تختہ (تخت یا تختہ والا تختہ؟) اس اصطلاح میں ایک نئے تصور کو جو نام دیا گیا ہے ، اور جو ایک مرکب نام ہے، صارف کے لیے پہلی باری میں بلکہ کئی باری میں اس کو یہ معانی دینا بہت مشکل کام ہے۔ ہم تختے کو کمپیوٹر سے جوڑتے ہی نہیں، تختہ ہمارے لیے یا تو تخت یا تختہ والا تختہ ہے یا پھر مردے کو غسل دینے والا تختہ یا ایسی ہی کوئی چیز جو نفیس نہیں ہے، اور ٹیکنالوجی کے طو رپر ایڈوانس بھی نہیں ہے۔ اور کلید؟ یعنی چابی کسی دقیانوسی تالے کی چابی لگتی ہے، ماڈرن تالا تو کِی سے کھلتا ہے نا۔ آپ کو شاید ہنسی آجائے لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہر ہر لفظ کے ساتھ اس کے لغاتی معنی کے ساتھ ساتھ کچھ ایسے تصورات وابستہ ہوتے ہیں، ان صورتوں کے حوالے جڑے ہوتے ہیں اور ان مقامات کے حوالے جڑے ہوتے ہیں جہاں جہاں یہ لفظ استعمال ہوسکتا ہے، آسان الفاظ میں وہ سیاق و سباق کہ کہاں کہاں اور کیسے یہ لفظ استعمال ہوتا ہے اور ہوسکتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہمیں عادت نہیں ہوتی کہ ہم ایسے الفاظ کو ایک جگہ سے اُٹھا کر کسی دوسری جگہ فٹ کریں اور استعمال کریں۔ چناچہ کیا ہوتا ہے؟ صارف ایسی کسی بھی تبدیلی کو مسترد کردیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج اردو وکی پیڈیا پر موجود مضامین ہمیں اتنے مشکل، ثقیل اور ناقابل فہم لگتے ہیں کہ ہم انگریزی وکی پیڈیا سے معلومات کو اس سے زیادہ آسانی سے سمجھ لیتے ہیں۔  اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ ہم پھر اپنی زبان میں علم کی ترویج ہی چھوڑ دیں؟ ہمارے خیال سے ہمیں زبان کے بارے میں پالیسی بنانی ہوگی اور اس کے لیے ہمارے پاس ایک ایسا ادارہ ہونا چاہیے جس کا کام وہ ہو جو مقتدرہ قومی زبان کا ہے اور جو وہ سب کچھ نہ کرے جو مقتدرہ اب کررہا ہے یعنی بندے کے پتروں کی طرح دیانت داری سے اردو کی ترویج کرے، اصطلاح سازی کرے اور اردو میں علم کی ترویج کو یقینی بنائے۔ اردو وکی پیڈیا کے پاس ایسا کوئی اختیار نہیں ہے کہ وہ اردو زبان کی پالیسی سازی کرے اور نہ ہی اردو وکی پیڈیا ایسی کسی بھی پالیسی سازی کو رائج کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ وجہ سادہ سی ہے اردو وکی پیڈیا کے اختیار کو کوئی نہیں مانے گا نا۔ وکی پیڈیا کا مقصد علم کی ترویج ہے اور اردو وکی پیڈیا کو چاہیے کہ وہ یہ کام کرے، اردو میں کرے اور ایسی اردو میں کرے جسے اردو والے سمجھتے ہیں۔ فارسی اور عربی کے دقیق الفاظ کو اردو میں رائج کرنے کا خیال دل سے نکال دے کیونکہ یہ 1857 نہیں ہے اور نہ ہی یہاں اردو کے ساتھ فارسی دان بیٹھے ہیں جو پڑھتے تو فارسی تھے اردو شغل میں خود ہی آجاتی تھی کہ روزمرہ کی نچلے درجے کی زبان تھی جبکہ فارسی شرفاء کی زبان تھی ( اس وقت)۔ 
