بدھ، 7 اکتوبر، 2009

جونئیررز

ہماری یونیورسٹی کے نئے سمسٹر کی کلاسز شروع ہوگئی ہیں۔ اس بار نئے داخلے بھی ہوئے ہیں تو ہم سینئیر ہوگئے ہیں اور ایک عدد کلاس ہمارے نیچے بھی آگئی ہے بنام جونئیرز۔ بات کرنے سے پہلے میں تھوڑا سا تعارف کرواتا چلوں۔ ہمارے ہاں دو قسم کی کلاسز ہوتی ہیں۔ ایک بی ایس آنرزلنگوئسٹکس کی چار سالہ کلاس۔ اور ایک عدد ایم ایس سی اپلائیڈ لنگوئسٹکس کی دو سالہ کلاس۔ اول الذکر میں طلبا بارہ پڑھ کر آتے ہیں اور موخر الذکر میں بی اے کرکے یعنی چودہ پڑھ کے۔ اب ان دو کورسز کے لوگوں کے مابین فرق بھی قدرتی ہے۔ بی ایس والے زیادہ فعال ہوتے ہیں، زیادہ بے تکلف اور بے فکرے۔ چونکہ انھوں نے چار سال رہنا ہوتا ہے تو اساتذہ کے ساتھ بھی ان کی اچھی سلام دعا ہوتی ہے۔ یہ لوگ یونیورسٹی لائف سے زیادہ مانوس ہوتے ہیں۔ جی سی یو ایف میں مخلوط طرز تعلیم ہے چناچہ یہ لوگ اس ماحول سے بھی اچھی طرح مانوس ہوتے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف ایم ایس سی کے طلباء ہیں جو چودہ سال کسی بوائز یا گرلز کالج میں پڑھ کر آتے ہیں۔ ان میں پرائیویٹ بی اے کرنے والے لوگ بھی شامل ہوتے ہیں۔ چناچہ ان کا یہ سماجی و تعلیمی پس منظر ان میں تھوڑی سی جھجک پیدا کردیتا ہے۔ انھوں نے صرف دو سال رہنا ہوتا ہے چناچہ یہ آنرز کے طلبا کے زیر سایہ رہ کر گزار دیتے ہیں۔ یہ لوگ مخلوط طرز تعلیم سے آشنا نہیں ہوتے چناچہ شروع میں لڑکیوں اور لڑکوں میں جھجک پائی جاتی ہے اور بطور کلاس یہ آپس میں کبھی بھی ویسے نہیں ہوسکتے جیسے آنرز کے طلباء چار سال کے عرصے میں ہوجاتے ہیں۔
یہ تو دو انتہائیں تھیں جن کا ذکر اس پوسٹ کے لیے ضروری تھا۔ (چلتے چلتے یہ بات بھی ہوجائے کہ چار سالہ آنرز اور دو سالہ ایم ایس سی کی اسناد برابر تصور کی جاتی ہیں اور انھیں کسی بھی ادارے میں مساوی درجہ دیا جاتا ہے۔ اگرچہ بہت سے احباب کے علم میں یہ بات ہوگی پہلے سے۔ چلیں اب موضوع کی طرف آتے ہیں۔)
موضوع ہے جونئیرز کو خوش آمدید کہنا اور ان کی فُولنگ کرنا۔ ہماری کلاسیں اسی ہفتے شروع ہوئی ہیں اگرچہ ابھی تک یہ بہت زیادہ باقاعدہ نہیں لیکن شروع ہوگئی ہیں۔ میں اپنی کلاس کا سی آر بھی ہوں تو ہم یہ پلان کررہے تھے کہ اپنے جونئیرز کو ویلکم کریں۔ لیکن ہمارے یہ سارے پلانز دھواں بن کر اس وقت اڑ گئے جب آج ہم وہاں پہنچے۔ قصہ سادہ سا ہے کہ ہمارے آنرز کے دوستوں نے ہمارے سوچتے سوچتے اس پر عمل کرڈالا۔ آنرز کی کلاسز صبح ساڑھے آٹھ سے ساڑھے بارہ ہوتی ہیں۔ انھوں نے پہلے آنرز فرسٹ سمسٹر کے طلباء کو ویلکم کہا اور پھر ان سے ان کا تعارف لیا۔ اب یہ تعارف کیسا تھا بس سمجھ لیں خاصا ان کمفرٹ ایبل قسم کا تعارف تھا۔ ایک ایک طالب علم کو سامنے بلایا جاتا، اس کا تعارف پوچھا جاتا اور پھر اس سے کچھ الٹے سیدھے سوالات کیے جاتے اس دوران ضمنی طور پر جگتیں اور فقرے بازی بھی چلتی رہتی۔ سنا ہے کہ کچھ طلباء واک آؤٹ بھی کرگئے۔ بے چارے :) ان کے ساتھ بہت اچھی نہیں ہوئی۔
صاحب اب ہماری انٹری ہوتی ہے تو آنرز والوں سے نمٹا جاچکا ہے اور ہمارے جاتے ہیں آنرز کے سینئیرز ہمیں لے کر ایم ایس سی کی کلاس میں جاگھسے۔ اس کے بعد آنرز کے جونئیرز والا سین یہاں بھی دوہرایا گیا۔ ہماری قریبًا آدھی کلاس مع مابدولت وہاں موجود تھی۔ اس سارے میں ہم نے بھی حصہ لیا لیکن سو میں سے بیس یا تیس فیصد کہہ لیں۔ چونکہ ہمیں رحم آجاتا تھا لیکن آنرز والے احباب نے کسی کو بھی نہیں بخشا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارے ماسٹرز کے جونئیرز آخرمیں اچھے خاصے غصے ہوچکے تھے۔ چونکہ لسانیات کو آرٹس کے تحت سمجھا جاتا ہے اس لیے یہاں لڑکیاں عمومًا زیادہ ہوتی ہیں۔ اس کلاس میں بھی لڑکیاں زیادہ تھیں چناچہ انھوں نے اس بات کا خاصا برا منایا کہ ان پر فقرے بازی ہورہی ہے یا انھیں زبردستی شعر سنانے وغیرہ وغیرہ پر مجبور کیا جارہا ہے۔
