بندہ کس کو دوش دے۔ اردو محفل کے لوگوں کو جنھوں نے میرا اتنا دماغ خراب کردیا کہ میرے جیسا سیدھا سادھا بندہ جو زیادہ زیادہ ایم بی اے کرکے کسی فرم میں چھوٹے موٹے عہدے پر لگ جاتا، کچھ سال بعد ٹنڈ ہوجاتی اور صاحب توند ہوجاتا۔ ایک بیوی مع چند بچوں کے معرض وجود میں آجاتی اور پھر فوت ہوجاتا۔ چند ایک لوگ جانتے کہ فلانا تھا اور چنگا تھا فوت ہوگیا۔
2005 کی بات ہے شاید ستمبر تھا جب پہلی بار میں اردو محفل پر آیا۔ اس کے بعد جو میں نے یہ پنگا اور وہ پنگا یعنی پنگا در پنگا لینا شروع کیے۔ کبھی ورڈپریس کا ترجمہ، پھر بلاگنگ کی شروعات۔ اس کے بعد ورڈپریس پر بلاگنگ۔ فری ہوسٹس کے چکر۔ پھر لینکس کا بھوت سوا ہوا۔ لینکس چلائی، اڑائی پھر چلائی پھر اڑائی، کبھی اوپن آفس کی لغت بنائی۔ ان دوسالوں نے مجھے بدل دیا۔ میں جو ایک بی "کامی" کمین تھا میرا دن میں آدھے سے زیادہ وقت اس موئے نیٹ پر گزرنے لگا۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ میرا بی کام کے بعد ایم کام میں ایڈمیشن نہ ہوسکا اور اگلے چھ ماہ میں نے ٹیوشنز پڑھا کر اور انٹرنیٹ گردی میں گزارے۔ پھر ۔۔۔پھر یہ ہوا کہ مجھے دو فرشتے مل گئے۔ یہ میرے اساتذہ تھے سر عاصم اور سر راشد۔۔۔پی ایچ ڈی کی ریسرچ کررہے تھے اور موضوع تھا پاکستانی انگلش۔۔۔انھیں ایک بندہ چاہیے تھا جو ڈیٹا کی پروسیسنگ کا کام کرسکے۔ میں ویلا تھا سو میں نے حامی بھر لی۔ کہتے ہیں جی جو قسمت میں ہو مل ہی جاتا ہے جانا کدھر تھا اور آکدھر گیا۔ انھوں نے اوپن آفس کے لیے اردو ورڈ لسٹ کی شمولیت کے بارے میں جانا اور جب یہ پتا چلا کہ اس کی تیاری میں کچھ کوشش میری بھی شامل ہے تو مجھے لسانیات کی طرف آنے کا مشورہ دے دیا۔ اور میں تو جیسے تیار بیٹھا تھا۔ گھر مشورہ کیا دو ایک دن سوچا اور اللہ تیری یاری فیس جمع کروا دی۔ ایسا نہ ہوتا تو میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے ایم بی اے کررہا ہوتا۔
اس کے بعد مجھے احساس ہوا کہ دنیا کتھے وسدی ہے۔ ان کا شعبہ کارپس لسانیات تھا۔ انھوں نے تجزیے وغیرہ کے لیے کوئی بیس لاکھ الفاظ پاکستانی انگریزی کے اکٹھے کئے تھے۔ مقصد یہ تھا کہ پاکستانی انگریزی کو بطور ایک ورائٹی تسلیم کروایا جائے۔ کارپس لنگوئسٹکس اور کمپیوٹیشنل لنگوئسٹکس میں بس تھوڑا سا فرق ہے۔ کارپس والے ڈیٹا کا تجزیہ کرتے ہیں اور اس کے لیے انھیں مختلف سافٹویر اور ٹول درکار ہوتے ہیں۔ ان سافٹویرز اور ٹولز کو بنانا ایک پروگرامر مع لنگوئسٹ کا کام ہے۔ یعنی جو ہر دو شعبوں میں مہارت رکھتا ہو۔ عمومًا ایسے لوگ بڑے "گوڑھے" پروگرامر ہوتے ہیں۔ ایپلی کیشن بنانا خالہ جی کا واڑہ نہیں۔ اور وہ بھی جس میں بہت ہی خاص قسم کی پروسیسنگ اور معیار و نتائج درکار ہوتے ہیں۔