دوسرا اثر یہ ہورہا ہے کہ علاقائی زبانیں گھٹ رہی ہیں۔ ان کے بولنے والے کم ہورہے ہیں۔ کثیر لسانی یعنی ایک سے زیادہ زبانیں جاننا دنیا میں ایک عام سی بات ہے۔ لیکن ہم بطور صارف اپنی آسانی کو بھی مدنظر رکھتے ہیں۔ چناچہ اگر کام انگریزی سے چل رہا ہے، اور یہ اعلٰی طبقے کی زبان بھی ہے تو نچلے درجے کی زبانیں کیوں سیکھی جائیں؟ یہاں نچلے درجے کی زبان سے مراد اس کا سماجی رتبہ ہے، لسانیات کے حساب سے تمام زبانیں برابر ہیں کوئی بھی اچھی یا بری نہیں۔ ہر زبان کا مقصد ہوتا ہے اور وہ بہ احسن وہ مقصد پورا کرتی ہے چناچہ کسی تیسرے کو یہ اختیار نہیں کہ زبان کو برا یا اچھا کہے۔ آج دنیا میں یہ رواج بہت تیزی سے وقوع پذیر ہے کہ انگریزی بچوں کو بطور پہلی زبان سکھائی جائے۔ پڑوسی ملک بھارت میں ہندی کی جگہ تیزی سے انگریزی لے رہی ہے۔ بلکہ ایلیٹ کلاس تو اپنے بچوں کو انگریزی مادری زبان کے طور پر سکھا رہے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی یہ رجحان تیزی سے فرو غ پارہا ہے۔ انگریزی مادری نہیں تو دوسری سیکھی جانے والی زبان بن رہی ہے، میری مراد اشرافیہ طبقے سے ہے۔ جبکہ درمیانے تعلیم یافتہ طبقے میں یہ رجحان فروغ پارہا ہے کہ بچوں کی مادری زبان اردو ہو۔ چاہے ماں باپ کی مادری زبان پنجابی یا کوئی اور علاقائی زبان ہے۔ چناچہ اب حالات یہ ہیں کہ دادا دادی اور اماں باوا آپس میں پنجابی میں بات کرتے ہیں اور بچوں سے اردو میں۔ یہ میرا ذاتی مشاہدہ ہے۔ یہ نہیں کہ بچے اردو کی وجہ سے پنجابی سمجھ نہیں رہے۔ سمجھتے ہیں، بات کرو تو پنجابی میں جواب بھی دیتے ہیں لیکن یہ ان کی ترجیحی زبان نہیں۔ وہ اردو میں بات کرتے ہیں، انھیں پنجابی کی ضرورت ہی کیا ہے جب اردو یہ مقصد پورا کرتی ہے تو۔ چناچہ یہ نسل پنجابی سمجھ سکتی ہے۔ اگلی نسل؟ بالکل اگلی نسل پنجابی نہیں سمجھ سکے گی چونکہ ان کے ماں باپ اردو کے اہل زبان ہونگے۔ اور اگلی دو نسلوں میں پنجابی انا للہ ہوجائے گی۔ دوسری طرف انگریزی اشرافیہ اور درمیانے دونوں طبقوں میں تیزی سے اردو کی جگہ لے گی اور اردو رابطے کی زبان سے عامیوں کی زبان بن جائے گی جبکہ انگریزی رابطے کی زبان اور اعلٰی درجہ رکھنے والی زبان ہوگی۔ تغیر آرہا ہے لیکن یہ تغیر الٹی سمت سے آرہا ہے۔ نیچے سے اوپر کی بجائے اوپر سے ٹھونسا جارہا ہے۔ جس کی وجہ سے علاقائی زبانیں اقلیت بن رہی ہیں اور ایک دن وہ بھی آئے گا کہ دو سو تین سو لوگ رہ جائیں گے جو یہ زبانیں سمجھ سکتے ہونگے۔ جیسا آسٹریلیا میں وہاں کے باشندوں کی زبانیں مریں اور امریکا میں ریڈ انڈینز کی۔ تغیر کی اس یلغار کو روکنے کے لیے ہمیں بہت سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا ہوگا۔
یاد رہے لغات اور اصطلاحات کے ڈھیر، اور مردہ الفاظ میں علم کی ترویج کرکے ہم اپنی زبانوں کو زندہ نہیں مردہ کررہے ہیں۔ ہمیں یہ سمجھنا ہے کہ تغیر زبان کا مقدر ہے، تغیر دریا ہے جس کے آگے بند باندھیں گے تو اور سمت سے راستہ بنا لے گا۔ لیکن یہ تغیر ایسا نہ ہو کہ ہماری زبانیں ہی مٹ جائیں۔ ہمیں زبانوں کو بچانے کے لیے منصوبہ بندی کرنی ہوگی ورنہ تغیر کی یہ یلغار اتنی تیز ہے کہ اگلے دس سال میں بہت کچھ بدل چکا ہوگا۔

