جمعہ، 1 جون، 2007

کیا پنجاب کی نئی نسل اخلاقی انحطاط کا شکار ہے؟

محفل پر ایک نہایت ہی محترم رکن نے دوران گفتگو یہ بات کی کہ پنجاب کی نئی نسل اخلاقی انحطاط کا شکار ہوچکی ہے۔ ان کی باتوں کے آغاز میں گالی درمیان میں گالی اور آخر میں بھی گالی ہوتی ہے۔
 میں ایک پنجابی ہوں۔ پنجاب کے ایسے شہر کا رہنے والا جو قریبًا پنجاب کے درمیان میں واقع ہے۔ سوچا اس پر کچھ تحقیق کروں۔ محفل پر کچھ احباب نے اوپر دئیے گئے اس بیان پر اعتراض کیا تھا۔ میں نے بھی ایک نہیں لکھ مارا کہ ایسا نہیں۔ لیکن بعد میں جب تسلی سے سوچا تو نتیجہ کچھ اور نکلا۔ میں کوشش کروں گا کہ اس سارے سلسلے کو غیر جانبدار ہوکر دیکھ سکوں۔


 


پہلی بات تو یہ ہے کہ زبان کا مقدر ہی بدل جانا ہوتا ہے۔ لسانیات کے طالب علم کے طور پر ہمیں یہ سبق  سب سے پہلے پڑھایا جاتا ہے کہ زبان کے بدلنے کو روکا نہیں جاسکتا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ زبان کا بدلنا کس طرح ممکن ہوتا ہے۔
 اس سلسلے میں ایک تو سادہ سی بات ہے کہ الفاظ متروک ہوجاتے ہیں۔ ان کی جگہ نئے الفاظ بنا لیے جاتے ہیں یا دوسری زبانوں سے لے لیے جاتے ہیں۔چچا غالب کے زمانے کے کئی اردو الفاظ جیسے طمنچہ، سلفچی وغیرہ وغیرہ آج شاذ ہی آپ کو کسی کی زبان پر نظر آئیں گے۔


دوسرے اس میں یہ ہوتا ہے کہ الفاظ کے معنی بدل جاتے ہیں۔ پہلے پہل یہ سیاق و سباق کے لحاظ سے کچھ الفاظ کے معنوں میں تبدیلی ہوتی ہے بعد میں یہی تبدیلی مستقل ہوجاتی ہے۔ یہاں تک کہ رفتہ رفتہ لوگ اس کو پرانے معنوں میں لینا چھوڑ دیتے ہیں۔ اس کی عام سی مثال ایک لفظ "گھٹیا" ہے۔ آپ میں سے کتنے لوگ یہ جانتے ہیں کہ گھٹیا اصل میں خنزیر کے بچے کو اردو میں کہا جاتا ہے؟ بالکل اسی طرح جیسے کتے کے بچے کو پلا کہا جاتا ہے۔ اب آتے ہیں اس کے عام استعمال کے حوالے سے۔ آپ دیکھ لیں گھٹیا ایک بڑی بے ضرر سے گالی گنی جاتی ہے۔ کم از کم میرے لیے تو یہ ہمیشہ ایسا ہی رہا ہے۔ اگر کسی کو گھٹیا کہا بھی جائے تو اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہوتا کہ وہ خنزیر کی اٰل میں سے ہے بلکہ اس سے مراد اس کا برا پن ہوتا ہے۔


یہ بات کرنے کے بعد اب ہم آگے بڑھتے ہیں پنجاب کے حوالے سے۔ آج کے دور میں میڈیا کا کردار بڑا مضبوط ہے۔ میڈیا روایات کو جنم دیتا اور مٹاتا ہے۔ پنجاب میں لوکل میڈیا یعنی سٹیج ڈرامے عمومی کلچر پر بڑی بری طرح سے اثر انداز ہورہے ہیں۔ جگت بازی ہماری روایات میں شامل رہی ہے۔ بھانڈ اور میراثی ہمارے کلچر کا حصہ ہمیشہ سے تھے۔ لیکن اب سٹیج ڈراموں نے مزاح کے نام پر پنجاب اور اہل پنجاب کو جو بدنام کیا ہے وہ کبھی بھی ہمارے کلچر کا حصہ نہیں رہا۔ یہ سٹیج ڈرامے ایک وقت میں صحیح مزاح ہوتے تھے۔ سہیل احمد اور عمر شریف کے ڈرامے کل بھی تھے اور آج بھی مزاح کا بہترین شاہکار ہیں۔ ان کے ڈراموں میں وہی جگت بازی ہوتی ہے جو اندرون لاہور کے لوگوں کا مخصوص انداز ہے نہ کی ایک دوسرے کی ماں بہن ایک کرنا۔


