لو جی اللہ والیو۔ عید کو کِلؑی پر ٹنگے تھوڑی دیر میں بارہ گھنٹے ہوجائیں گے۔ آج صبح سات بجے نہا کر، ناشتا کرکے آٹھ بجے ہم نے نماز پڑھی جو سوا آٹھ تک چلی۔ دو چار لوگوں سے عید ملے اور گھر آکر عید کو کھونٹی پر ٹانگ دیا۔ تب سے وہیں لٹکتی ہے اور موج کرتی ہے۔ اور ہم ایک عدد ہندی فلم دیکھ کر، مستنصر حسین تارڑ کا سفرنامہ برفیلی بلندیاں پڑھ کر اور انٹرنیٹ پر بیٹھ بیٹھ کر موج کرتے ہیں۔ اگرچہ اس بیٹھنے کی وجہ سے ہماری تشریف اب بے چین ہوتی ہے اور ہمیں ٹہوکے بھی دیتی ہے کہ اٹھ بھی جایا کرو کبھی لیکن ہم اب بھی بیٹھے ہیں کہ ایک پوسٹ لکھ ہی لیں۔ اس کے بعد اُٹھ جائیں گے۔
پچھلی بار کی طرح اس بار بھی ہمارے ہاں قربانی نہیں تھی۔ جیسا کہ اکثر ہمارے جیسے پاکستانیوں کے ہاں نہیں تھی کہ پندرہ ہزار کا بکرا لیتے یا مہینے کا خرچہ چلاتے۔ تو ہم نے مہینے کا خرچہ چلانےکو ترجیح دی۔ قربانی نہ ہو تو ایویں ذرا شرمندگی سی ہوتی ہے سو ہم آج باہر بھی نہیں نکلے کہ سب مصروف تھے تو ہم ذرا ویلے ویلے سے نویں شلوار قمیض میں اوپرے اوپرے سے لگتے۔
آج بہت عرصے بعد مستنصر حسین تارڑ کے ساتھ عید کی۔ اس کا سفرنامہ برفیلی بلندیاں پڑھا جس میں اس کے دو عدد سفروں کی داستان ہے۔ مستنصر حسین تارڑ سفرنامے کو افسانہ بنا دیتا ہے، فکشن میں ڈھال دیتا ہے۔ عام سے پتھروں بھرے راستے کو جنت کی خوبصورتی عطاء کردیتا ہے، خود تو تخیل میں ٹھوکریں کھاتا ہی ہے میرے جیسے قاری کا بیڑہ بھی غرق کرتا جاتا ہے۔ لیکن بے مثال لکھتا ہے۔ جتنا بھی لکھتا ہے اچھا لکھتا ہے اور اسے پڑھنے کو دل کرتا ہے۔ ایویں پڑھتے جانے کو دل کرتا ہے۔ اس کا انداز تحریر آپ دور سے پہچان لیں گے، لو جی مستنصر حسین تارڑ آگیا۔ ایک تو اس کی آدھی کتابیں شمالی علاقہ جات کے سفرناموں پر مشتمل ہیں دوسرا اس کا اُسلوب۔ اس کا انداز بیان عجیب سا ہے۔ جب ڈسکرپشن دینی ہوتی ہے تو فعل مطلق استعمال کرتا ہے، فعل ماضی مطلق یعنی تا تھا، ، تے تھے، تی تھی۔ اور جب واقعات قلم بند کرتا ہے تو سادہ فعل ماضی میں اتر آتا ہے۔ لسانیات کا طالب علم ہونے کے ناطے مجھے اس کا اُسلوب اپنی طرف کھینچتا ہے۔ کبھی زندگی رہی تو اس کے اُسلوب کا تجزیہ کروں گا۔ یہ کیسے زبان کے ساتھ کھلواڑ کرکے اپنا انداز بیاں تخلیق کرتا ہے۔ اردو کے لکھاریوں میں تارڑ اور محی الدین نواب دو ایسے نام ہیں جن کی تحریر میں دو جملوں میں پہچان جاتا ہوں۔ کہ یہ وہی ہے ہاں وہی ہے۔ اس کی وجہ ان کا زبان کو اپنے انداز سے بیان کرنا ہے اور واضح علامات چھوڑنا ہے۔ اُسلوب تو ہر لکھاری کا ہوتا ہے لیکن مجھے ان کا اُسلوب پہچاننے میں آسانی شاید اس لیے ہوتی ہے کہ یہ فعل یعنی زمانے کو خاص انداز میں پیش کرتے ہیں۔ فعل سے میری مراد انگریزی والا ٹینس ہے۔
