جب لال مسجد کے واقعے کے بعد سوات میں کشیدگی پیدا ہوئی تھی مجھے اسی وقت لگا تھا کہ اگلا وزیرستان سوات ہوگا۔ یہ بدترین اندیشے درست ثابت ہوئے۔ آج سوات میں عام لوگوں کا جینا حرام ہوگیا ہے۔ پاکستان کا سوئزرلینڈ کہلانے والی وادی اب اپنے رہائشیوں کے لیے جہنم بن گئی ہے۔ حملے، جوابی حملے، خودکش حملے ، فائرنگ، کوبرا اور جانے کون کونسے ہیلی کاپٹرز سے بمباری۔۔یہاں کے مکین اس دوہری آگ کی دیوار میں پس رہے ہیں۔
وہاں کے لوگ اپنے بچوں کو سکول نہیں بھیج سکتے۔ بارہ سو سے زیادہ سکول یا تو بے کار پڑے ہیں، یا مقامی طالبان انھیں عقوبت خانوں کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ آئے دن کے کرفیو نے دو وقت کی روٹی کا حصول مشکل کردیا ہے۔ جو تعلیمی ادارے کھلے بھی ہیں وہاں حاضری نہ ہونے کے برابر ہے۔
آخر ہماری سمجھ میں یہ کیوں نہیں آتا کہ ہر مسئلے کا حل بندوق نہیں؟ پاکستانی فوج کے سامنے ہمیشہ فتح کرنے کے لیے اپنا ملک ہی کیوں ہوتا ہے؟
ایک عرصے تک یہ بھیرویں الاپتے رہنے بعد کہ دہشت گردی کی تعریف متعین کی جائے اس کے اسباب کا بھی جائزہ لیا جائے آج ہماری فوجی حکومت اس طرف سے آنکھیں بند کیے بم برسا رہی ہے اور بدلے میں خودکش دھماکے وصول رہی ہے۔ اس کے بنیادی اسباب ہیں ہی کیا کہ اسلام نافذ کرر؟
تو کردو نا۔ اسلام نافذ کرنا کیا حاکموں کی ذمہ داری نہیں؟ ان سے مل بیٹھ کر مذاکرات کرکے اسلام کے ایک ورژن پر متفق ہوا جاسکتا ہے۔ ٹھیک ہے وہ اسلام کو انتہائی غلط انداز میں لے رہے ہیں تو فوج کونسا صحیح انداز میں لے رہی ہے۔ ان کے مطالبات مانگے جائیں جوابی مطالبات پیش کئے جائیں کسی جگہ تو دونوں اطراف میں اتفاق ہوجائے گا یا نہیں؟
فوج کے خیال میں جواب نہیں ہے اس لیے وہ اپنے کوبرا ہیلی کاپٹر، توپیں اور بندوقیں وہاں آزما رہے ہیں۔ اگر کوئی مر بھی جاتا ہے تو پانچ ہزار ماہانہ والا سپاہی ہی ہے کوئی مسئلہ نہیں۔ اس کی بیوہ اور بچوں کو قوم کے سپرد کرکے یہ لوگ آرام سے ریٹائر منٹ کی زندگی گزاریں گے۔ رہے مزاحمت کار اور عام لوگ تو وہ تو ہیں ہی کیڑے مکوڑے۔اول الذکر کا تو ٹھکانہ ہی جہنم ہے موخرالذکر اگر مارا بھی گیا تو سیدھا جنت میں جائے گا۔
زندہ باد ایسی عقلمندیاں اور پھرتیاں۔
سوات والوں کو اپنی پڑی ہے اور لاہور والوں کو اپنی۔ ایک کو جان کا ڈر ہے دوسرے کو نواز شریف کی آمد کا۔ کراچی میں اپنے مسئلے ہیں اور فیصل آباد میں اپنے۔ کوئی مرتا ہے مرے جیتا ہے جئیے کسی کو کیا۔ جس پر گزرے کی نمٹ لے گا۔
سلام
جواب دیںحذف کریںآپ کو کس نے کہہ دیا سکولوں کو عقوبت خانوں کی جگہ استعمال کیا جا رہا ہے؟
بی بی سی اردو پر۔
جواب دیںحذف کریںسوات کے رہائشی ہی بہتر بتا سکتے ہیں۔ بی بی سی بذات خود پراپیگنڈا مشین ہے۔ لیکن اس بات کو خارج از امکان بھی نہیں قرار دیا جا سکتا۔
جواب دیںحذف کریںمذاکرات نہ کرنا غیرملکی آقاؤں کے ایجنڈے کا حصہ ہے جو نہیںچاہتے کہ پاکستان میں سکون ہو اور لوگ چین سے رہ سکیں۔ پاکستان میں حالات کی خرابی ہی ہمارے آقاؤں کے مفاد میں ہے اور جب تک ہمارے حکمران آزاد نہیںہوں گے مذاکرات نہیںہوسکتے۔
جواب دیںحذف کریںفوجی کی تربیت مذاکرات کے لیے نہیںہوتی۔۔ فوجی کا کام ہی لڑنا ہوتا ہے۔۔ مذاکرات اور پر امن حل نکالنا سیاستدانوں کا کام ہوتا ہے ۔۔ تو فوج وہی کر رہی ہے جسکی اسے تربیت دی گئی ہے۔۔ مسئلہ تو سیاستدانوں کا ہے جنکے ذاتی مفادات نے نہ صرف یہ کے فوج کے لیے اقتدار آسان بنا دیا ہے بلکہ اب وہ اپنے ہر مخالف کو ہلاک کرنے کے در پے ہے۔
جواب دیںحذف کریںاس میں ملک و ملت کو جو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے وہ کسی شمار میں ہی نہیں۔
جواب دیںحذف کریںکسی کی کہی کو دہرانے سے پہلے اس کی تصدیق ہر مسلمان کا فرض ہے ۔ سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کا فرمان ہے "کسی کے جھوٹا ہونے کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ ایک بات سُنے اور اس کی تصدیق کئے بغیر کسی سے کہہ دے"۔
جواب دیںحذف کریںطالبان کے بہت سے ہمدرد پاکستان کے بڑے شہروں میں موجود ہیں ۔ اُن سے طالبان کے طریقے اور سلیقے کے متعلق معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں ۔ ایک بات میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ طالبان کسی انسان کو اذیّت دینا گناہ سمجھتے ہیں اور اس کا ثبوت کئی بار ان سے رہا ہو کر آنے والے قیدی مہیا کر چکے ہیں ۔ تو پھر عقوبت خانے کیسے ؟
رہا نفاذِ اسلام تو سالہا سال گذرے اس علاقہ میں اسلامی شریعت کے نفاذ کا قانون باقاعدہ طور پر صوبائی اسمبلی میں منظور کیا گیا اور پرویز مشرف کی حکومت نے اس کی منظوری بھی دی لیکن آج تک یہ قانون نافذ نہ کیا گیا ۔ ایک سال قبل وہاں کے لوگوں نے الٹی میٹم دیا کہ اگر اسلامی شریعت کا قانون عملی طور پر نافذ نہ کیا گیا تو مقامی لوگ خود اسے نافذ کر دیں گے ۔ مذاکرات کی دعوت اور پھر التواء پر التوء ہوتا رہا ۔ آخر پرویز مشرف نے اپنے آقا کے حکم پر اندھی یلغار کر دی جس کے نتیجہ میں طالبان کم اور عام شہری زیادہ مر رہے ہیں کیونکہ ابھی تک نہ ایسی گولی ایجاد ہوئی ہے نہ بم جو پرسن سپیسفِک ہو ۔