بی بی سی پر تازترین میں بینظیر کی ہلاکت کی خبر موجود ہے۔ ابھی سرکاری ٹیلی وژن نے بھی یہی خبر دی ہے۔ میں بے نظیر سے نظریاتی اختلاف رکھتا تھا اور بے شک میں اسے ووٹ بھی نہ دیتا۔ لیکن ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔ کبھی بھی نہیں۔ وہ جیسی بھی تھی ایک لیڈر تھی۔ لیڈر میں پوری قوم کی جان ہوتی ہے۔ لیڈر کی موت قوم کے اندر ایسے نامٹنے والے زخم چھوڑ جاتی ہے جو ناسور بن کر قوم کو کھا جاتے ہیں۔ بے نظیر بھٹو کی موت ایک سیاسی عمل کی موت ہے۔ اگر پہلے انتخابات سے ہمیں کچھ بہتری کی امید بھی تھی تو بھی نہیں۔ بے نظیر ایک ایسے طبقہ فکر کی نمائندہ تھی جو ملک کو ترقی کی راہوں پر گامزن دیکھنا چاہتا تھا۔ بے شک اس کی موت کا خلاء کبھی بھی پورا نہیں ہوسکے گا۔
بےنظیر ایک جینوئن لیڈر تھی۔ بلاشک ذولفقار علی بھٹو نے اپنی بیٹی کی تربیت ایسے ہی کی تھی۔ اس کے اندر اظہار کی جرات تھی اور مذہبی انتہاپسندی کے خلاف اس کا موقف بہت سخت اور واضح تھا۔ یہی موقف اس کی موت کا سبب بن گیا۔ لعنت ہے ایسی حکومت پر جو ایک لیڈر کو سیکیورٹی بھی فراہم نہ کرسکی۔ یہ سب کچھ مشرف کی ناعاقبت اندیشانہ پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ اس ایک ہلاکت کے ردعمل میں کیا کیا فتنے سراٹھائیںگے ان کا تصور ہی لرزہ طاری کردیتا ہے۔ اب پیچھے رہ ہی کیا گیا ہے لوٹے اور چمچے۔
اللہ سائیں لواحقین کو صبر جمیل عطاء کرے اور مرحومہ کو جنت الفردوس میں اعلٰی مقام نصیب فرمائے۔ یاللہ ہمیں استقامت اور حق کا ساتھ دینے کی توفیق عطاءفرما۔ آمین
جو ہوا برا ہوا!!!
جواب دیںحذف کریں