لو جی بات عید سے شروع ہوکر ادبی اُسلوبیات تک آپہنچی۔ چلو چھڈو جی۔ ہور سناؤ۔ عید کیسی گزری آپ کی؟ اس بار عید مبارک کہنا ہی بھول گیا۔ چلو اب سہی۔ عید مبارک۔ آپ سب پر اللہ کی رحمتیں اور برکتیں ہوں اور آپ کی قربانیاں اللہ قبول کرے۔
آمین۔
g apko bhi Eid buht Mubarak ho,,,, waqai kabi Uth b jaya kijeae NET se..... Chalen Allah Apko Apne Hifz o Eman me rakhe or apki Tashreef ko SABR E JAMEEEL ata kre....
جواب دیںحذف کریں;)
خیر مبارک جناب
جواب دیںحذف کریںکامران اصغر کامی
سر جی عید منانے دو
جواب دیںحذف کریںکیوں آٹھویں کی گرامر دوبارہ پڑھانے پر تُلے ہوئے ہو؟
متوسط طبقے کی عید اور تارڑ کا اچھا ریویو کیا ہے آپ نے
جواب دیںحذف کریںتارڑ اور نواب کے متعلق آپ کے لکھے سے کلی طور پر متفق ہوں
تارڑ کی نثر بندے کو جکڑ لیتی ہے اور کتاب ختم ہونے تک جان نہیں چھوڑتی
جبکہ نواب کی کہانی کے دو صفحے بھی بندے کا بلڈ پریشر ہائی کردیتے ہیں۔۔۔
آپ کو عید کی خوشیاں مبارک
جواب دیںحذف کریںعید مبارک
جواب دیںحذف کریںآپ کونسے شہر میں وقوع پذیر ہیں ؟ یہاں لاہور میں تو لوگوں نے ساڑھے چھ ہزار میں بھی بکرا لیا ہے ۔ ایک جوڑی کی قیمت مجھے بھی سولہ ہزار بتائی گئی تھی ۔
لیکن جناب روزِ عید آپ نے گھر میں بند کمپیوٹر اور ٹی وی سے عشق میں اُرا دیا ۔ یہ تو روز کا معمول ہے ۔ اسی لئے آپ نے عید کو کھونٹی سے لٹکا دیا تھا ؟
ڈفر پاء جی یہ ہماری روزی روٹی کا ذریعہ ہے۔ ہم تو پڑھائیں گے ہی گرامر اور لسانیات۔
جواب دیںحذف کریںمایا ہماری تشریف اب پہلے سے بہتر ہے۔
میرا پاکستان خیر مبارک۔
افتخار صاحب میں فیصل آبادی ہوں۔ اور یہاں بڑے ہاٹ ہاٹ ریٹس بتائے گئے ہیں مجھے بکروں کے۔ بس جناب جب کچھ نہ کرنے کو ہو تو کمپیوٹر ہی کرتے ہیں ہم۔ اور ہمارے پاس کرنے کے لیے اکثر کمپیوٹر کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔
جعفر آپ کی بات سے متفق ہوں لیکن میرے اندر کا لسانیات کا طالب علم ابھی بے بس ہے کہ ان کے اس اُسلوب کی کیسے وضاحت کی جائے۔ یہ ادھار ہے اب۔