ان سٹیج ڈراموں کو دیکھ دیکھ کر ہمارے نوجوان طبقے میں یہ فیشن سا بن گیا ہے کہ دو چار باتوں میں دوسرے کی مٹی پلید کردینے سے اس کو تمغہ امتیاز مل جائے گا۔ چناچہ جب بھی دو لوگ اکٹھے ہوں تو ہنسی ہنسی میں دو چار جگتیں چل جانا عام سی بات ہے۔ اب یہ جگتیں کتنی "اخلاقی" ہوتی ہیں یہ الگ بات ہے۔


جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا کہ الفاظ کے معنی وقت کے ساتھ بدل جاتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پنجاب کے نوجوان جو جگت بازی کو فیشن اور گالی دینے کو جسٹ روٹین سمجھتے ہیں اس کو کیسے لیتے ہیں۔ میں اسی نسل کا نمائندہ ہوں۔ اپنی عام زندگی میں کوئی فرشتہ نہیں۔ اپنے احباب کو دو چار جگتیں لگا دینا میرے لیے معمول کی بات ہے۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ یہ الفاظ جسے گالی کہا جاتا جب ہم اپنی عام گفتگو میں استعمال کرتے ہیں تو ان کا مطلب ہرگز وہ نہیں ہوتا جو کہ "اصل" میں ہے۔ یہ ایسے ہی جیسے کھانے کے لوازمات میں سلاد ہوتو لطف دوبالا ہوجاتا ہے ویسے ہی ہم اپنی عام زندگی میں ان الفاظ کو ذرا "ڈیکوریشن" کے لیے ساتھ ٹانک دیتے ہیں۔


اب آپ کو شاید شدید قسم کا اعتراض ہوکہ ایک غیر اخلاقی بات اور رجحان کو غلط کہنے کی بجائے شاکر اس کی حمایت کررہا ہے۔ جناب میں تو صرف بیان کررہا ہوں کہ چیزیں اس طرح موجود ہیں۔ بطور اس معاشرے کا نمائندہ ہونے کے میں نے جو محسوس کیا اور اس کی جو وجہ میرے سامنے آئی وہ میں نے آپ کے سامنے رکھ دی۔


میں بی بی سی کی اس رپورٹ سے متفق ہوں کہ ہمارے ہاں قومی سطح پر ہتک عزت کرنے والے کئی الفاظ ایجاد کرلیے گئے ہیں جنھیں صدر مملکت اور سیاستدانوں سے لے کر عام لوگ تک کثرت سے استعمال کرتے ہیں۔ لیکن یہ سب اصل میں میرے نزدیک اس فرسٹریشن کا نتیجہ ہے جو ہمارے ارد گرد موجود ہے اور مسلسل بڑھ رہی ہے۔


لیکن اب ایسا بھی نہیں ہے کہ ہم ہر وقت تیری ماں اور اور تیری بہن کو ۔۔۔ کرتے رہتے ہیں۔ اپنے اساتذہ کے ساتھ، اپنے ماں باپ کے ساتھ، اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ اور عمومی محافل میں ہماری زبان بڑی شائستہ اور صاف ہوتی ہے۔ یہ "غیر اخلاقی پن" اس وقت در آتا ہے جب ہم خالصتًا اپنے ہم عمروں میں بیٹھے ہوں جیسے ہم جماعتوں میں۔ چونکہ ہم عمروں میں بیٹھ کر آپ ذہنی طور پر اپنے آپ کو ان پابندیوں سے آزاد محسوس کرتے ہیں جو احترام کے ذیل میں آپ پر عائد ہوتی ہیں۔


