ہفتہ، 30 اگست، 2008

صدارت اور آصف علی زرداری

بطور صدارتی امیدوار آصف علی زرداری کی عوام میں غیر مقبولیت کو اب ایک اور انداز میں ایک کالم نگار پیش کررہے ہیں۔ پی پی پی کو ایک ہی چیز کی فکر ہے اور وہ ہے کہ 12 سال کے بعد جو اقتدار ملا ہے اس پر ہر طرف سے گرفت مضبوط کرلی جائے۔ باقی ستے خیراں ہیں۔  ججوں کو بھی پی سی او کے تحت بحال کیا جارہا ہے۔ زرداری جی جن کے نازک کندھوں پر پورے ملک کی ذمہ داری ہے اب ایوان صدر میں بیٹھ کر اسے بہ احسن سرانجام دے سکیں گے۔


مجھے تو یہ سمجھ نہیں آتی جب صدر ایک علامتی عہدہ ہے، صرف وفاق کی علامت تو اس کے لیے زرداری جی اتنے کشٹ کیوں اٹھا رہے ہیں۔ اپنی بے عزتی خراب کروارہے ہیں اور پارٹی کی الگ درگت بن رہی ہے۔ صدر بن کر زرداری کو کیا مل جائے گا؟ صدر پی پی پی کا ہوجائے گا، ایوان صدر سے کوئی مداخلت نہیں ہوسکے گی، پانچ سال کی آئینی مدت پوری ہونے کے امکانات روشن ہوجائیں گے۔ وغیرہ وغیرہ اس کے جواب ہوسکتے ہیں۔ سوال یہ ہے اگر سترہویں ترمیم ختم کردی جاتے ہے تو صدر کی طرف سے مداخلت کا خدشہ پھر بھی ختم ہوجاتا ہے۔ لیکن اب یہ ختم نہیں ہوگی۔ زرداری صاحب اب گولف کھیلنے اور تقاریب کا افتتاح کرنے تو جائیں گے نہیں۔ کوئی دھوم دھڑکا پاس ہونا چاہیے چاہے وہ 58-2بی ہی ہو۔


اوپر ذکر کیے گئے کالم نگار مخالفت کو پھر پنجابی اسٹبلشمنٹ کی کارستانی قرار دے رہے ہیں۔ پنجاب نے یہ کردیا، پنجاب نے وہ کردیا۔ اب پنجاب ایک چھوٹے صوبے سے صدر بھی نہیں بننے دے رہا۔  میرا ذاتی طور پر خیال تھا کہ پی پی پی اب بلوچستان سے صدر لائے گی۔ جو سندھ سے بھی زیادہ مستحق صوبہ ہے۔ لیکن وائے قسمت وڈے سائیں راضی نہ ہوئے۔ کھٹک تو اسی وقت لگ گئی تھی جب موصوف نے ضمنی انتخابات نہ لڑے اور 3 ماہ کے وزیر اعظم بعد میں بھی حاضر سروس رہے۔


ن لیگ سے اتحاد واقعی غیر فطری تھا اور اسے ختم ہونا ہی تھا۔ لیکن پارٹی کا طرز عمل اور زرداری جی کے لارے لپوں نے نواز شریف کو یہ سب پہلے ختم کرنے پر مجبور کردیا۔ پی پی پی کی فکر کہ اقتدار مضبوط ہوجائے امید ہے چھ ماہ کے بعد اگلے ماہ مُک ہی جائے گی۔ اب دیکھتے ہیں معیشت کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔ سعودی عرب سے قرضے کی بات بھی ہوگئی ہے۔ عالمی بینک بھی "امداد" دے رہا ہے۔ امید ہے اس بھیک سے کچھ عرصہ تو گزرے گا ہی۔

7 تبصرے:

  1. جن صحافی کے کالم کا آپ نے ذکر کیا ہے یہ صحافی ہمیشہ منفی صحافت کرتے رہے ہیں۔ شائد یہ کالم انکا زرداری نامہ کم لیکن پنجاب کے خلاف چارج شیٹ زیادہ ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. آپ بھی کس کالم نگار کی باتوں کو دل پر لے رہے ہیں۔۔ ان کے پچھلے سارے کالم نکال کر پڑھ لیں یہ ہمیشہ اس کے لیے لکھتے ہیں جس کے ساتھ وقت ہوتا ہے۔ صدارت پر سب اس لیے مر رہے ہیں کہ موجودہ قوانین کے مطابق صدارت صرف علامتی نہیں ہے بلکہ سترھویں ترمیم کی موجودگی میں حقیقی طور پر صدر کو بابائے قوم کے بجائے دادائے قوم بنا دیتی ہے۔۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. جس ملک میں زرداری جیسے چور صدر بن سکتے ہوں اس ملک کے مستقبل کی تاریکی پر شک نہیں کرنا چاہیے.. بے نظیر ملعون نے پاکستان کی تاریخ کی کرپٹ ترین حکومت تشکیل دی تھی جسے تاریخ ساز بنانے میں زرداری کا بڑا اہم کردار رہا تھا..

    اس ملک کا کچھ نہیں ہوسکتا..!؟

    جواب دیںحذف کریں
  4. بھاڑے کے ٹٹو کالم نگاروں کا نہیں پتہ؟ یہ چار ٹکڑے لے کر لکھے جاتے ہیں۔ اور خوشآمد سے زیادہ حیثیت نہیں ہوتی۔

    جواب دیںحذف کریں
  5. [...] نے اپنی پچھلی تحریر میں زرداری کے حق میں لکھے گئے کالم پر روشنی ڈالتے ہوئے [...]

    جواب دیںحذف کریں
  6. کچھ ماہ پہلی کی بات ہے کہ وزیراعلٰی پنجاب کی مدح سرائی میں قصور، سیالکوٹ میں بچھائی گئی سڑکوں کے ”جال“ کا ذکر انتہائی رقت سے کیا کرتے تھے۔ اب یہ الگ بات ہے کہ اس سڑکوں کے جال میں لوگ پھنس کر ہسپتال کی سیر کو جاتے تھے۔ اپنے نام کی ہی لاج رکھ لیں۔

    جواب دیںحذف کریں
  7. ویسے اس کالم نگار کے شکل کو غور سے دیکھیئے اس کے شکل پر ہی آپکو راشی پن اور خباثت نظر آئے گی۔

    جواب دیںحذف کریں

براہ کرم تبصرہ اردو میں لکھیں۔
ناشائستہ، ذاتیات کو نشانہ بنانیوالے اور اخلاق سے گرے ہوئے تبصرے حذف کر دئیے جائیں گے۔