آج سولہ دسمبر ہے۔ اہل دل اور اہل وطن یقینًا خون کے آنسو رو رہے ہیں۔ ہمارا بازو کٹ کر جدا ہوگیا۔ لیکن میں جو ایک عام آدمی ہوں اس پر کیا کہوں؟
کیا لکھوں؟
میرا حال یہ ہے کہ دو وقت کی روٹی ملنی مشکل ہوگئی ہے۔ سارا سارا دن یوٹیلٹی سٹور پر لائن میں کھڑے ہو کر چار کلو گھی اور ایک تھیلا آٹے کا ملتا ہے۔ ساتھ میں یوٹیلیٹی سٹور والا اور خریداری کے بغیر گھی اور آٹا بھی نہیں دیتا۔ کہتا ہے ہم نے یہ کہاں بیچنا ہے۔
ہر تین گھنٹے بعد بجلی بند ہوجاتی ہے۔ یہ آنکھ مچولی سارا دن جاری رہتی ہے میں کاروبار کیا خاک کروں؟
میرے ملک کے حکمران اس بات پر سراپا فخر و غرور ہیں کہ ایک کروڑ عوام کے پاس موبائل ہیں۔ موٹر سائیکلوں اور کاروں کی ریل پیل ہوچکی ہے اور خزانہ بھرا ہوا ہے۔ کیا یہ موبائل فون، یہ کاریں اور موٹر سائیکل مجھے دو وقت کی روٹی دے سکتے ہیں؟
مجھے کھانے کو نہ ملے تو کیا ان موبائل فونوں کو ہی چبانا شروع کردوں؟
میں کس بات کا نوحہ پڑھوں؟
اپنے اور اپنے خاندان کے فاقہ زدہ اور محروم چہروں کا یا چھتیس سال پہلے کا؟
کوئی بتائے مجھے میں کس کی نوحہ خوانی کروں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر ہمارے بڑے اسی وقت ہوش کے ناخن لیتے تو ان نوحوں کی نوبت ہی نہ آتی۔ اب بھی وقت ہے۔ بہت کچھ بدلا جا سکتا ہے۔ میں مانتا ہوں کہ شاید ہماری زندگی میں ہمیں کامیابی نہ ملے لیکن بڑی بڑی تبدیلیاں یک دم تو نہیں آتیں۔ سالوں لگتے ہیں تب تبدیلی کا پتا چلتا ہے۔
جواب دیںحذف کریںیہ کہنا کہ ہم عام لوگ کیا کر سکتے ہیں، محض کام چوری کا مظاہرہ ہے۔ بڑی بڑی تبدیلیاں اگر ہمیشہ نہیں تو زیادہ تر اوقات چھوٹے چھوٹے لوگ ہی لاتے ہیں۔
بے حسی کو کیسے ختم کریں اب۔۔سمجھ نہیں آتی
جواب دیںحذف کریںاچھا کیا کہ ابھی کا نوحہ پڑھ دیا۔۔۔۔۔ گزرے والوں کے نوحے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔۔۔۔۔۔
جواب دیںحذف کریںہر مسلمان کو چاہیئے کہ اللہ کے آگے گڑگڑا کر اپنے گناہوں کی معافی مانگے ۔ مصیبتیں انسان خود اپنے لئے پیدا کرتا ہے ۔ پھر ان سے چھٹکارا پانے کیلئے لگاتا محنت کرنا پڑتی ہے اور اللہ کسی انسان کی محنت رائیگاں نہیں کرتا ۔
جواب دیںحذف کریںمیرا خیال ہے کہ اس ملک میں وہی کامیاب ہو سکتا ہے جوکہ لوٹنے کی پالیسی پر عمل کرے اور ہر دوسرے بندہ کو دھوکہ دے۔
جواب دیںحذف کریں