آپ کا میری رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ تعمیری تنقید میں ہمیشہ ہضم کرلیا کرتا ہوں۔


وسلام


 

15 تبصرے:

  1. اسلام و علیکم
    اردو ویب کے پلانٹ کا مطالعہ کرتے ہوئے آپ کی یہ پوسٹ نگاہ سے گزری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔محفل میں آپ کے چمت کار سے بہت اچھی طرح واقف تھا
    آپ کی یہ معلومات دیکھ کر بہت اچھا لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں آپ کی بات سے اتفاق کرتا ہوں یہ بات واقعی ہی سہی ہے کہ جب ہم اپنے کسی ہم عمر دوست سے ملتے ہیں تو واقعی ہی غلط الفاظ کا استعمال بے دریغ کرتے ہیں اور اس کی مثال میں خود ہوں
    ہر انسان پاک باز شروع سے نہیں ہوتا وقت کے ساتھ ساتھ شکست و ریخت کا عمل ہوتا رہتا ہے
    جب میں دوستوں سے ملتا ہوں‌تو ان کے ساتھ ایک مخصوص زبان کا استعمال ہوتا ہے مگر اس وقت جب ہمارے درمیاں ایک ایسا دوست موجود ہے جس سے ہماری
    بے تقکلفی نہ ہو تو نتیجہ مہذب گفتگو کی صورت میں نکلتا ہےوہ ماں‌باپ جو اپنے بچے کو شریف النفس سمجھتے ہیں‌گھر
    میں‌اگر اس کے دوستوں کے ساتھ اس کے گفتگو کا ریکارڈ سن لیں‌تو ان
    کے پائوں سے زمین نکل جائے گی۔
    لیکن اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں‌کہ وہ بچہ شریف نہیں وہ صرف مخصوص لفظوں‌کا استعمال مخصوص وقتوں‌میں
    کرتا ہے
    میں‌ذرا جلدی میں‌ہوں‌اور دوست کی شمولیت تک میں‌انتظار کرتا ہوں

    جواب دیںحذف کریں
  2. معاشرے کے انحطاط کی کئی وجوہات ہوتی ہیں۔ لیکن سب سے بڑے وجہ تعلیمی معیار کی گراوٹ اور والدین کی سستی ہے۔ بچہ ادب آداب پہلے ماں‌کی گود سے سیکھتا ہے اور اس کے بعد سکول سے۔ اب ہمارے قومی تعلیمی اداروں کا معیار کافی گر چکا ہے۔ اس کا حل تو یہی ہے کہ سارے تعلیمی ادارے نجی اداروں کے سپرد کردئے جائیں۔ اس طرح تعلیمی معیار تو بڑھے گا مگر ساتھ ساتھ تعلیم مہنگی ہوجائے گی۔
    یہ بات درست ہے اور صدیوں سے ایسے ہی چلی آرہی ہے کہ ہم اپنے ہم عمروں کے درمیان بیٹھ کر غیرمعیاری گفتگو کرنا عار نہیں‌سمجھتے مگر بڑوں کیساتھ تمیز سے پیش آتے ہیں۔
    میڈیا ہمارے معاشرے کے سنوارنے اور بگاڑنے میں‌بہیت بڑا کردار ادا کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ میں‌بچوں کے پروگراموں پر خاص توجہ دی جاتی ہے جن میں‌بچوں کو کھیل کھیل میں‌ادب آداب سکھائے جاتے ہیں۔ ہم لوگ چونکہ ایسی حکومتوں کے ساؤں‌میں‌پل کر بڑے ہورہے ہیں‌جو ذاتی اور غیرملکی آقاؤں کے مفاد کو قومی مفاد پر ترجیح‌دیتی ہیں‌اسلئے معاشرے کو سنوارنے میں‌ان کا حصہ صفر ہوتا ہے اور یہی ہمارا قومی المیہ ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. بھائی جی آمد کا شکریہ۔ میں جادوگر نہیں جو چمت کار دکھاؤں۔ بس لکھ لکھا لیتا ہوں تھوڑا سا۔ بات جہاں تک شرافت کی ہے لسانیات میں ہم ایک اصطلاح استعمال کرتے ہیں “رجسٹر“۔ جس کا مطلب ہے ایک خاص فیلڈ کی زبان۔ بچہ جب اپنے دوستوں میں جاتا ہے تو اس کا رجسٹر بدل جاتا ہے اور نتیجے میں ساری گفتگو مختلف ہوجاتی ہے۔ لیکن اس کا مطلب واقعی یہ نہیں کہ وہ بچہ بد اخلاق ہے۔ یہ ایک فطری بات ہے۔ ہاں یہ بات ہے کہ اگر بچے کی تربیت ایسی ہوکہ وہ دوستوں میں بھی حیاء برتے تو کیا ہی بات ہے۔لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں بچے پر اتنی توجہ دینے کا رواج نہیں رہا۔

