پیر، 30 نومبر، 2009

زبان کا تغیر

تغیر یعنی بدلنا۔ صاحبو بدلنا زبان کا مقدر ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ آج سے صرف دو سو سال پہلے تک بولی جانے والی زبانوں کا آج وجود بھی نہیں۔ اور وہ زبانیں جو تب بھی بولی جاتی تھیں اور آج بھی زندہ ہیں، وہ زبانیں بھی وہی نہیں جو تب تھیں۔ میں آپ کو بائبل کی مثال دیتا ہوں۔ سولہویں صدی میں جب اس کا لاطینی سے انگریزی ترجمہ ہوا تو اسے اس وقت کی روزمرہ کی زبان میں ترجمہ کیا گیا تھا۔ ایسی زبان جو عامیوں کی تھی، میرے آپ جیسوں کی، جو گلی محلوں کی زبان تھی۔ آج چار صدیاں گزر جانے کے بعد زبان کا نام کیا ہے؟ انگریزی۔ لیکن اس کی ہئیت بدل چکی ہے۔ اس وقت کی عامی انگریزی اور آج کی عامی انگریزی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اہل زبان تو دور کی بات ہے آپ میں جو انگریزی کو بطور دوسری زبان یا تیسری زبان یا غیرملکی زبان کے جانتے ہیں، وہ بھی بائبل کی زبان کو پہچان لیں گے اور کہیں گے کہ یہ پرانی انگریزی ہے۔ جناب من یہی حال اردو کے ساتھ بھی ہوا۔ غالب کے زمانے کی اردو اور آج کی اردو، صرف ڈھیڑھ سو سال کا فاصلہ ہے لیکن ہر دو میں اچھا خاصا فرق موجود ہے۔ اجی دور کیوں جائیے یہی جسے آپ آج ثقیل اردو کہہ دیتے ہیں اس وقت کی روزمرہ تھی۔ لیکن وہ الفاظ کیا ہوئے؟ یا تو لغات میں حنوط شدہ ہیں یا سرے سے ہی ختم ہوگئے ہیں۔ آج اس اُردو کو بولنے والے گنتی کے چند بھی نہیں ہونگے۔
زبان کیوں بدلتی ہے؟ اس سوال کا جواب دینا شاید خاصا مشکل ہو۔ تاہم کچھ اندازے لگائے جاسکتے ہیں کہ جوں جوں جغرافیائی فاصلہ بڑھتا ہے زبان بدل جاتی ہے۔ یا جوں جوں کلچر اور ثقافت، ماحول بدلتا ہے تو اہل زبان کی ضروریات بھی مختلف ہوتی جاتی ہیں چناچہ زبان بھی ویسے ویسے بدلی جاتی ہے۔ یہی کلیہ وقت کے ساتھ بھی عمل کرتا ہے۔ جوں جوں وقت گزرتا ہے زبان میں نئی چیزیں آتی جاتی ہیں اور پرانی قصہ پارنیہ بنتی جاتی ہیں۔ جوں جوں ترقی ہوتی ہے نئے تصورات کو الفاظ کا جامہ پہنانے کے لیے زبان میں نئی اصطلاحات متعارف کرائی جاتی ہیں اور زبان بدلتی جاتی ہے۔ زبان بدلنے کی ایک اور وجہ بیرونی حملہ آوروں کا آنا بھی ہے۔ جیسے عربوں کی زبان یعنی عربی آج سے چند سو سال پہلے عربوں کے زیر قبضہ علاقوں میں گہرا اثر ڈالا اور آج بھی مسلمانوں کی اکثر زبانیں عربی سے مستعار شدہ رسم الخط استعمال کرتی ہیں اور ان کے ذخیرہ الفاظ میں عربی نژاد الفاظ کی ایک مناسب تعداد موجود ہے۔ جیسے دوریاں بڑھنے سے زبان بدلتی ہے ایسے ہی دو یا زیادہ زبانوں کا ملاپ ہو تو بھی زبان بدلتی ہے۔ ملنے والی زبانیں ایک دوسرے پر اثر ڈالتی ہیں، ایک دوسرے سے الفاظ لیتی ہیں اور ایک دوسرے کی گرامر کو حلقہ دام میں لے کر اس میں تبدیلیاں کردیتی ہیں۔ اردو کی تشکیل ایسی ہی ایک تبدیلی کی مثال ہے جب فارسی، عربی، ترکی اس وقت کی ہندی یا ہندوی اور دوسری علاقائی زبانیں آپس میں قریب آئیں۔
زبان کا بدلاؤ کہاں سے شروع ہوتا ہے؟ یہ بڑا تکنیکی سا سوال ہے لیکن جہاں تک میرا علم کہتا ہے زبان کا تغیر سب سے پہلے ذخیرہ الفاظ میں نظر آتا ہے۔ اس کے بعد گرامر، اس کی صوتیات اور دوسرے شعبے تغیر پذیر ہوتے ہیں۔ 