ہفتہ، 28 نومبر، 2009

بڑی عید

لو جی اللہ والیو۔ عید کو کِلؑی پر ٹنگے تھوڑی دیر میں بارہ گھنٹے ہوجائیں گے۔ آج صبح سات بجے نہا کر، ناشتا کرکے آٹھ بجے ہم نے نماز پڑھی جو سوا آٹھ تک چلی۔ دو چار لوگوں سے عید ملے اور گھر آکر عید کو کھونٹی پر ٹانگ دیا۔ تب سے وہیں لٹکتی ہے اور موج کرتی ہے۔ اور ہم ایک عدد ہندی فلم دیکھ کر، مستنصر حسین تارڑ کا سفرنامہ برفیلی بلندیاں پڑھ کر اور انٹرنیٹ پر بیٹھ بیٹھ کر موج کرتے ہیں۔ اگرچہ اس بیٹھنے کی وجہ سے ہماری تشریف اب بے چین ہوتی ہے اور ہمیں ٹہوکے بھی دیتی ہے کہ اٹھ بھی جایا کرو کبھی لیکن ہم اب بھی بیٹھے ہیں کہ ایک پوسٹ لکھ ہی لیں۔ اس کے بعد اُٹھ جائیں گے۔
پچھلی بار کی طرح اس بار بھی ہمارے ہاں قربانی نہیں تھی۔ جیسا کہ اکثر ہمارے جیسے پاکستانیوں کے ہاں نہیں تھی کہ پندرہ ہزار کا بکرا لیتے یا مہینے کا خرچہ چلاتے۔ تو ہم نے مہینے کا خرچہ چلانےکو ترجیح دی۔ قربانی نہ ہو تو ایویں ذرا شرمندگی سی ہوتی ہے سو ہم آج باہر بھی نہیں نکلے کہ سب مصروف تھے تو ہم ذرا ویلے ویلے سے نویں شلوار قمیض میں اوپرے اوپرے سے لگتے۔
آج بہت عرصے بعد مستنصر حسین تارڑ کے ساتھ عید کی۔ اس کا سفرنامہ برفیلی بلندیاں پڑھا جس میں اس کے دو عدد سفروں کی داستان ہے۔ مستنصر حسین تارڑ سفرنامے کو افسانہ بنا دیتا ہے، فکشن میں ڈھال دیتا ہے۔ عام سے پتھروں بھرے راستے کو جنت کی خوبصورتی عطاء کردیتا ہے، خود تو تخیل میں ٹھوکریں کھاتا ہی ہے میرے جیسے قاری کا بیڑہ بھی غرق کرتا جاتا ہے۔ لیکن بے مثال لکھتا ہے۔ جتنا بھی لکھتا ہے اچھا لکھتا ہے اور اسے پڑھنے کو دل کرتا ہے۔ ایویں پڑھتے جانے کو دل کرتا ہے۔ اس کا انداز تحریر آپ دور سے پہچان لیں گے، لو جی مستنصر حسین تارڑ آگیا۔ ایک تو اس کی آدھی کتابیں شمالی علاقہ جات کے سفرناموں پر مشتمل ہیں دوسرا اس کا اُسلوب۔ اس کا انداز بیان عجیب سا ہے۔ جب ڈسکرپشن دینی ہوتی ہے تو  فعل مطلق استعمال کرتا ہے، فعل ماضی مطلق یعنی تا تھا، ، تے تھے، تی تھی۔ اور جب واقعات قلم بند کرتا ہے تو سادہ فعل ماضی میں اتر آتا ہے۔ لسانیات کا طالب علم ہونے کے ناطے مجھے اس کا اُسلوب اپنی طرف کھینچتا ہے۔ کبھی زندگی رہی تو اس کے اُسلوب کا تجزیہ کروں گا۔ یہ کیسے زبان کے ساتھ کھلواڑ کرکے اپنا انداز بیاں تخلیق کرتا ہے۔ اردو کے لکھاریوں میں تارڑ اور محی الدین نواب دو ایسے نام ہیں جن کی تحریر میں دو جملوں میں پہچان جاتا ہوں۔ کہ یہ وہی ہے ہاں وہی ہے۔ اس کی وجہ ان کا زبان کو اپنے انداز سے بیان کرنا ہے اور واضح علامات چھوڑنا ہے۔ اُسلوب تو ہر لکھاری کا ہوتا ہے لیکن مجھے ان کا اُسلوب پہچاننے میں آسانی شاید اس لیے ہوتی ہے کہ یہ فعل یعنی زمانے کو خاص انداز میں پیش کرتے ہیں۔ فعل سے میری مراد انگریزی والا ٹینس ہے۔
لو جی بات عید سے شروع ہوکر ادبی اُسلوبیات تک آپہنچی۔ چلو چھڈو جی۔ ہور سناؤ۔ عید کیسی گزری آپ کی؟ اس بار عید مبارک کہنا ہی بھول گیا۔ چلو اب سہی۔ عید مبارک۔ آپ سب پر اللہ کی رحمتیں اور برکتیں ہوں اور آپ کی قربانیاں اللہ قبول کرے۔
آمین۔

اتوار، 22 نومبر، 2009

این آر او

آج کی اخبارات اور خبروں کے مطابق این آر او کے تحت فائدہ اُٹھانے والے لوگوں کی فہرست جاری کردی گئی ہے۔ بی بی سی کی خبر کے مطابق اس میں بہت سے وڈوں کے نام بھی شامل ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ سب سے زیادہ سات ہزار کچھ افراد نے سندھ سے اس آرڈیننس سے فائدہ اُٹھایا۔ ملک کے اعلٰی ترین عہدوں پر بیٹھی شخصیات بعض اوقات درجنوں میں فوجداری اور کرپشن کے مقدمات میں نامزد تھیں جن کو اس آرڈیننس کے ذریعے تحفظ دیا گیا۔
این آر او پر ہونے والی پچھلے کئی ماہ کی بحث اور میڈیا بشمول عوام و حزب اختلاف کی حکومت پر لعن طعن کے بعد آخر کار پیپلز پارٹی نے یہ کہہ دیا کہ عدالت جو کچھ کہے گی ہم وہی کریں گے۔ اب کیا ہوگا؟ جیسا کہ تجزیہ کار بتاتے ہیں کہ حکومت میں موجود افراد کے خلاف مقدمات تو پھر بھی دائر نہیں کیے جائیں گے کم از کم صدر زرداری کے خلاف تو نہیں۔  یعنی درون خانہ کچھ بھی نہیں بدلے گا۔
اس سلسلے کا ایک قابل افسوس پہلو یہ ہے کہ پچھلے دس سالوں میں ان ہزاروں مقدمات میں سے بہت کم کو نمٹایا جاسکا ہے۔ سیاسی،انتظامی اور جانے کون کونسی وجوہات کی بنا پر انھیں ملتوی کیا جاتا رہا اور نوبت یہاں تک آپہنچی۔ اس سلسلے میں آصف علی زرداری جنھوں نے آٹھ دس سال بلا سزا ہی جیل کاٹی کا واقعہ ہمارے نظام انصاف پر ایک داغ ہے۔ یہ تو خیر صدر مملکت کی بات تھی ایسی ہزاروں مثالیں ہر جگہ موجود ہیں جہاں قیدی صرف جوڈیشل ریمانڈ پر جیل میں سالوں سے بند ہے اور اس کا مقدمہ ختم نہیں ہورہا۔ ہمیں اس سسٹم کو تبدیل کرنا ہوگا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ان مقدمات کو پہلی فرصت میں نمٹانے کے لیے خصوصی اقدامات کیے جائیں۔ ورنہ اس سب کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ حکومت والے حکومت کرتے رہیں گے اور عوام انھیں کوستے رہیں گے۔ کاش ہم اس موقعے کو گنوائیں نہیں۔ لیکن اس کے لیے بہت سی ہمت درکار ہے۔ ہمارے سیاستدان وہ ہمت مجتمع کرپائیں گے؟
ابھی تک تو اس کا جواب نہیں لگ رہا ہے۔