    جواب دیںحذف کریں
  4. شاکر آپ کی بات دُرست ہے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جب کوئی دوسری زبان والا ایسے الفاظ سُنتا ہے تو وہ اسے اخلاقی گراوٹ ہی گردانتا ہے۔ میں پشتو بولنے والا ہوں۔۔۔شروع شروع میں، میں نے یہ “جگت بازیاں“ جب سنیں تو مجھے بہت غصہ آیا۔ اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگوں کے منہ سے جب بندہ ایسے ویسے الفاظ سُنے تو فطری طور پر انسان تلملا جاتا ہے۔
    میں آپکی اس بات سے اتفاق نہیں کرتا کہ یہ الفاظ صرف دوستوں کی گفتگو تک محدود ہیں۔ والدین اور گھر والوں کے سامنے بھلے ہی ایسے الفاظ کا استعمال نہ ہوتا ہو لیکن عوامی مقامات ایسی گفتگو سے مبرا نہیں۔ افضل بھائی کی بات سے اتفاق کروں گا یہ تربیت کی کمی ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  5. میں نے اس موضوع پر لکھنے کا ایک سے زائد بار سوچا لیکن پھر ارادہ ترک کر دیا ۔ یہ مسئلہ اتنا معمولی نہیں جتنا آپ نے بیان کیا ہے ۔ مختلف وجوہات کی بنیاد پر یہ گھمبیر صورت اختیار کر چکا ہے ۔ جگت بازی کے نتیجہ میں کئی جوان اپنے ہی دوستوں کا قتل کر چکے ہیں ۔ اس وباء کے چلنے اور پھیلنے کی موٹی موٹی وجوہات یہ ہیں ۔
    والدین کی لاپرواہی ۔ اساتذاہ کا کردار ۔ سکول کا ماحول ۔ بچوں کو یا طالب علموں کو غلطی پر سرزنش نہ کرنا ۔ محکموں میں نا اہلی کا فروغ ۔ حکومتی سطح پر یعنی اسمبلیوں میں نا اہلوں کی موجودگی جن کا طرزِ کلام عام آدمی سے انتہائی بداخلاقی ہوتا ہے ۔ بے جا آزادی ۔ انصاف کا نہ ہونا یا اس کا حصول بہت مشکل ہونا ۔

    ایک مصدر جو میرے لڑکپن کے زمانہ میں بہت معیوب سمجھا جاتا تھا اور صرف ان پڑھ یا غلط ماحول کے لڑکے استعمال کرتے تھے وہ میں پچھلے دس پندرہ سال سے اچھے گھرانوں کے لڑکے تو کیا لڑکیوں کو بھی کھلے عام کہتے سنتا ہوں تو سوچ میں پڑ جاتا ہوں کہ یا اللہ ہماری قوم کدھر کو جارہی ہے ۔ معذرت کے ساتھ وہ مصدر لکھ رہا ہوں " پَنگا لینا" ۔ کیا کبھی کسی نے سوچا کہ اس کا مطلب کیا ہوتا ہے ۔