زبان کا تغیر اور آج
اس پوسٹ کو لکھنے کے دو مقاصد تھے۔ ایک تو میں کچھ مشاہدات آپ سے شئیر کرنا چاہتا تھا جو میں نے ہماری مقامی زبانوں کے سلسلے میں کیے ہیں۔ دوسرے میں اردو وکی پیڈیا پر لکھی جانے والی اردو کے بارے میں اپنے علم کے مطابق کچھ تحفظات کا اظہار کرنا چاہتا تھا۔
صاحبو تغیر زبان کا مقدر ہے۔ آج ہمارے سامنے جتنی زبانیں موجود ہیں یہ تغیر کے سلسلے میں ہی وجود میں آئی ہیں۔ یورپ کو دیکھیں تو کلاسیکی یونانی اور لاطینی کی جگہ وہاں اب بیسیوں زبانیں بولی جاتی ہیں۔ جو کہ کسی نہ کسی طرح ان دو زبانوں سے تعلق تو رکھتی ہیں لیکن ان دادا زبانوں اور موجودہ یورپی زبانوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ انگریزی بھی کئی ساری زبانوں سے مل کر وجود میں آئی ہے۔ فرانسیسی، یونانی، لاطینی اور انگلستان کی کچھ مقامی زبانیں اس کی امائیں خیال کی جاتی ہیں۔
تغیر ہوتا رہا ہے، ہوتا ہے اور ہوگا بھی۔ لیکن جو تغیر آج ہورہا ہے یہ ماضی کے تغیر سے مختلف ہے۔ ماضی کا تغیر ایسے ہے جیسے بڑے بوڑھوں کی جگہ ان کی اولاد لے لیتی ہے۔ ماضی کے تغیر میں نچلے درجے کی ورائیٹیز اس وقت کی اعلی درجے کی ورائیٹیز کی جگہ لیتی رہی ہیں۔ (یہاں ورائٹی سے مراد ہر وہ زبان کی قسم ہے جو رنگ، نسل، وقت، شعبے کسی بھی لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہوسکتی ہے۔ پٹواریوں کی زبان ایک ورائٹی ہوگی چونکہ ایک شعبے سے متعلق ہے، سترہویں صدی کی انگریزی ایک ورائٹی ہوگی چونکہ وہ آج کے وقت سے مختلف ہوگی، پاکستانیوں کی انگریزی آسٹریلین کی انگریزی سے مختلف ہوگی چونکہ ان کی نسل اور جغرافیہ مختلف ہے، ۔۔۔ایسے ہی کئی ورائیٹیز بنیں گی)۔ اس کی مثال اطالوی سے دی جاسکتی ہے جس نے اطالیہ میں لاطینی کی جگہ لی۔ اطالوی لاطینی سےہی وجود میں آئی لیکن یہ اس سے بہت مختلف ہے اور یہ اپنے ابتدائی دور میں بہت نچلے درجے کی زبان خیال کی جاتی تھی۔ یعنی اسے بولنا پسند نہیں کیا جاتا تھا۔
آج کا تغیر مختلف ہے۔ آج کا تغیر سماجی برتری کی بنیاد پر وقوع پذیر ہورہا ہے۔ اس تغیر میں کوئی ورائٹی نیچے سے اوپر کی طرف نہیں آرہی بلکہ لوگ وہ ورائٹی اپنا رہے ہیں جو طاقتور طبقے کی زبان ہے یعنی انگریزی۔دنیا کی کسی بھی زبان کو تاریخ میں ایسے پروموٹ نہیں کیا گیا جیسے آج انگریزی کو کیا جاتا ہے۔ میڈیا ایک ایسا ہتھیار ہے جس نے آج زبانوں کے تغیر کی آگ اتنی تیزی سے بھڑکا دی ہے کہ ماضی میں کبھی بھی ایسا نہ ہوا تھا۔ گلوبلائزیشن کا تصور اور دنیا کو ایک دیہہ سمجھنے کے آئیڈیے نے انگریزی سیکھنے اور سکھانے کی ضرورت اور بڑھائی ہے۔ بزنس، تعلیم اور آپسی رابطوں کے لیے ایک زبان کی ضرورت شدت سے محسوس کی جاتی رہی ہے اور انگریزی اس کام کے لیے بہترین ہے۔ یہ طاقتور کی زبان بھی ہے اور اسے پروموٹ بھی کیا جاتا ہے، اسے سیکھا سکھایا بھی جاتا ہے چناچہ اسے تیزی سےاپنایا جارہا ہے۔
اس سب کا اثر کیا ہورہا ہے۔
