کل بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی پر ہونے والے خودکش حملے کے افسوسناک واقعے کے بعد ملک بھر کے تعلیمی ادارے بند کرئیے گئے ہیں۔ اکثر انھیں ایک ہفتے کے لیے بند کیا گیا ہے لیکن پنجاب حکومت نے تاحکم ثانی بندش کا حکم دیا ہے۔ ہم بھی خاصے غور و خوص کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ آج یونیورسٹی نہ ہی جایا جائے۔ چناچہ یہ موجاں اس سلسلے میں ہورہی ہیں۔ چھٹی :) اس چھٹی کی قیمت بہت بڑی تھی :(
جی سی یونیورسٹی جیسے کہ نام سے ظاہر ہے پہلے ایک کالج تھا۔ اب اس کو ارد گرد کی تھوڑی سی زمین مزید عطاء کردی گئی ہے اور یہاں دو نئے بلاکس بن چکے ہیں جہاں یونیورسٹی کی کلاسز ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ مزید دو زیر تعمیر ہیں۔ اس نقشے میں آپ کو بہت تازہ ترین تفصیلات تو نہیں ملیں گی لیکن اندازہ ہوجائے گا کہ جی سی یو ایف کا محل وقوع کیا ہے۔
View Larger Map
جی سی یو کے چہار اطراف سڑکیں ہیں۔ اور اس کے چھ گیٹ ہیں۔ پچھلے وی سی صاحب نے دیوار تڑوا کر اس کی جگہ جنگلہ لگوا دیا جس کو باآسانی کہیں سے بھی پھلانگا جاسکتا ہے۔ چھریرے بدن والے اس میں سے گزر بھی سکتے ہیں کئی جگہوں سے۔ یونیورسٹی کی اپنی سیکیورٹی ہے لیکن ان کا مقصد نمائشی ہے۔ جوڑوں کی صورت میں بیٹھے طلباء کو اٹھانا ان کا سب بڑا اور اہم کام سمجھا جاتا ہے۔۔ پچھلے چھ ماہ سے یونیورسٹی کے چھ گیٹس میں سے صرف دو کھلے رہتے ہیں۔ پہلے گیٹ نمبر 1 اور 2 تھے اور اب 2 اور انٹرسیکشن گیٹ ہیں۔ نمبر 2 گاڑیوں کے لیے اور انٹرسیکشن گیٹ پیدل آمدورفت کے لیے۔ موخر الذکر گیٹ کے اردگرد رکشاؤں اور دوسری سواریوں کا ہجوم رہتا ہے اور آنے جانے والوں کا بھی۔ صرف ایک چھوٹا گیٹ کھلا ہوتا ہے لیکن وہاں موجود دو گارڈز جن کے ہاتھ میں ڈنڈا تک نہیں ہوتا اس ساری صورت حال کو کسی ایمرجنسی میں بالکل بھی کنٹرول نہیں کرسکتے۔ چناچہ دو یا تین دن کی ریکی کے بعد مواقع تلاش کرنا کوئی مشکل بات نہیں اور اس کے بعد اللہ تیری یاری ایک عدد سادہ سا خودکش حملہ باآسانی کیا جاسکتا ہے۔
جب گیٹس بند کئے گئے تھے تب سے طلباء کے عارضی کارڈز بھی بنائے گئے ہیں لیکن یہ پچھلے دو تین ماہ سے چیک نہیں کیے جاتے۔ جی سی یو ایف دہشتگردوں کے لیے انتہائی ترنوالہ ہے اور اس کی سیکیورٹی کے انتظامات کے سلسلے میں بہت سی بہتریاں لانے کی ضرورت ہے۔ اس میں سرفہرت تو بیرونی جنگلے کے گرد خاردار تار لگوانا ہونا چاہیے تاکہ کوئی بھی اسے پھلانگ نہ سکے۔ اس کے بعد یونیورسٹی گیٹ کے قریب پارکنگ کی بالکل بھی اجازت نہ ہو۔ اور اس کے بعد اگلا کام یہ کیا جائے کہ پیدل گزرگاہ کے لیے مخصوص گیٹ پر سیکیورٹی گیٹس مہیا کیے جائیں تاکہ اسلحہ اور بارود چیک کیا جاسکے۔
میری ارباب اختیار سے اپیل ہے کہ ہماری جانوں پر رحم کریں۔ جی سی یو ایف تو اسلامک یونیورسٹی کی طرح وسیع و عریض بھی نہیں۔ یہاں تو جہاں بھی چلے جائیں طلباء کا رش رہتا ہے۔ کم و بیش دس ہزار طلباء سارا دن جی سی یو ایف میں آتے جاتے ہیں اور ان میں سے پانچ ہزار کے قریب ایک وقت میں موجود ہوتے ہیں۔ ہم نے نئے بلاکس کی تعمیر میں پچھلے کئی سال سے ہونے والی تاخیر برداشت کرلی، ہم نے یہ برداشت کرلیا کہ کلاس رومز کی کمی ہے، ہم نے اساتذہ کی عدم دستیابی پر بھی سمجھوتہ کرلیا لیکن ہم اپنی جانوں پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ کم از اکم مجھے کوئی شوق نہیں کہ میں ایک عدد خودکش حملے میں جی سی یو ایف جیسی غیر اہم جگہ پر وفات حسرت آیات پا جاؤں۔ بندہ کوئی وڈہ سارا کم کردا ہویا فوت ہوئے یار۔
آپ جب بھی گورنمنٹ کالج کا ذکر کرتے ہیں
جواب دیںحذف کریںمجھے اداس کردیتے ہیں
اور آپ نے یہ جو لکھا ہے کہ ناں جی غیر اہم سی جگہ ۔۔۔
جب پانچ چھ سال ہوجائیں گے آپ کو یہاں سے نکلے ہوئے پھر پتہ چلے گا کہ یہ جگہ آپ کی زندگی میں کتنی اہم تھی۔۔۔۔
اور جی مرنا تو ہے ہی ایک دن
اگر گورنمنٹ کالج کے گراسی پلاٹ میں پیارے سے کلاس فیلوز کے ساتھ بندہ مرجائے تو اس سے اچھا اور کیا ہوگا۔۔۔
جناب نے نقشے کے ساتھ تفصيل ايسے بتائی ہے جيسے دہشتگردوں کو خود اگلا پوائنٹ مہيا کيا جا رہا ہو کہ آ بيل اب جی سی کو مار
جواب دیںحذف کریںدہشتگرد اگر فیصل آباد آئے تو اس کی گرد سے ہی مر جائیں گے انشاء اللہ۔ فکر ناٹ سر جی
جواب دیںحذف کریںکمال ہے یار۔ آپ بھی وہیں جاتے ہو
جواب دیںحذف کریںافسوس کہ اب ہمارے تعلیمی ادروں تک یہ جہاد پہنچ گیا۔۔ حکومت پہلے اپنی سیکیورٹی کا بندوبست کرلے تو پھر تعلیمی ادراوں کی باری بھی آیا چاہتی ہے۔۔
جواب دیںحذف کریںآپ اسے جہاد کہہ رہے ہیں،میں اسے غنڈا گردی،حیوانیات اور درندگی حتٰی کہ شیطانیت کی بھی کی بھی ماں کہوں گا.
جواب دیںحذف کریں