    جواب دیںحذف کریں
  6. واہ پنگا لینا بھی اس کی بڑی معقول وجہ ہے۔ پنگا لینا یعنی ٹانگ اڑانا خوامخواہ تنگ کرنا وغیرہ وغیرہ۔
    آپ کی بات بالکل ٹھیک ہے۔ مسئلہ واقعی اتنا سیدھا نہیں لیکن میرے سامنے جو وجوہات آئیں بیان کردیں۔
    ساجد بھائی ہمارے ہاں معلومات ہوتی ہیں تعلیم نہیں۔ تعلیم ہو بھی تو وہ پروفیشنل ہوتی ہے ایک بندہ اگر اچھا انجنئیر ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ ایک اچھا انسان بھی ہے۔ اسی وجہ سے ایسی صورت حال پیش آتی ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  7. میں اجمل کی بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ اس قسم کی زبان غلط فہمیوں جھگڑوں اور بعض اوقات سنجیدہ نوعیت کے جرائم کو جنم دیتی ہے۔ ایسی کوئی دلیل نہیں جو قریبی دوستوں میں بھی اس قسم کی زبان کے استعمال کو تفریحی سمجھنے پر قائل کرسکے۔ اور یہ بھی کوئی بات نہ ہوئی کہ لوگ تفریحا جو کہتے ہیں ان کا حقیقتا وہ مطلب نہیں ہوتا۔ مطلب میں چاہوں تو کسی قریبی دوست کو گالی دے لوں اور بعد میں یہ عذر پیش کروں کہ میرا یہ مطلب نہیں تھا۔ یا یہ سمجھ لوں کہ میرا دوست خود ہی سمجھ لے گا کہ میرا یہ مطلب نہیں تھا۔

    جواب دیںحذف کریں
  8. شاکر صاحب ۔ پنگا لینا کا مطلب وہ نہیں جو آپ نے فرمایا ہے ۔ ٹانگ اڑانا تو مہذب زبان میں استعمال ہوتا ہے ۔ پنگا بازاری زبان میں چار انگلیوں کو کہتے ہیں ۔ اب سوچئے کیا مطلب ہے اس کا ۔ میں نے یہی واضح کرنے کی کوشش کی تھی کہ تعلیمی انحطاط نے ہماری بول چال کو غلیظ کر دیا ہے اور ہمیں اس کا احساس ہی نہیں ہے ۔ آپ اندازہ کریں کہ میں نے ساری زندگی میں صرف ایک بار گالی دی تھی اور اس کے بعد میں دن یا ہفتہ نہیں کئی مہینے پچھتاتا رہا کہ میری زبان اتنی غلیظ کیوں ہوئی ۔ اس کی وجہ میری والدہ محترمہ اور میرے محترم اساتذہ کی تربیت ہے ۔

    جواب دیںحذف کریں
  9. ہاہاہا
    کہاں رہائش رکھی ہوئی ہے؟
    سہیل احمد کے ڈرامے دیکھے نہیں ہوئے شائد آپ نے
    آپ کا خیال کہ کسی کو جگت لگانا اور سوچنا کہ ایسا مطلب نہیں تھا درست نہیں۔ اس کا مطلب ہوا کہ آپ اس ذہنی پستی کا شکار ہیں جس میں‌آپ کو برے الفاظ اور القاب کی تمیز نہیں رہتی۔ نتیجتا جگت لگا کر بھی سوچا جاتا ہے ایسا مطلب نہیں تھا۔
    خیال رکھا زباندانی کے اس سلاد کو گھر میں ابا جان کے سامنے مت استعمال کر لینا۔ ورنہ جواب میں زباندانی کے جوہر تو شائد نہ ملیں ہا شفقت بھرے ہاتھ کا کچھ پتہ نہیں۔
    ہم عمروں والی بات بھی درست نہیں۔ اس کا مطلب گھر یا دوسرا ماحول آپ کو قید خانہ لگتا ہے جس سے چھٹکارا پاتے ہیں اپنا آپ ظاہر کرنا ضروری ہوتا ہے؟ ہم عمروں کی جماعت کو اکثر بری کمپنی بھی کہا جاتا ہے۔ زمانہ بدل رہا ہے لہذا آپ بھی اسی ٹرینڈ میں رنگ نہ جائیں۔
    الفاظ بدلنے والی بات کا بھی میرے خیال سے آپ صیح طور سمجھ نہیں سکے۔ الفاظ بدلتے ہیں لیکن معانی رکھتے ہیں۔ متروک ہوتے ہیں لیکن ان کی شکل ایسی بگڑ چکی ہوتی ہے۔ کہ وہ پرانے لفظ سے میل نہیں کھاتی لیکن مطلب نہیں
    ‌بدلتا۔ گھٹیا کی بات کی تو ابھی بھی گھٹیا کا کونسا اچھا مطلب ہے؟ کیا آپ کسی عزیز کو اس سے مخاطب کر سکتے ہیں؟
    آپ کا مسئلہ بھی وہی ہے جو کہ دوسروں کا کہ غلط کو غلط کہنے کی بجائے میں تو بس اس کو بیان کر رہا تھا کہہ کر جان چھڑا لی۔
    چلیں جہاں‌رہیں خوش رہین