اس سب کا پہلا اثر تو یہ ہورہا ہے کہ تعلیم انگریزی میں دی جاتی ہے۔ ایجادات انگریزی میں ہوتی ہیں۔ چناچہ دوسری زبانوں کو انگریزی سے الفاظ اور اصطلاحات مستعار لینی پڑتی ہیں۔ یہی وہ نکتہ ہے جس کو اردو وکی پیڈیا کی انتظامیہ ماننے کو تیار نہیں۔ لفظ صرف ایک لفظ نہیں ہوتا۔ اس کے ساتھ معانی کا پورا جہان ہوتا ہے۔ وہ لفظ کس موقع پر اور کیسے استعمال کرنا ہے، بطور اہل زبان، یہ ہمارے علم میں ہوتا ہے۔ صارف جب کی بورڈ پڑھتا ہے تو اس کے ذہن میں فورًا کمپیوٹر کے کی بورڈ کا تصور آتا ہے۔ لیکن کلیدی تختہ؟ کلید یعنی چابی اور تختہ (تخت یا تختہ والا تختہ؟) اس اصطلاح میں ایک نئے تصور کو جو نام دیا گیا ہے ، اور جو ایک مرکب نام ہے، صارف کے لیے پہلی باری میں بلکہ کئی باری میں اس کو یہ معانی دینا بہت مشکل کام ہے۔ ہم تختے کو کمپیوٹر سے جوڑتے ہی نہیں، تختہ ہمارے لیے یا تو تخت یا تختہ والا تختہ ہے یا پھر مردے کو غسل دینے والا تختہ یا ایسی ہی کوئی چیز جو نفیس نہیں ہے، اور ٹیکنالوجی کے طو رپر ایڈوانس بھی نہیں ہے۔ اور کلید؟ یعنی چابی کسی دقیانوسی تالے کی چابی لگتی ہے، ماڈرن تالا تو کِی سے کھلتا ہے نا۔ آپ کو شاید ہنسی آجائے لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہر ہر لفظ کے ساتھ اس کے لغاتی معنی کے ساتھ ساتھ کچھ ایسے تصورات وابستہ ہوتے ہیں، ان صورتوں کے حوالے جڑے ہوتے ہیں اور ان مقامات کے حوالے جڑے ہوتے ہیں جہاں جہاں یہ لفظ استعمال ہوسکتا ہے، آسان الفاظ میں وہ سیاق و سباق کہ کہاں کہاں اور کیسے یہ لفظ استعمال ہوتا ہے اور ہوسکتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہمیں عادت نہیں ہوتی کہ ہم ایسے الفاظ کو ایک جگہ سے اُٹھا کر کسی دوسری جگہ فٹ کریں اور استعمال کریں۔ چناچہ کیا ہوتا ہے؟ صارف ایسی کسی بھی تبدیلی کو مسترد کردیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج اردو وکی پیڈیا پر موجود مضامین ہمیں اتنے مشکل، ثقیل اور ناقابل فہم لگتے ہیں کہ ہم انگریزی وکی پیڈیا سے معلومات کو اس سے زیادہ آسانی سے سمجھ لیتے ہیں۔  اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ ہم پھر اپنی زبان میں علم کی ترویج ہی چھوڑ دیں؟ ہمارے خیال سے ہمیں زبان کے بارے میں پالیسی بنانی ہوگی اور اس کے لیے ہمارے پاس ایک ایسا ادارہ ہونا چاہیے جس کا کام وہ ہو جو مقتدرہ قومی زبان کا ہے اور جو وہ سب کچھ نہ کرے جو مقتدرہ اب کررہا ہے یعنی بندے کے پتروں کی طرح دیانت داری سے اردو کی ترویج کرے، اصطلاح سازی کرے اور اردو میں علم کی ترویج کو یقینی بنائے۔ اردو وکی پیڈیا کے پاس ایسا کوئی اختیار نہیں ہے کہ وہ اردو زبان کی پالیسی سازی کرے اور نہ ہی اردو وکی پیڈیا ایسی کسی بھی پالیسی سازی کو رائج کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ وجہ سادہ سی ہے اردو وکی پیڈیا کے اختیار کو کوئی نہیں مانے گا نا۔ وکی پیڈیا کا مقصد علم کی ترویج ہے اور اردو وکی پیڈیا کو چاہیے کہ وہ یہ کام کرے، اردو میں کرے اور ایسی اردو میں کرے جسے اردو والے سمجھتے ہیں۔ فارسی اور عربی کے دقیق الفاظ کو اردو میں رائج کرنے کا خیال دل سے نکال دے کیونکہ یہ 1857 نہیں ہے اور نہ ہی یہاں اردو کے ساتھ فارسی دان بیٹھے ہیں جو پڑھتے تو فارسی تھے اردو شغل میں خود ہی آجاتی تھی کہ روزمرہ کی نچلے درجے کی زبان تھی جبکہ فارسی شرفاء کی زبان تھی ( اس وقت)۔ 