لانچی

پہلی نظر میں الائچی لگ رہا ہوگا۔۔۔
لیکن یہ لانچی ہی ہے۔ لانچی ایک ایپلی کیشن لانچر ہے۔ اردو میں کہیں تو توپ ہے جو اطلاقیے داغتی ہے۔ :) خیر ہمارا مقصد یہاں اردو ترجمہ کرنا نہیں ہمارے احباب یہ کام بخوبی کررہے ہیں۔ (سجھ تے تُسیں گئے او :D)
خیر جناب ادھر اُدھر کی چھوڑیتے مدعے پر آئیے۔ تو مدعا یہ ہے کہ ہمیں اوبنٹو پر جس چیز کا شوق ہوتا ہے وہ مونو پر مشتمل اطلاقیے ہیں۔ جیسے مونو ڈویلپ، بینشی، ایف سپاٹ اور میرا پیارا گنوم ڈُو۔
صاحبو گنوم ڈُو بڑی پیاری شے ہے۔ اگر چل جائے تو۔ لیکن یہ اس سسٹم پر کچھ مسائل کررہا ہے۔ چلتے چلتے ہینگ ہوجاتا ہے اور پھر سارے سسٹم کے ریسورسز کھانے لگتا ہے۔ نجانے کیا مسئلہ ہے اسے۔ اور اس کی ویب سائٹ سے لگ رہا ہے کہ آخری ورژن بھی جنوری میں جاری کیا گیا تھا۔ اب آپ سوچئیے کتنا بھی پیارا کیوں نہ ہو، جب تک اس کی ڈویلپمنٹ جاری رہے تب تک ہی پیارا لگتا ہے۔ آپس کی بات ہے اوپن سورس والے گرم گرم کھانے کے عادی ہوتے ہیں۔ یعنی تازہ تازہ جو پکا ہو، خستہ مزے دار سا۔ اس سے نئے فیچر بھی آتے رہتے ہیں اور پروجیکٹ زندہ ہونے کی وجہ سے صارف کو بھی ایک احساس رہتا ہے کہ وہ "کلّا ای نئیں پھسیا، ہور وی نیں"۔ گنوم ڈُو کے ساتھ نجانے کیا مسئلہ ہے، لیکن ہم تو اب اسے چھوڑ رہے ہیں۔ اگرچہ یہ بہت سادہ سا ہے، اور اس کی سادگی لیکن پُرکاری مار ڈالتی ہے، ننھی سی جان میں کیا کیا سموئے بیٹھا ہے جی میل کی ڈاک سے لے کر، پجن  کے روابط، بک مارکس اور آپ کا ڈیسکٹاپ تو ہے ہی۔ اور پھر بڑی آسانی سے اسے وضع یعنی کنفگر کیا جاسکتا ہے جو اس کے دوسرے مدمقابل اطلاقیوں جیسے گنوم لانچ باکس میں ممکن نہیں۔
خیر صاحب یہ سب کچھ دیکھ کر ہم نے لانچی کا سوچا۔ جس کا لینکس ورژن بھی اب دستیاب ہے اور ہم نے اس ربط سے صرف ڈیبئین اتارا اور اوبنٹو نے اسے نصب کردیا مع کچھ انحصاری پیکجز کے۔ اگرچہ اس کا مواجہ کیو ٹی ٹول کِٹ پر مشتمل ہے، کام پُورا کرتا ہے۔ آپ بھی ٹرائی کیجیے گا۔