اب بات کرتے ہیں میرے نکتہ نظر کی۔ اوپر جو سماجی پس منظر بیان کیا گیا ہے اس کی وجہ سے (میری نظر) میں ہمارے آنرز کے احباب کو یہ بات بالکل بھی محسوس نہیں ہوئی کہ وہ بعض جگہ زیادتی کررہے ہیں۔ جبکہ یہ بات میں نے بہت زیادہ محسوس کی۔ اس کی وجہ کیا تھی؟ اس کی وجہ وہی سماجی پس منظر تھا چونکہ یہ احباب پچھلے تین یا دو سال سے ہیں اس لیے وہ اس بے تکلفی کو روٹین کا حصہ سمجھ رہے ہیں۔ جبکہ ایک بی اے کرکے آنے والا لڑکا یا لڑکی جس نے اپنی ساری عمر مخلوط طرز تعلیم میں تعلیم حاصل نہیں کی اس بات کو بہت زیادہ محسوس کرتا ہے کہ اس کی بے عزتی کی جارہی ہے اور صنف مخالف کے سامنے بے عزتی کی جارہی ہے۔ چناچہ ان میں عزت نفس مجروح ہونے کا احساس بہت شدید ہوتا ہے جسے ہمارے آنرز کے احباب محسوس نہیں کرسکے۔ ہم ایم ایس سی سینئیر نے یہ بات محسوس بھی کی تو ہم ان کو روک نہیں سکے۔ وجہ وہی ہے کہ ہم اپنے آپ کو ذرا دبا دبا سا محسوس کرتے ہیں یا ہمارے آنرز والے دوست مسلط ہونے کی زیادہ خوبیاں رکھتے ہیں۔ بہرحال صاحب بات یہاں پہنچی کہ اس سارے ڈرامے کے بعد جب ہم نے بعد میں اپنی کلاس میں یہ بیٹھ کر ڈسکس کیا تو میرا پہلا تبصرہ یہ تھا کہ یہ بہت زیادہ ہوگیا۔ بہت سارے لوگوں کا خیال تھا کہ واقعی آنرز والے احباب زیادہ ہی کرگئے۔ لیکن کچھ کے خیال میں ایسا ہونا چاہیے تھا یہ یونیورسٹی لائف کا حصہ ہے۔
اس سارے واقعے کی وجہ سے آج میں اچھا خاصا ٹینشن میں رہا اور مجھے اپنے ان مذاق اڑاتے فقروں پر بھی شرم آئی۔ اگرچہ وہ کچھ اس قسم کے تھے کہ دونی کا پہاڑہ سناؤ، نصیبو لعل کے کسی گانے کو انگریزی میں ٹرانسلیٹ کرو ( یہ لڑکے کو کہا گیا تھا) وغیرہم۔ تو جناب ہم نے جذباتی ہوکر یہ سوچا کہ کل جاکر اپنے ایم ایس سی فرسٹ سمسٹرز کے دوستوں سے معذرت بھی کریں اور انھیں اپنی کلاس کا تعارف بھی کروائیں اور ساتھ ویلکم بھی کردیں۔ اس سارے میں سے معذرت والی بات میرے ہم جماعتوں کو پسند نہیں آئی جبکہ باقی سب وہ کرنے کو تیار تھے۔ چناچہ ہم نے بھی اس کو فہرست سے نکال دیا۔ اب ہم کل جاکر انھیں اپنی طرف سے ویلکم کہیں گے اور اپنا تعارف دیں گے چونکہ ان کا تو آج لے ہی چکے :D
اس ساری رام کہانی کے بیان کرنے کا مقصد یہ تھا کہ آپ سے رائے لی جائے۔ اوپر بیان کردہ واقعات آپ کے خیال میں ٹھیک تھے؟ اور کیا ہمیں یعنی ایم ایس سی تھرڈ سمسٹر کو معذرت کرنی چاہیے؟ یا یہ انٹروڈکشن لینا اور فُولنگ کرنا یونیورسٹی لائف کا حصہ ہے اور یہ ہر سینئیر کا پیدائشی حق ہوتا ہے؟ یہاں یہ بات بتاتا چلوں کہ ہم نے فولنگ کے اس سے بھی بدترین واقعات سن رکھے ہیں۔ اگرچہ ہمارے والے قصے میں فولنگ کی شدت بہت کم تھی لیکن ہمیں یہ ڈر ہے کہ ہمارے ایم ایس سی فرسٹ کے محترم دوست اس بات کو اپنی عزت نفس مجروح کرنا نہ سمجھ لیں۔ آپ کی کیا رائے ہے؟ ایسا ہونا چاہیے؟ یہ غلط ہے یا ٹھیک ہے؟ ہمارے واقعے میں یہ ٹھیک ہوا؟ یا غلط ہوا؟ یا اس پر معذرت کی جائے؟ یا ایسے ہی رہنے دیا جائے چونکہ ایسی چیزیں سینئیرز اور جونئیرز میں بے تکلفی بڑھاتی ہیں؟ اور ان میں اعتماد پیدا کرتی ہیں؟
آپ کی آراء کا انتظار رہے گا۔
وسلام