دوسرا اثر یہ ہورہا ہے کہ علاقائی زبانیں گھٹ رہی ہیں۔ ان کے بولنے والے کم ہورہے ہیں۔ کثیر لسانی یعنی ایک سے زیادہ زبانیں جاننا دنیا میں ایک عام سی بات ہے۔ لیکن ہم بطور صارف اپنی آسانی کو بھی مدنظر رکھتے ہیں۔ چناچہ اگر کام انگریزی سے چل رہا ہے، اور یہ اعلٰی طبقے کی زبان بھی ہے تو نچلے درجے کی زبانیں کیوں سیکھی جائیں؟ یہاں نچلے درجے کی زبان سے مراد اس کا سماجی رتبہ ہے، لسانیات کے حساب سے تمام زبانیں برابر ہیں کوئی بھی اچھی یا بری نہیں۔ ہر زبان کا مقصد ہوتا ہے اور وہ بہ احسن وہ مقصد پورا کرتی ہے چناچہ کسی تیسرے کو یہ اختیار نہیں کہ زبان کو برا یا اچھا کہے۔ آج دنیا میں یہ رواج بہت تیزی سے وقوع پذیر ہے کہ انگریزی بچوں کو بطور پہلی زبان سکھائی جائے۔ پڑوسی ملک بھارت میں ہندی کی جگہ تیزی سے انگریزی لے رہی ہے۔ بلکہ ایلیٹ کلاس تو اپنے بچوں کو انگریزی مادری زبان کے طور پر سکھا رہے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی یہ رجحان تیزی سے فرو غ پارہا ہے۔ انگریزی مادری نہیں تو دوسری سیکھی جانے والی زبان بن رہی ہے، میری مراد اشرافیہ طبقے سے ہے۔ جبکہ درمیانے تعلیم یافتہ طبقے میں یہ رجحان فروغ پارہا ہے کہ بچوں کی مادری زبان اردو ہو۔ چاہے ماں باپ کی مادری زبان پنجابی یا کوئی اور علاقائی زبان ہے۔ چناچہ اب حالات یہ ہیں کہ دادا دادی اور اماں باوا آپس میں پنجابی میں بات کرتے ہیں اور بچوں سے اردو میں۔ یہ میرا ذاتی مشاہدہ ہے۔ یہ نہیں کہ بچے اردو کی وجہ سے پنجابی سمجھ نہیں رہے۔ سمجھتے ہیں، بات کرو تو پنجابی میں جواب بھی دیتے ہیں لیکن یہ ان کی ترجیحی زبان نہیں۔ وہ اردو میں بات کرتے ہیں، انھیں پنجابی کی ضرورت ہی کیا ہے جب اردو یہ مقصد پورا کرتی ہے تو۔ چناچہ یہ نسل پنجابی سمجھ سکتی ہے۔ اگلی نسل؟ بالکل اگلی نسل پنجابی نہیں سمجھ سکے گی چونکہ ان کے ماں باپ اردو کے اہل زبان ہونگے۔ اور اگلی دو نسلوں میں پنجابی انا للہ ہوجائے گی۔ دوسری طرف انگریزی اشرافیہ اور درمیانے دونوں طبقوں میں تیزی سے اردو کی جگہ لے گی اور اردو رابطے کی زبان سے عامیوں کی زبان بن جائے گی جبکہ انگریزی رابطے کی زبان اور اعلٰی درجہ رکھنے والی زبان ہوگی۔ تغیر آرہا ہے لیکن یہ تغیر الٹی سمت سے آرہا ہے۔ نیچے سے اوپر کی بجائے اوپر سے ٹھونسا جارہا ہے۔ جس کی وجہ سے علاقائی زبانیں اقلیت بن رہی ہیں اور ایک دن وہ بھی آئے گا کہ دو سو تین سو لوگ رہ جائیں گے جو یہ زبانیں سمجھ سکتے ہونگے۔ جیسا آسٹریلیا میں وہاں کے باشندوں کی زبانیں مریں اور امریکا میں ریڈ انڈینز کی۔ تغیر کی اس یلغار کو روکنے کے لیے ہمیں بہت سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا ہوگا۔
یاد رہے لغات اور اصطلاحات کے ڈھیر، اور مردہ الفاظ میں علم کی ترویج کرکے ہم اپنی زبانوں کو زندہ نہیں مردہ کررہے ہیں۔ ہمیں یہ سمجھنا ہے کہ تغیر زبان کا مقدر ہے، تغیر دریا ہے جس کے آگے بند باندھیں گے تو اور سمت سے راستہ بنا لے گا۔ لیکن یہ تغیر ایسا نہ ہو کہ ہماری زبانیں ہی مٹ جائیں۔ ہمیں زبانوں کو بچانے کے لیے منصوبہ بندی کرنی ہوگی ورنہ تغیر کی یہ یلغار اتنی تیز ہے کہ اگلے دس سال میں بہت کچھ بدل چکا ہوگا۔

3 تبصرے:

  1. Salam...
    hum yahn apki bat se mutafik hen k 2 naslon me Punjabi Inalilah ho jae gi.... wese me ak bat share krna chahon gi. wo ye k hum log Ahsas-e-Kemtari ka Shikar hen. ANGREZI ani chaie bes... bachon ko be hum yehi sikhate hen jab k hum asanii se unhen "English as a SECOND language" ki tergeeb de skte hen per ni... isi waja se Urdu or Punjabi mehaz Zuban hi reh gai hen...
    doosrii bat theri k janab abi tk URDU AS AN OFFICAL LANGUAGE ni hoi PAKISTAN me jabke 1947 k bd ye teh tha k URDU zuban DEFTRI hogi... to lijeay 2009 agaya ni hoi....
    :(
    Iqbal ne shayad kaha tha
    "Magrib ki traf jao ge to Doob jao ge"
    sahi fermaya tha.
    TAGUER ho magar Jaiz ho... esa na ho k hum apni Shanakht kho bethian...

    جواب دیںحذف کریں
  2. علاقائی اور قومی زبانوں کے مٹ جانے کے جس خدشہ کا آپ نے اظہار کیا ہے اور اس کا جو سبب بیان کیا ہے وہ اس ناچیز کی سوچ سے کلی مطابقت رکھتا ہے۔ اس کا حل کیا ہونا چاہئے اس پر بھی کبھی لکھئے۔ جہاں تک اردو میں نئی اصلاحات متعارف کروانے کی بات ہے تو یقیناً مقتدرہ کو یہ کام سر انجام دینا چاہئے لیکن مردہ الفاظ کو زندہ کرنا بھی کوئی ایسی معیوب حرکت نہیں میرے تئیں۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. ہمارے بعض محققین ، ناسخ اور دوسرے مصلحین زبان کا ذکر یوں کرتے ہیں گویا وہ ادیب نہیں بلکہ بادشاہِ وقت یا ہائیکورٹ کے جج تھے کہ اِدھر اُن کا حکم ہوا اُدھر لوگوں نے اپنی زبان میں اصلاح کر لی۔ یہ طرزِ فکر غیر تاریخی ہے۔ کیونکہ زبان کی دنیا میں کُن فیکون کا قانون نہیں چلتا اور نہ کسی بادشاہ کا فرمان کام آتا ہے۔ یہاں اگر کسی کا حکم چلتا ہے تو وہ عام لوگ ہیں جو نہ کسی کے کہنے سے زبان بولتے ہیں اور نہ کسی کے کہنے سے اُسے ترک کرتے ہیں۔ ترک و قبول ایک مسلسل اور تدریجی عمل ہے جو زبان کی دنیا میں ہر وقت جاری رہتا ہے۔ الفاظ اور محاورے جب اپنی افادیت کھو دیتے ہیں تو لوگ انہیں کھوٹے سکے کی مانند ترک کر دیتے ہیں اور نئے الفاظ و محاورات کو جو اظہار و ابلاغ میں ان کی مدد کریں قبول کر لیتے ہیں۔

    ***
    یہ ایک اقتباس ہے۔
    مزید اس موضوع پر میرے بلاگ کی تازہ تحریر یہاں پڑھئے۔

    جواب دیںحذف کریں

براہ کرم تبصرہ اردو میں لکھیں۔
ناشائستہ، ذاتیات کو نشانہ بنانیوالے اور اخلاق سے گرے ہوئے تبصرے حذف کر دئیے جائیں گے۔