    جواب دیںحذف کریں
  10. لیجیے اجمل صاحب پھر وہی بات آگئی۔ میرے ذہن میں آج تک پنگے کا وہ مطلب نہیں آیا جو آپ بیان کررہے ہیں۔ اور بخدا میں اب بھی نہیں سمجھ سکا ہوں کہ آپ کا اشارہ کس طرف ہے۔
    بدتمیز جی میں نے ان کا اخلاقی پن بیان کیے بغیر وجہ بتائی تھی جو میرے سامنے آئی۔ اس سے ہرگز یہ مراد نہیں کہ یہ جگتیں کلمے کی طرح طیب و طاہر ہوتی ہیں۔ اور نہ ہی میں نے کہیں ابا حضور کے سامنے ایسی باتیں کرنے کی جسارت کرنے کا کہا ہے۔ صرف ایک نفسیاتی رویے کی نشاندہی کی گئی ہے جو ہم ان رشتوں سے باہر نکل کر محسوس کرتے ہیں۔ باقی ہر ایک کی اپنی رائے ہے۔
    وسلام

    جواب دیںحذف کریں
  11. مطلب کو چھوڑئیے ۔ آئیندہ جس دوست کو یہ الفاظ کہتے سنیں اسے منع کیجئے کہ یہ الفاظ آپ جیسے پڑھے لکھے شریف انسان کی زبان پر زیب نہیں دیتے ۔بس

    جواب دیںحذف کریں
  12. بات وہی آجاتی جناب۔ مطلب آگیا نا بیچ میں۔ اب جب کسی کو پتا ہی نہیں تو اس کے لیے تو یہ بے ضرر چیز ہے۔ اسی طرح الفاظ کے معانی کہیں سے کہیں پہنچ جاتے ہیں۔

    جواب دیںحذف کریں
  13. لیں جی شاکر میرا ذکر ہی نہیں کیا جس نے یہ موضوع باقاعدہ شروع کیا اور اس پر سخت تنقید کی اور ایک خاص قوم سے اسے منصوب کرنے پر دو افراد کی کڑی گوشمالی کی۔
    میرا ذاتی خیال ہے کہ آپ پر بہت منحصر ہوتا ہے کہ آپ اس طرح کی زبان کو پروان چڑھنے دیں اور اس گفتگو کا حصہ بنیں جس میں یہ ہو۔ دوسرا وہی بات جسے گالی سمجھا جا رہا ہے کیا وہ واقعی گالی ہے بھی یا اس کے معنی تبدیل ہو چکے ہیں۔

    جواب دیںحذف کریں
  14. بالکل آپ کی بات بجا ہے۔ اصل میں لکھی تو محفل کے لیے تھی لیکن پھر بلاگ پر بھی ڈال دی۔
    معنی بالکل آپ پر منحصر ہوتے ہیں۔ اب اجمل صاحب کی بات کو ہی لے لیں۔ پنگا لفظ جن معنوں میں وہ استعمال کررہے ہیں میں ابھی تک ان تک نہیں پہنچ پایا۔ سادہ لفظوں میں میرے ذہن میں وہ تصور ہی نہیں۔ اسی طرح رفتہ رفتہ تصور بدل جاتے ہیں۔
    وسلام

    جواب دیںحذف کریں

براہ کرم تبصرہ اردو میں لکھیں۔
ناشائستہ، ذاتیات کو نشانہ بنانیوالے اور اخلاق سے گرے ہوئے تبصرے حذف کر دئیے جائیں گے۔