ہفتہ، 28 فروری، 2009

ایس ایم ایس

پاکستان میں اس وقت کم از کم پانچ موبائل فون کمپنیاں فعال ہیں اور جدید ترین خدمات فراہم کررہی ہیں. ملک کی آدھی کے قریب آبادی موبائل فون استعمال کررہی ہے. ہمارے میڈیا کے اشتہارات کا اچھا خاصا حصہ ان پانچ کمپنیوں کے اشتہارات پر مشتمل ہوتا ہے. ہر روز کوئی نیا پیکج اور ہر روز کوئی نئی آفر. یہ کردیا وہ کردیا وغیرہ وغیرہ.
ان کمپنیوں کی فراہم کردہ خدمات میں سے ایک ایس ایم ایس یعنی شارٹ میسنجنگ سروس ہے. ایس ایم ایس کے بارے میں کئی سال پہلے گلوبل سائنس میں پڑھا تھا کہ اس کا مقصد یہ ہے کہ آپ ہر وقت آنلائن رہ کر پیغامات وصول کرسکیں. خیر اس کا مقصد جو بھی آج کل یہ پاکستان میں انّھے وا استعمال ہورہے ہیں. لطائف سے لے کر مرے ہوئے شعرا بشمول فراز کی خوب مٹی پلید کی جاتی ہے.
ایک ایس ایم ایس، اگر آپ کے پاس کوئی پیکج نہیں، تو قریبًا سوا روپے میں پڑتا ہے۔ لیکن اگر آپ کے پاس پیکج ہے جیسا کہ قریبًا ہر کمپنی دے رہی ہے تو آپ کو یہی ایس ایم ایس دس، بیس، تیس پیسے اور ایک پیسے سے بھی کم میں پڑتا ہے۔ لیکن اس سارے میں جو کھیل کھیلا گیا ہے وہ بہت سادہ سا ہے۔ آپ پیکج کروائیں کمپنی کو مخصوص رقم ادا کریں۔ اور اس کے بعد مخصوص مدت کے لیے ایس ایم ایس کی مخصوص تعداد آپ کی ہوئی۔ اس سب کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یہ ایس ایم ایس کام کے لیے نہیں تفریح بلکہ وقت ضائع کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔
مجھے ذاتی طور پر ماہانہ سو کے قریب ایس ایم ایس کی ضرورت ہوتی ہے۔ میں نے پہلے پہل ایس ایم ایس کرنے سے پرہیز کی کوشش کی لیکن دوست احباب کے طعنے، ہم جماعتوں کے جائز استفسارات کے جواب (چونکہ میں کلاس کا سی آر ہوں) اور کئی ایسے چھوٹے موٹے کاموں کے لیے مجھے اس طرف آنا ہی پڑا۔ اب حال یہ ہے کہ ہر ماہ میرا سو کے قریب روپیہ ان پر لگتا ہے۔ اور پھر مجھے یہ احساس بھی ہوتا ہے کہ ایس ایم ایس اتنے رہ گئے ہیں انھیں ختم بھی کرنا ہے۔ چناچہ میں نے جہاں ایک کرنا ہو وہاں تین چار بھی کردیتا ہوں۔ اب ان کو ختم بھی تو کرنا ہے کا سوچ کر۔
میرا سوال اتنا ہے کہ اگر ایس ایم ایس اتنا سستا ہوسکتا ہے جیسا کہ ان پیکجز کے ذریعے ہے تو اس کو مناسب ریٹ پر لاکر نارمل پیکج میں شامل کیوں نہیں کردیا جاتا؟ جس طرح ایس ایم ایس مفت بانٹے جارہے ہیں ،چار روپے کٹوائیں 24 گھنٹے میں 500 ایس ایم ایس آپ کے، اگر اس کو دس سے ضرب دی جائے تو جواب آٹھ پیسے آتا ہے۔ چلیں دس پیسے کرلیں اور ٹیکس ڈال کر پندرہ پیسے کرلیں۔ اگر پندرہ پیسے کا ایس ایم ایس بھی کردیا جائے تو کیا ہے۔
پچھلے دنوں ایک دوست سے چائنہ میں بات ہورہی تھی اس کے مطابق ایک ایس ایم ایس پاکستانی پانچ سے چھ روپے کا پڑتا ہے، کال سننے کے چارجز دینے پڑتے ہیں، روزانہ کے پیسے کاٹے جاتے ہیں جیسے پاکستان میں وائرلس لوکل لوپ والے روز کے پیسے کاٹتے ہیں بطور لائن رینٹ اور جب آپ کا بیلنس ختم تو نمبر بند۔ جب تک دوبارہ لوڈ نہ کریں تو نہ کال وصول سکیں گے نہ اس دوران آیا میسج آپ تک پہنچ سکے گا، کمپنی کے سرور پر بھی محفوظ نہیں رہے گا۔ پاکستان میں اس سے حالات ہزار درجے بہتر ہیں اور اس کی وجہ کمپنیوں کا آپسی مقابلہ ہے۔ لیکن پھر بھی ان کمپنیوں ہمارا بیڑہ غرق کردیا ہے۔ سیل فون کام کی چیز نہیں فن اور مسخریاں کرنے کی چیز بن گیا ہے۔ کام کے لیے میسج کرنا ہے تو سوا روپیہ اور بے مقصد کرنے ہیں تو جتنے چاہیں۔ بس پیسے کٹواتے جائیں اور جو مرضی حاصل کرلیں مفت ایس ایم ایس سے لے کر انٹرنیٹ کے گھنٹوں کی سستے ترین گھنٹے۔ لیکن اس طرح کہ آپ انھیں استعمال صرف اور صرف وقت ضائع کرنے کے لیے کرسکتے ہیں۔ عجیب سائنس ہے یہ بھی اور اس سائنس نے ہم نوجوانوں کی کیمیا کا بیڑہ غرق کردیا ہے۔ لڑکے لڑکیوں کی بے مقصد رات ساری ساری رات گپ بازی اور موبائل چیٹ نے کہیں کا نہیں چھوڑا۔ :roll:

7 تبصرے:

  1. یار اگر کئی بیوقوف اپنے پیسے ضائع کر رہا ہے تو کرنے دو۔ ٹیکنالوجی کے استعمال کی تمیز سکھانا کمرشل کمپنیوں کا نہیں والدین، دوستوں، اساتذہ، معاشرے کا کام ہے۔ :smile:

    جواب دیںحذف کریں
  2. آپ نے ہو بہو میری کہانی بیان کر دی ہے۔ مجھے ایس ایم ایس کرنے سے شدید الجھن ہوتی ہے۔ صرف ضروری کام کے لئے ایس ایم ایس کرتا ہوں مگر اب کزنز اور دوستوں نے کنجوس کنجوس کہہ کر دق کرنا شروع کر دیا تو مجبورا ہمیں بھی اس میدان میں کودنا پڑا اب خود مجھے مہینے میں 100 روپے اس ’’فضول‘‘ کام کے لئے نکالنے پڑتے ہیں۔ پھر بھی پانچ ایس ایم ایس کے جواب میں ایک ایس ایم ایس کر پاتا ہوں۔ مجھ سے ایس ایم ایس تیزرفتاری سے ٹائپ ہی نہیں ہوپاتا۔ :oops:

    جواب دیںحذف کریں
  3. خیر رفتار تو مناسب سی ہے لیکن میرے اندز کا کنجوس اس ایک ہی دفعہ کی کٹوتی پر بہت جھنجھلاتا ہے۔ اور مزے کی بات یہ کہ سو نہیں ایک سو دس لگتے ہیں۔ یوفون کا سو والا کارڈ ٹیکس کٹوا کر پچاسی روپے میں‌ پڑتا ہے۔ دس روپے مزید لوڈ کرواؤ تو تب نوے روپے کا بیلنس ہوتا ہے جس سے پیکج حاصل کرو۔ وہاں بھی پچھتر روپے پیکج اور پندرہ روپے ٹیکس ہے۔ جانے یہ لوگ کتنا اور کہاں کہاں‌ ٹیکس کاٹتے ہیں :?:

    جواب دیںحذف کریں
  4. اب لوگوں کو کون سمجھائے ۔ سب جانتے بوچھتے ہوئے بھی لوگ پیسے ضائع کر رہیں ہیں‌ تو کرنے دیں۔

    جواب دیںحذف کریں
  5. لگتا ہے، آپ نے تو ہماری کہانی بیان کردی ہے۔ :razz: سی۔آر ہونے کے ناطے جماعت کے کافی طلبا کے پاس نمبر ہے تو اب وہ جب چاہیں، گپ شپ شروع کردیں اور مجھ میں انکار کا حوصلہ نہ ہو۔ :sad: اسی لیے ٹیلی نار چھوڑ کر یو فون پر آیا ہوں۔ دن میں تین روپے کٹتے ہیں لیکن پھر سکون ہوتا ہے کہ جتنے ایس ایم ایس کرلو، مزید خرچا نہیں ہوگا۔ لیکن اس کے باوجود مجھے فضول پیغامات بھیج کر دل کو تسکین پہنچانے کا شوق نہیں اٹھتا۔ :mrgreen: فارورڈ مسیجز تو میرے پاس آکر عموما ڈیلیٹ ہوجاتے ہیں کہ چِڑ ہوتی ہے مجھے۔۔۔
    ویسے ٹیلی نار Djuice میں بنا کسی پیکجز کے بھی ایس ایم ایس تئیس پیسے ہی کا پڑتا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  6. جی لیکن اس کی کال بہت مہنگی ہے۔ خیر اب چیٹ تو میں کرتا نہیں سوائے بہت ہی قریبی دوستوں کے۔ ان کو بھی جتا دیتا ہوں کہ وقت ضائع ہورہا ہے۔ یوفون کا روزانہ کا خرچہ 4 روپے ہوتا ہے میرے خیال سے؟ اور اس میں ٹیکس وغیرہ جو کارڈ ڈلواتے وقت کٹتے ہیں ڈال کر کوئی ڈیڑھ سو روپے کی اوسط بنتی ہوگی میرے حساب سے۔

    جواب دیںحذف کریں
  7. پیسے بچا کر کہاں لے جانے ہیں؟ ویسے بھی ہو کون سا ملک کا نقصان کرتے ہیں۔ جو کرتے ہیں، وہ میسج نہیں کرتے، صرف نقصان کرتے ہیں۔صاحب ہم باتین کرتے ہیں، بُری باتیں، لیکن جو بُرے کام کرتے ہیں، انہیں روکیے ناں

    جواب دیںحذف کریں

براہ کرم تبصرہ اردو میں لکھیں۔
ناشائستہ، ذاتیات کو نشانہ بنانیوالے اور اخلاق سے گرے ہوئے تبصرے حذف کر دئیے جائیں گے۔