جمعہ، 20 نومبر، 2009

گوگل کروم او ایس

19 نومبر 2009 کو گوگل نے اپنے آپریٹنگ سسٹم کو عوام اور میڈیا کے سامنے پیش کر ہی دیا۔ اس او ایس کے بارے میں پچھلے لگ بھگ ایک سال سے قیاس آرائیاں کی جارہی تھی، اندازے لگائے جارہے تھے اور بعض چیتے بلاگرز اس کی سکرین شاٹس بھی نکال لائے تھے۔ وہ الگ بات ہے کہ یہ سکرین شاٹس گوگل کی ویب ایپلی کیشنز پر مشتمل ایک ڈیسکٹاپ کی ہوتی تھیں (گوگل ارتھ، جی میل، پکاسا وغیرہ وغیرہ)۔
گوگل نے کل آخر رحم کھا ہی لیا اور ان تمام افواہوں، قیاس آرائیوں اور الٹی سیدھی تنقید کا سلسلہ بند کروا دیا۔ جیسا کہ پیشن گوئی تھی کہ گوگل کا یہ او ایس لینکس پر مشتمل ہوگا۔ بالکل یہی حقیقت نکلی ہے۔ لیکن یہ خبر میرے جیسوں کے لیے مایوس کن ہے کہ گوگل کا یہ او ایس ایک خاص ہارڈ وئیر پر چل سکے گا۔ اگلے سال کے آخر تک گوگل اپنی ایک عدد نیٹ بُک لانچ کرے گا جس میں پہلے سے یہ او ایس نصب ہوگا، یعنی ڈیسکٹاپ پی سی کی چھُٹی۔ ایک اور بات یہ کہ یہ او ایس خالصتًا ویب اطلاقیوں پر مشتمل ہے۔ نیٹ بُک کو اٹھا کر کہیں بھی لے جائیں لیکن اس پر سارا کام ویب سے چلنے والے اطلاقیے کریں گے اور آپ کی ہر چیز انٹرنیٹ پر، ظاہر ہے گوگل کے سرورز پر، محفوظ ہوگی۔ اور ہمیں امید ہے کہ گوگل نے ایسا اور بہت سی وجوہات کے علاوہ پیسہ کمانے کی غرض سے بھی کیا ہوگا۔ چونکہ گوگل کا کام ہی آنلائن ہے اس لیے یہ عادت سے مجبور ہے۔ :)
اس او ایس کی سیکیورٹی کے بارے میں گوگل نے بڑے اونچے اونچے دعوے کیے تھے جن کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ لیکن اب جبکہ گوگل نے اس کا کوڈ آزاد مصدر کردیا ہے اور اس کے سیکیورٹی نظام کی تفصیلات بتائی ہیں تو یہ دعوے درست بھی لگ رہے ہیں۔ سب سے پہلے تو ویب اطلاقیے ہی اس کو محفوظ بنا دیتے ہیں۔ اس کا سارا روٹ فائل سسٹم صرف قابل پڑھائی بنایا گیا ہے یعنی اس پر کچھ بھی نہیں لکھا جاسکتا۔ او ایس کا کام صرف بنیاد فراہم کرنا ہے جس کے بل پر ویب اطلاقیے چل سکیں۔ باقی سب کچھ سرورز پر ہوگا۔ یعنی وائرس آ بھی جائے تو زیادہ سے زیادہ میموری میں دھمال ڈال سکتا ہے۔ اس کے علاوہ گوگل کا براؤزر کرومیم جو کہ اس او ایس کا بھی براؤزر ہوگا پہلے ہی اس صلاحیت کا حامل ہے کہ اس میں کھلنے والا ہر ٹیب دوسرے ٹیب سے جداگانہ طور پر کھلتا ہے۔ چناچہ اگر ایک ٹیب ہیلڈ ہوجائے، مسئلہ کرے یا کوئی ویب اطلاقیہ کام خراب کرے تو اتنے حصے کی جراحی کرکے باقی سارے جسم کو گزند پہنچائے بغیر کام جاری رکھا جاسکتا ہے۔ بقول گوگل کے بڑوں کے انھوں نے ویب اطلاقیوں کو ایک دوسرے سے لڑائی کرنے سے اور بنیادی سسٹم سے لڑائی کرنے سے روکنے کے لیے موثر انتظام کیا ہے۔ یعنی مہمان ویب اطلاقیے صرف بیٹھک تک آسکیں گے اس سے آگے نہیں، اور یہاں بھی ان کے لیے الگ الگ پورشن مخصوص ہوگا۔ گوگل نے بوٹ کرنے کے عمل کو بھی محفوظ بنانے کی کوشش کی ہے۔ بنیادی نظام کی ہر فائل کے ساتھ مخصوص دستخط جڑے ہیں، دوران بُوٹ ہر فائل کو اس کے دستخط کی بنیاد پر پہچانا جاتا ہے اگر کسی ایک میں بھی تھوڑی سی گڑبڑ ہو تو سسٹم ری سٹارٹ ہوجائے گا، نیٹ سے وہ فائل دوبارہ اتار کر نصب کرے گا، سیکیورٹی پیوند لگائے گا اور پھر نیا جیسا ہوجائے گا۔
یہ سب تو گوگل کے بارے میں تھا اب کنونیکل کی سنئیے، جو مقبول ترین لینکس ڈِسٹرو کی کمرشل اماں ہے۔ کنونیکل گوگل کے ساتھ ٹھیکے پر کام کررہی ہے تاکہ اسے کروم او ایس کے بارے میں مدد فراہم کرسکے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ کروم او ایس اور اوبنٹو نوٹ بُک ری مکس کا کام ایک ہی ہے۔ یعنی نیٹ بُک کمپیوٹرز لیکن کنونیکل کے بقول کروم ویب پر انحصار کرے گا اور اوبنٹو نیٹ بُک ری مکس ڈیسکٹاپ اطلاقیے بھی چلاتا ہے۔
ویسے ہمیں تو خاصی مایوسی ہوئی ہے۔ گوگل نے وہی کیا جس کی اس سے امید تھی، یعنی پھر ویب پر لا کر پھنسا دیا، ساتھ اپنے ہارڈوئیر کی شرط لگا دی اور او ایس کو مینوفیکچرر تک محدود کردیا۔ ہم جو سمجھ رہے تھے کہ ہُن مزہ آئے گا جد گوگل تے مائیکرو سافٹ ککڑاں وانگ لڑ سن۔ پر کتھوں۔ ہمارا مفت کا تماشا گوگل نے لگنے 