7 تبصرے:

  1. سینر ہونے پر مبارکباد اب چھوٹوں پر رعب نہیں جمانا

    جواب دیںحذف کریں
  2. یونیورسٹی لائف کے تعارف کا شکریہ
    فولنگ کا پتہ نہیں کنسپٹ کہاں سے آیا ہے
    لیکن ایک بات تو طے ہے کہ ہم لوگوں
    نے اسے بہت واہیات بنا دیا ہے
    میرے ایک جاننے والے کا بیٹا تو ان آنے
    والے لمحات سے اتنا خوفزدہ تھا کہ وہ کالج جا
    ہی نہیں رہا تھا،

    جواب دیںحذف کریں
  3. نہیں جی میرا ذاتی خیال ہے کہ یہ ہائی اسکول کے چونچلے ہیں اور وہیں ختم ہوجائیں تو اچھا ہے۔ اگر یونیورسٹی میں اچھی طرح‌خیر مقدم کردیا جائے اور بہتر رہنمائی فراہم کردی جائے تو زیادہ مناسب ہے۔ لیکن بہر حال جامعہ تو ہوتی ہی سیکھنے کے لیے اور داغ نہیں‌ لگا تو کیا سیکھا۔

    جواب دیںحذف کریں
  4. دیکہیں یہ پہلے دن فولنگ کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے اور آپ کو اسے سنجیدہ نہیں لینا چاہیے۔ جونیئر جلد ہی سمجھ جائیں گے کہ وہ فولنگ تھی۔ آپ کو نہ ہی معذرت کرنی چاہیے اور نہ ہی کچھ مزید کہنا چاہیے۔ ہاں ویلکم کہنے کی بات اچھی ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  5. السلام علیکم۔
    اگر صرف مزے لینے کے لیے کسی کو تکلیف پہنچانے والا کام کیا جائے تو یہ سراسر غلط ہے۔
    معذرت ضرور کرنی چاہیے۔ لیکن اچھے انداز میں۔ صرف جان چھڑانے والی نہیں۔ ان کو تسلی ہونی چاہیے کہ یہ واقعی معذرت ہی تھی۔ اگر اتنا حوصلہ نہ ہو تو کم از کم ان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے چاہئیں اور ضرورت کے وقت تعاون کرنا چاہیے۔ یہ بھی ایک طرح کی معذرت ہی ہوگی۔

    جواب دیںحذف کریں
  6. جو لوگ کہتے ہیں کہ اس سے سینیرز اور جونیرز کے درمیان بے تکلفی بڑھتی ہے، انہیں غالباً بے تکلفی بڑھانے کا کوئی بندوں دے پتروں والا طریقہ نہیں آتا۔

    جواب دیںحذف کریں
  7. جی بس یہ ہمارے ہاں غلط روایات پروان چڑھ رہی ہیں۔ ہم نے اپنی کلاس کی طرف سے اگلے دن جاکر خوش آمدید کہا، وہلکم چارٹس لگائے (جو کہ ہماری کلاس کا خاصا ہے ہمیں یار لوگ پیار سے ایم ایس سی چارٹس بھی کہتے ہیں) اور انھیں بتایا کہ بیٹا یہ ہمارا طریقہ ہے ویلکم کا کل والا بی ایس والوں کا تھا۔ امید ہے ہمارے تعلقات اچھے ہی رہیں گے۔

    جواب دیںحذف کریں

براہ کرم تبصرہ اردو میں لکھیں۔
ناشائستہ، ذاتیات کو نشانہ بنانیوالے اور اخلاق سے گرے ہوئے تبصرے حذف کر دئیے جائیں گے۔