پیر، 1 اکتوبر، 2007

حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور لسانیات

ہمارے اگلے سمسٹر میں ایک مضمون پڑھایا جائے گا ہمیں جس کا نام سٹائلسٹکس ہے۔ اردو ترجمہ کریں تو انداز بیاں۔ اس کا کام یہ ہے کہ مختلف لوگوں کے انداز بیاں کا کھوج لگائے۔ یہ انداز کسی لکھاری کا بھی ہوسکتا ہے جیسے آپ ممتاز مفتی کو اس کی تحریر سے پہچان لیتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ وہ کچھ مخصوص الفاظ، کچھ گرامر کے پیٹرنز کا بے تکلفانہ استعمال کرتا ہے۔ گرامر کے پیٹرن کا ایک رف سا خاکہ یہ ہوسکتا ہے کہ محی الدین نواب کو پڑھنے والے جانتے ہیں کہ وہ گئی، گیا نہیں لکھتا ہمیشہ یہ لکھے گا کہ چلتی ہوئی گئی، چلتا ہوا گیا۔ یہ چلتا ہوا گیا جو کہ ایک فعل گیا کی جگہ استعمال ہورہا ہے ایک خاص گرامر پیٹرن ہے۔۔کم از کم میں فورًا پہچان جاتا ہوں کہ یہ بندہ محی الدین نواب ہے۔


اگر ہم عمومی سٹائلسٹکس کی بات کریں تو یہ انداز کسی خاص شعبہ زندگی کے لوگوں کا ہوسکتا ہے۔ جیسے قانون سے تعلق رکھنے والوں کی ایک مخصوص پیشہ ورانہ زبان ہوتی ہے۔ جسے وہ عدالتوں، کچہریوں میں استعمال کرتے ہیں۔ ہم ان کو بھی ان کے انداز بیاں سے پہچان لیتے ہیں۔


کسی بندے کا تکیہ کلام اس کے انداز بیاں کا حصہ ہے چناچہ اکثر آپ تکیہ کلام کے بل پر دوسرے بندے کو پہچان لیتے ہیں۔ سٹائلسٹکس میں کئی مثالیں موجود ہیں جن میں کسی بے نام لکھاری کی تحاریر کو اس تجزے کی بنیاد پر شناخت کرلیا گیا۔ کام صرف اتنا تھا کہ بے نام لکھاری کی تحاریر کا سٹائلسٹکس تجزیہ کیا جائے، کس قسم کے الفاظ استعمال کرتا ہے، فعل زیادہ یا اسماء زیادہ، کونسے گرامر پیٹرن زیادہ استعمال کرتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ پھر اس کام کو ان لکھاریوں کی تحاریر کے تجزیے سے ملایا گیا جن کے بارے میں کنفرم تھا کہ اس تحریر کا لکھاری یہی ہے۔ اس طرح گمنام لکھاریوں کو انداز بیاں ایک ہونے کی بناء پر جانے مانے لکھاری سے ملایا گیا اور بعض اوقات سو سال بعد یہ بات ثابت ہوئی کہ یہ گمنام تحریر فلاں لکھاری کی ہے۔


اسی بنیاد پر میں نے آج سوچا کہ اگر حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی سٹائلسٹکس تجزیہ کیا جائے تو کیسا رہے؟ یہ خیال مجھے محفل پر کئی ماہ تک پڑی رہنے والی کھپ کی وجہ سے آیا جس میں یار لوگوں نے حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سچ ہونے پر انگلیاں اٹھائیں۔


اس تجزیے کے لیے ایک ایسا بندہ درکار ہوگا جو عربی اور لسانیات کی اس شاخ یعنی سٹائلسٹکس پر عبور رکھتا ہو۔ نیز عربی کا مشینی تجزیہ کرنے کے لیے کئی سافٹویر بھی درکار ہونگے۔ یعنی اچھا خاصا ایک پراجیکٹ بن سکتا ہے۔ لیکن ہمارا کام تو تجویز دینا تھا۔ پتا نہیں یہ قابل عمل بھی ہے یا نہیں۔ چونکہ احادیث کو جانچنے کے کئی معیارات صدیوں سے مستعمل ہیں۔ اسماء الرجال اور شاید صرف و نحو بھی۔ ان میں شاید انداز بیاں کا تجزیہ جیسی کوئی چیز بھی ہو۔


آپ کا کیا خیال ہے اس بارے میں؟

8 تبصرے:

  1. یہ کام کرنا ہوا تو پہلے یورپ یا امریکہ آ جانا۔ یہ نہ ہو پاکستان میں مارے جاؤ۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. آپ نے جو آئیڈیا دیا ہے اس پر پاکستان میں آپ قتل بهی هوسکتے هیں ـ
    احتیاط کریں ان کتابوں کے متعلق بعض لوگ بہت جذباتی هیں ـ
    جن کتابوں کو پاکستان میں لوگ حدیث کہتے هیں میں تو ان کو حدیث کی بجائے اقوال بزرگاں کہتا هوں ـ
    اور اسلام کے ٹهیکدار مجهے منکر حدیث کہتے هیں ـ
    جن لوگوں کو حدیث کی ڈیفینیشن کا بهی معلوم نہیں ہے ـ
    حدیث اس بات کو کہتے هیں جس کو رسول نے اسلام کا پیغام سمجھ کر فرمایا هو ـ
    اور اس ڈیفینشن پر پورا اترتا ہے قران یعنی قران هی اصل میں حدیث هے ـ
    کبهی آپ تصوّر کریں که ایک دن جب آپ جاگیں تو یه اقوال بزرگاں کی کتابیں اس جہاں میں نه هوں تو
    پهر تفرقے باز مولوی کے پاس اسلام میں لڑنے اور لڑوانے والا میٹریل کہاں سے آئے گا؟؟
    ان کتابوں میں اللّه کے رسول کی انسلٹ کی گئی ہے
    رسول کے اقوال میں تضاد دیکها کر ـ
    حالانکه یه رسول کے اقوال هیں هی نہیں

