افتخار اجمل صاحب کی حالیہ پوسٹ پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ آج ذرا فراغت تھی میں نے سنت کی آئینی حیثیت از ابواعلٰی مودودی کا دیا گیا پی ڈی ایف ربط اتار لیا۔ ابھی صرف ایک سو پچاسی صفحات پڑھے ہیں۔ شاید مزید پڑھنے کی بھی توفیق نہ ہو۔ لیکن بخدا مزہ آگیا ایک بار۔
وہ منکر حدیث صاحب کج بحث اور نئے اعتراضات جڑنے کے ماہر ہی معلوم ہوتے ہیں۔ کوئی علمی بات تو ان سے ہو نہیں رہی۔ بس بودے اعتراضات کیے چلے جارہے ہیں۔ ایک دو جگہ مجھے اپنی کم علمی کی وجہ سے اعتراضات میں وزن لگا لیکن جب قرآن سے اس کا ثبوت مودودی صاحب نے نکال کر دیا تو سب کچھ آئینے کی طرح شفاف ہوگیا۔
یہ کوئی پچاس سال پرانی بات ہے۔ لیکن اعتراضات وہی ہیں جو ابھی کچھ دن پہلے ہی محفل پر کیے جارہے تھے۔ احادیث کو لکھا کیوں نہیں گیا۔ ان کتب میں ہر چیز قابل اعتبار کیوں نہیں ۔یہ کیوں نہیں وہ کیوں نہیں۔ یہ کتب روایات ہیں۔ اور پھر جب موسیقی کے حلال حرام کا قصہ آیا تو قرآن کی ایک آیت جس کا مفہوم ہے تم پر جو چیزیں حلال کی گئی ہیں ان سے پچھے نہ ہٹو وغیرہ کا حوالہ دے کر مطمئن ہوجانا۔ لیکن دین صرف قرآن کا نام ہی نہیں۔ صاحب قرآن کے احکامات اور اطاعت کا نام بھی ہے۔
بخدا میرے تصورات اس کتاب کے معاملے سے مزید کلئیر ہوئے ہیں۔ یہ حق و باطل کی جنگ بڑی پرانی ہے چناچہ مجھے اب کوئی چنتا نہیں۔ اللہ سائیں بہتر کرے گا۔ اگر اس وقت ابو لاعلٰی مودودی جیسے علماء موجود تھے تو آج بھی سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقین موجود ہیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
براہ کرم تبصرہ اردو میں لکھیں۔
ناشائستہ، ذاتیات کو نشانہ بنانیوالے اور اخلاق سے گرے ہوئے تبصرے حذف کر دئیے جائیں گے۔