ہی نہیں دیا۔

بدھ، 18 نومبر، 2009

کیا ہے؟

کیا ہے ہمیں جو چین لینے نہیں دیتا؟
بابا مشرف تھا تو سارے اس کی ماں بہن ایک کرنے پر تُلے ہوئے تھے۔ اب وہ گیا ہے تو ہمارے وڈے بابے بڑا پکا سا منہ بنا کے کہتے ہیں
او نئیں جی مشرف تے بڑا چنگا سی اے جاگیرداراں ماں دیاں خصماں نے اوہدی مت مار چھڈی۔ آخری سالاں وچ اوہدے خلاف بڑیاں سازشاں ہوئیاں۔
اور میں چپ کرجاتا ہوں کہ بڑی اچھی یادداشت ہے ہماری۔ ہمیں اس کا چک شہزاد میں کروڑوں کی مالیت کا وہ فارم ہاؤس بھی دکھائی نہیں دیتا۔
اب زرداری بیٹھا ہے تو اب بھی پیٹ میں مروڑ اٹھتے ہیں۔ زرداری جاوے ای جاوے
زرداری ہائے ہائے۔
اچھا زرداری چلا گیا تے فیر کون آسیں؟
کوئی ہور ماں دا خصم؟ سادہ پنجابی میں یہی کہیں گے نا ہم۔ کہ جیسی قوم ہو ویسے ہی حاکم ملتے ہیں۔ تو آپ میں سب جانتے ہیں کہ ہم کتنی غیرت والی قوم ہیں۔
مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ ہم آخر چاہتے کیا ہیں؟ کیا حاکم بدلنا ہماری ہابی تو نہیں جیسے رنڈی ہر رات خصم بدلتی ہے؟

جمعرات، 12 نومبر، 2009

ہو چُوپو

لو جی الطاف پائین و ہمنواؤں نے این آر او کھا کے ڈکار بھی نہیں لی۔ ملاحظہ کیجیے۔
قانونی ماہرین کے مطابق متحدہ کے کارکنوں اور رہنماؤں کے کیس ختم کرنے کے حوالے سے آئینی و قانونی سنگین بے قاعدگیاں کی گئی ہیں
کراچی ۔۔۔ متحدہ قومی مو ومنٹ نے این آر او کے ذریعے اپنے قائد الطاف حسین اور مرکزی رہنماؤں سمیت کارکنوں کے 3ہزار5سو70 مقدمات ختم کروائے ہیں جن میں بیشتر سنگین نوعیت کے مقدمات ہیں۔ختم کرائے گئے مقدمات میں قتل، اقدام قتل، چوری ڈکیتی، پولیس مقابلہ، جلاؤ گھیراؤ اور سرکاری و نجی املاک کو نقصان پہنچانے کے مقدمات شامل ہیں۔مرکزی رہنماؤں سمیت متحدہ قومی مو ومنٹ کا کوئی بھی کارکن این آر او کے تحت مقدمات ختم کرانے کیلئے بنائی گئی کمیٹی کے روبرو پیش ہی نہیں ہوا لیکن ا سکے باوجود حکومتی اثر و رسوخ استعمال کر کے مقدمات ختم کرالئے گئے ۔ذرائع کے مطابق مشرف دور میں این آر او جاری ہونے کے بعد حکومت سندھ نے ہائیکورٹ کے سابق جج جسٹس (ر) ڈاکٹر غوث محمد کی سربراہی میں کمیٹی قائم کی تھی جس نے این آر او کے مقدمات کا جائزہ لیکر ان پر سفارشات وزیر اعلیٰ کو بھیجنا تھیں جو این آر او کے تحت مقدمات ختم کرنے کی ا تھارٹی تھی۔ذرائع کے مطابق مذکورہ کمیٹی نے متحدہ قومی مو ومنٹ کے رہنماؤں اور کارکنان کے خلاف زیر سماعت 4 ہزار سے زائد مختلف مقدمات پیش کئے تھے ۔کمیٹی نے مختصر سے وقت میں کسی بھی قسم کی تفتیش اور مناسب جائزہ لئے بغیر متحدہ قومی مو ومنٹ کے خلاف 90 فیصد سے زائد مقدمات یک جنبش قلم ختم کرنے کی سفارشات وزیر اعلیٰ کو بھیج دیں جو اس وقت کے وزیر اعلیٰ سندھ ارباب غلام رحیم نے منظور کر لی بعدازاں حکومت سندھ نے ان مقدمات کے خاتمے کیلئے متعلقہ عدالتوں میں درخواستیں جمع کراکے مقدمات باقاعدہ ختم کرادئے تھے ۔سندھ کی سطح پر بننے والی این آر او کمیٹی میں اس وقت کے ایڈو وکیٹ جنرل خواجہ نوید احمد اور سندھ کے سیکریٹری قانون سید غلام نبی شاہ بھی ممبران کے طور پر شامل تھے ۔ختم کرائے جانے والے مقدمات میں متحدہ قومی مو ومنٹ کے مرکزی رہنماؤں الطاف حسین، فاروق ستار، وسیم اختر اور دیگر کارکنان و رہنماؤںکے مقدمات شامل تھے ۔متعدد قانونی ماہرین نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ قانونی لحاظ سے مقدمات دو نوعیت کے ہوتے ہیں ایک قابل رضامندی (compoundable) اور دوسرے ناقابل رضامندی (non-compoundable) قتل ، اقدام قتل قابل رضامندی مقدمات تو ضرور ہیںلیکن ان مقدمات کے خاتمے کیلئے متاثرہ فریق کی رضامندی ضروری ہے ۔قتل کے مقدمے کو مقتول کے ورثاء کے سوائے حکومت یا ریاست کسی طور پر معاف نہیں کرسکتی ہے جبکہ چوری، ڈکیتی ، اغواء، دہشت گردی، سرکاری و نجی املاک کو نقصان پہنچانے والے مقدمات بھی ناقابل رضامندی مقدمات کے زمرے میں آتے ہیں جنہیں معاف کرنے کا حق مقدمے کے متاثرہ فریق سے لیکر کسی کو بھی نہیںہوتا ہے ۔قانونی ماہرین کے مطابق متحدہ کے کارکنوں اور رہنماؤں کے کیس ختم کرنے کے حوالے سے آئینی و قانونی سنگین بے قاعدگیاں کی گئی ہیں۔