    جواب دیںحذف کریں
  3. یہاں‌ ہونا بھی کہاں‌ ہے یہ۔ ذرائع ہی نہیں۔ ویسے مارے جانے کی بات کیوں کہی آپ نے؟

    جواب دیںحذف کریں
  4. خاور صاحب میں بھی بہت جذباتی ہوں اس معاملے میں۔ آپ نے انھیں‌ اقوال بزرگاں کہا لیکن میں انھیں‌ اقوال رسول صلی اللہ علیہ وسلم سمجھتا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال بے شک موجود ہیں۔ اور ان کے بغیر قرآن کی تشریح‌ ممکن ہی نہیں‌۔ میری یہ پوسٹ اصل میں ضعیف یا مشکوک احادیث‌ کو صحیح‌ احادیث‌ سے الگ کرنے کے متعلق ایک لسانیاتی طریقہ کار کے استعمال سے تھی۔ جیسے اسماء‌الرجال کے بل پر احادیث‌ کی درجہ بندی کی جاتی ہے۔ بس اس کے لیے پہلے سے احادیث‌ درکار ہونگی جن پر سب متفق ہیں‌۔ لیکن یہ خاصا مشکل اور تکنیکی کام ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  5. میں ایک مولوی ہوں، آپکو گارنٹی دیتا ہوں کہ آپکو قتل نہیں کیا جائے گا اور ستایلسٹکس کے جس موضوع پر آپ ریسرچ چاہ رہے ہیں، یہ ایک اچھی بات ہے اور اگر اس پر عربی ادب میں دیکھیں تو کسی حد تک اچھا خاصاکام ہوا بھی ہے، وہ الگ بات ہے یار لوگوں کو پتہ نہیں! اور پتہ نہ ہونے کی وجہ بھی یہ ہے کہ وہ ملا اور مدرسے سے ڈرتے ہیں، باقی رہی احادیث کی صحت کی بات تو اس پر کلام کرنے والے آگے چل کر قرآن مجید پر کلام کرنے پر اتر آتے ہیں، کیونکہ وہ بھی تو انہی لوگوں سے منقول ہے جن سے احادیث منقول ہیں، لیکن احادیث کی صحت و عدم صحت پر کھل کر خوش اعتقادی سے بالا بالافنی رو سے بحث و مباحثہ جتنا مولویوں کے ہاں ہوتا ہے شاید کوئی دوسرا اسے مدرسے میں گھسنے پہلے سوچ بھی نہ سکتا ہو!!

    جواب دیںحذف کریں
  6. حافظ صاحب سٹائلسٹکس میں کام کرنے کے لیے ہمارے پاس پہلے اصلی کام کا حوالہ موجود ہونا چاہیے۔ مثلًا اگر کسی مصنف کی گمنام تحاریر تلاشنی ہیں تو اس کی اصلی تحاریر کا ایک کارپس (خام متن کا ذخیرہ) ہونا چاہیے جس سے ان گمنام تحاریر کا موازنہ کیا جاسکے۔ میں نےیہ اپنے استاد محترم سے ڈسکس کیا تھا۔ ان کے مطابق ہمیں پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے الفاظ درکار ہونگے۔ لیکن احادیث میں اکثر ایسا ہے کہ راوی نے مفہوم بیان کردیا ہے لیکن الفاظ بدل گئے ہیں۔ یہ خاصا پیچیدہ اور دقت طلب کام ہے۔
    بہرحال آپ کی آمد اور تبصرے کا شکریہ۔

    جواب دیںحذف کریں
  7. مجھے یہ سمجھ نہیں‌آرہی کہ کچھ لوگ مارے جانے کی بات کیوں کر رہے ہیں اگر اتنا ہی مارنا ہوتا تو جاوید احمد غامدی کب کا مارا جا چکا ہوتا ۔۔۔۔ بات اتنی ہے کہ آپ لوگ دین بی بی سی اور سی این این سے سیکھتے ہیں دوسری بات یہ کہ یہ جو ٹاپک آپ نے سوچا ہے مجھے تو کافی انٹرسٹنگ لگا ہے اور جیسا کہ حضرت عطااللہ صاحب نے بیان کیا اس پر ضرور کچھ ہو گا اگر آپ اس پر کچھ کریں تو مجھے بھی بتائیے گا
    وسلام

    جواب دیںحذف کریں
  8. بھائی جی ایک خواہش ہے کہ کاش ایسا ہوسکے۔ لیکن اس کے لیے درکار وسائل میری دسترس سے باہر ہیں۔ یا یہ سمجھ لیں کہ شاید ابھی نیت نہیں پوری ہوئی۔ اپنی زندگی کے بکھیڑے ہی سو ہیں تحقیق کی طرف کیا دھیان دیں۔ دعا کیجیے گا کہ کچھ کرسکوں اس بارے بھی۔

    جواب دیںحذف کریں

براہ کرم تبصرہ اردو میں لکھیں۔
ناشائستہ، ذاتیات کو نشانہ بنانیوالے اور اخلاق سے گرے ہوئے تبصرے حذف کر دئیے جائیں گے۔