ہمارا موڈ بھی عجیب ہے۔ جب پرچے قریب آجائیں پڑھنے کو دل ہی نہیں کرتا۔ لوگ پرچے قریب آنے پر حاجی ہوجاتے ہیں۔ مسجد میں حاضریاں شروع ہوجاتی ہیں۔ زبان پر استغفار کا ورد ہر وقت رہنے لگتا ہے۔ نظریں نیچی اور ہاتھوں میں کتابیں آجاتی ہیں۔ گوشہ نشینی اور راہبانیت اپنا لیتے ہیں۔ اور ایک ہم ہیں۔
سال کے شروع سے لے کر بڑی باقاعدگی سے پڑھتے ہیں۔ ہر ٹاپک ہماری ٹانگ تلے ہوتا۔ کلاس میں ٹور الگ ہوتی ہے۔ اور پرچے نزدیک آجائیں تو کام ختم۔ کہاں کی کتابیں۔ کل ہمارا پرچہ ہے اور ہم صبح سے انٹرنیٹ کے سامنے جمے ہوئے ہیں۔ یونہی کے ڈی ای کی وضع قطع درست کررہے ہیں۔ تھیم ڈاؤنلوڈ ہورہے ہیں۔ ویب سائٹس کا وزٹ ہورہا ہے یہ کہہ کر کہ بس یہی آخری۔ ای میلز چیک ہورہی ہیں۔ رات ایک فلم آئی تھی اس کو دیکھا ہے۔ یعنی پڑھائی کے علاوہ ہر کام۔
سمجھ سے باہر ہے یہ رویہ۔ آخر کس چیز کا ڈر ہے جو پڑھنے سے روکتا ہے۔
کیا آپ اس کے پیچھے کارفرما نفسیاتی وجوہات بتا سکتے ہیں؟ شاید ہم اپنے آپ کو ٹھیک کرسکیں۔
آج تک تو ہمیں صرف نواز شریف اور مزاج شریف کا پتہ تھا اب معلوم ہوا کہ موڈ شریف بھی ہوتے ہیں ۔ علاج کرنے سے قبل مرض کا تشخص ضروری ہوتا ہے ۔ اسلئے ذرا مجھے سمجھائیے کہ "موڈ" کونسی بیماری یا علت کا نام ہے ؟ کچھ نہ ہو سکے تو اس کا اُردو یا پنجابی ترجمہ ہی بتا دیجئے
جواب دیںحذف کریںموڈ موڈ ہوتا ہے جناب۔ اس کا کوئی مول نہیں یعنی مطلب نہیں۔ ویسے مزاج بھی کہہ سکتے ہیں لیکن موڈ زبان زد عام ہے۔
جواب دیںحذف کریںشاکر ویسے مجھے تو امتحانات کا ایسا کوئی تجربہ نہیں لیکن میرے خیال میں امتحان سے کچھ دیر پہلے اگر بندہ خود کو تھوڑا ریلیکس کرلے تو اعصاب پرسکون ہوجاتے ہیں اور وہ پوری صلاحیت سے امتحان دے سکتا ہے۔
جواب دیںحذف کریںجی وہ تو کرتا ہوں۔ لیکن یہ امتحان سے پہلے والی سستی مجھے بہت کھلتی ہے۔ کوئی نفسیاتی بیریئر لگتا ہے۔ انشاءاللہ اس کو توڑتا ہوں۔
جواب دیںحذف کریںوسلام