ہفتہ، 7 نومبر، 2009

ترقی

پچھلے ایک ہفتے سے میرا گھر پیٹر انجن کی ٹھک ٹھک پھک پھک سے گونج رہا ہے۔ اس میں وقفے وقفے سے وہ آوازیں بھی شامل ہوجاتی ہیں جو اس کے ساتھ لگی مشین کے گھومنے سے پیدا ہورہی ہیں، اس میں بجری ڈالنے سے پیدا ہورہی ہیں اور پھر بجری اور کول تار کا ملغوبہ نکالنے سے پیدا ہورہی ہیں۔ یہ سب کچھ میرے محلے کی ایک سڑک تعمیر کرنے کے لیے کیا جارہا ہے۔ یہ سڑک یعنی صدر بازار میرے محلے کے دو بڑے بازاروں میں سے ایک ہے جو اسے مین روڈ سے ملاتے ہیں۔
آپ بھی حیران ہونگے اگر سڑک تعمیر ہورہی ہے تو اس میں بری بات کیا ہے؟ مجھے بھی کوئی بری بات نہیں لگ رہی۔ آخر میرے محلے کی ترقی ہورہی ہے۔ سڑک جو صرف دو سال پہلے بنی تھی اب اس میں ایسے ایسے گڑھے تھے، کہیں سیوریج ڈالنے والوں نے ادھیڑ ڈالی تھی، کہیں رہائشیوں نے اپنا سیوریج پائپ ڈالنے کے لیے کھود ڈالی تھی اور رہی سہی کسر واٹر سپلائی کے نئے پائپ ڈالنے والوں نے نکال دی تھی۔ تو یہ گڑھے مجھے ایسے لگتے تھے جیسے کسی بیوہ کی خستہ حال چادر کے اڑے ہوئے حصے جو اس کی برہنگی بھی نہیں چھپا سکتے۔ مجھے خوشی ہے کہ اس سڑک کو پھر سے پردہ دیا جارہا ہے جو سر بازار بے پردہ ہورہی تھی، کوڑھ زدہ مریض کی طرح اس کی کھال پھٹ گئی تھی اور پیپ زدہ ماس کی طرح پتھر نظر آرہے تھے۔ لیکن مجھے خوشی ہوتے ہوئے بھی خوشی نہیں ہے۔ اس کی وجہ؟ وجہ یہ ہے کہ ابھی یہ سڑک مکمل نہیں ہوئی۔ اور میرے محلے کے چوک، صدر چوک، میں ایک کتبہ لگ گیا ہے۔ ایک بینر بھی لگ گیا ہے۔ جس میں میرے حلقے کے ایم این اے کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا گیا ہے۔ اور اس کے نیچے محلے کے تین چار چوہدریوں کے نام ہیں بشمول نائب ناظم۔ میں بس ذرا سا حیران ہوں کہ یہ سب تو ہونا ہی تھا۔ لیکن یہ ایسے کیوں ہورہا ہے؟ کیا ہم ٹیکس نہیں دیتے؟ ہر سال حکومت میرے ڈھائی مرلے کے مکان سے دو ہزار روپیہ پراپرٹی ٹیکس وصول کرتی ہے۔ مجھے موبائل فون کے ہر سو روپے پر چھتیس فیصد ٹیکس دینا پڑتا ہے۔ ہر وہ کام جس میں روپے لگتے ہیں میں ٹیکس ادا کرکے کرتا ہوں۔ تو  دو سو میٹر کا سڑک کا یہ ٹکڑا اگر دوبارہ سے بنایا جارہا ہے تو اس میں اتنے احسان کی کیا بات ہے؟ اور اس میں اس ایم این اے کا کیا کام ہے؟ ایم این اے تو سمجھتے ہیں نا آپ؟ ممبر قومی اسمبلی۔ تو یہ ممبر جو میرے محلے جیسے دس اور محلوں کا بھی والی وارث ہے۔ اسے اتنا کشٹ اٹھانے ضرورت ہی کیا تھی آخر؟ صاحب اسلام آباد جاؤ، ایوان میں بیٹھو اور قانون سازی کرو۔ قومی نوعیت کے مسائل کو حل کرو۔ میرا محلہ، کہ جس جیسے سینکڑوں محلے اس ملک میں ہیں، پر اتنی مہربانی کیوں؟ کہ چند سو میٹر کا ایک سڑک کا ٹکڑا جناب نے کمال مہربانی سے اور خصوصی توجہ سے تعمیر کروایا جس پہ میرے محلے کے چوہدری سراپا ممنون احسان ہورہے ہیں۔ ارے یہ کام تو میرے محلے کا ناظم بھی کرسکتا تھا۔ اس کا کام ہی یہ ہے کہ مقامی طور پر ایسے کام کرائے، ترقی کے منصوبے بنائے اور ان پر عمل کرائے۔ ایم این اے بادشاہ کو کیا ضرورت پڑ گئی یہ سب کرنے کی؟
لیکن نہیں۔ یہاں ایسے ہی ہوتا ہے۔ یہاں اب گلی بھی پکی کروانی پڑی تو اس کام کے لیے ایم این اے اور ایم پی اے آئیں گے۔ ضلعی نظام تو ویسے ہی ختم ہورہا ہے۔ پھر وہی کونسلر رہ جائیں گے جن کا کام محلے کے چُوہڑوں کی انسپکٹری ہوگا بس۔ مجھے نہیں پتا سیاست دانوں کا اس نظام کے بارے میں کیا خیال ہے، اس میں کتنی غلط باتیں ہیں، لیکن مجھے اتنا پتا ہے کہ اس کی وجہ سے مجھے اتنا پتا لگا تھا کہ ترقی ہوسکتی ہے۔ میرے محلے کی گلیاں اور سڑکیں پچھلے پانچ سال میں اتنی بار بنیں کہ میں اکتا گیا۔ جہاں دیکھو ہر روز کوئی نہ کوئی کہیں نہ کہیں کام ہورہا ہوتا تھا۔ چلیں اب یہ اکتاہٹ ختم ہوجائے گی۔ اختیارات واپس وڈوں کو مل رہے ہیں۔ اب نا وڈے صاحب کے پاس وقت ہوگا نہ وہ ایسی کسی چیز کا افتتاح کرسکیں گے۔ اور ہم منہ چک کے اسلام آباد کی طرف دیکھتے رہیں گے کب بڑے صاحب پدھاریں اور کب ان کو عرضی پیش کریں کہ صاحب محلے کے گٹر کا ڈھکن بدلوانا ہے ذرا فنڈز تو جاری کروا دیجیے۔ صاحب کوڑا سٹینڈ نہیں ہے محلے میں کوئی مناسب سی جگہ دیکھ کر اس کا سنگ بنیاد رکھوا دیجیے۔ سرکار کی مشہوری بھی ہوجائے گی غریب کا بھلا بھی ہوجائے گا اور ایک عدد کتبہ بھی لگ جائے گا۔
محلہ غریباں کے کوڑا سٹینڈ کا
سنگ بنیاد
جناب عزت مآب ایم این اے صاحب نے
اپنے دست مبارک سے فلاں تاریخ کو رکھا۔ 

جمعرات، 5 نومبر، 2009

تسیں خوش ہوجاؤ

لو جی این آر او پارلیمنٹ میں نہیں پیش کیا گیا۔ 
وجہ؟
ملاحظہ کریں

پس ثابت ہوا کہ جماعت اسلامی والے اتنے طاقتور ہیں۔ :D

منگل، 3 نومبر، 2009

بھارتی اسلحہ؟

ہمارے میڈیا کو شاید عادت ہوگئی ہے بغیر ثبوت کے دعوے کرنے کی اور ہمیں بھی شاید ان کی ہر بات پر آنکھ بند کرکے یقین کرلینے کی عادت ہوگئی ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ بھارت ہماری اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کررہا لیکن مجھے اس تصویر اور اس کے کیپشن پر اعتراض ہے۔ 
 
 
مجھے اصل میں اس تصویر میں "بھارتی اسلحے" کا کوئی ثبوت نظر نہیں آرہا۔ آپ کو آرہا ہے؟ اگر نہیں تو پھر اس تصویر کا کیپشن یہ کیوں دیا گیا ہے؟ صرف جذبات بھڑکانے کے لیے؟