میرے اساتذہ اس معاملے میں بالکل کورے تھے۔ چناچہ جب پاکستانی انگریزی کو پروسیس کرنے کا مرحلہ آیا تو اول تو درکار سافٹویرز دستیاب ہی نہ تھے جو دستیاب تھے ان کے استعمال کا پتا نہ تھا۔ نیز پاکستانی انگریزی کی "گھنڈیاں" ان سے سلجھائی ہی نہ جاسکتی تھیں۔ ( آپ کے لیے شاید انگریزی انگریزی ہی ہو جیسے سارے چینی اور جاپانی اور کورین ایک جیسے نظر آتے ہیں ویسے ہی ہر ملک کی انگریزی بس انگریزی ہے۔ لیکن اہل فن و علم جانتے ہیں کہ زبان میں کس کس لیول پر کس طرح کے تغیرات ہوسکتے ہیں اور ان کی بنیاد پر زبان کی مزید ذیلی اقسام کیسے بن جاتی ہیں۔ سادہ سی مثال وکلاء اور ججوں کی انگریزی ہے جو وہ فیصلوں میں لکھتے ہیں یا بائبل اور قرآن کے انگریزی تراجم جن کے الفاظ ہی عام مروج زبان سے مختلف اور بڑے روایتی قسم کے ہوتے ہیں) یہاں آکر مجھے پتا چلا کہ میں نے اگر لسانیات میں کچھ کرنا ہے تو مجھے پروگرامر بننا پڑے گا۔ کم از کم اتنا کہ لینکس میں بیٹھ کر دو چار سکرپٹس لکھ سکوں یا پہلے سے موجود پروگرامز میں کچھ تبدیلی کرسکوں جو میرے مقصد کے تحت کام آسکیں۔ شاید زندگی میں پہلی بار میں نے اس فیلڈ میں سوچ سمجھ کر قدم رکھا ہے۔ اور ساری کشتیاں جلا کر اس سپین میں داخل ہوا ہوں۔ اب میرے سامنے لسانیات کی وسیع و عریض دنیا ہے اور پیچھے مڑا تو شاید پتھر کا ہی ہوجاؤں۔ میرا مقصد یہ بھی تھا کہ اردو زبان کے لیے کچھ کام کیا جائے۔ گرامر پر کام کرنا ایک تو مجھے پسند ہے دوسرے اردو کی گرامر پر ابھی تک کوئی خاص کام نہیں ہوسکا اگرچہ اس پر کچھ محققین مختلف جگہوں پر کام کررہے ہیں لیکن یہ آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ کرلپ لاہور میں بہت قابل قدر کام ہورہا ہے اور اگر زندگی رہی اور جذبہ بھی رہا تو ڈاکٹر سرمد حسین سے بھی ضرور رہنمائی لوں گا۔ ان سب مقاصد کو مدنظر رکھ کر میری منزل یہ ہے کہ لسانیات میں ایم ایس سی تو کرنا ہی ہے ساتھ کوئی پروگرامنگ کورس وغیرہ بھی کروں۔ ایک عرصے سے اس سلسلے میں متجسس تھا۔ کل رات بھی سر سے اس سلسلے میں بات ہوئی تو پھر واپس آکر کافی دیر مونو اور ڈاٹ نیٹ کے بارے میں تحقیق کی۔
کمپیوٹنگ فورمز، اردو محفل پر جو وقت گزرا اس سے یہ پتا چلا کہ ڈاٹ نیٹ اس وقت آسان ترین لینگوئج ہے جس میں پروگرامنگ کی جاسکتی ہے۔ لینکس میرا شوق ہے اور ونڈوز میری مجبوری۔ چناچہ مونو کی طرف متوجہ ہونے کی وجہ یہی تھی کہ اس کی وجہ سے ونڈوز کی ایپلیکیشنز لینکس پر چلائی جاسکیں گی۔ اگرچہ ابھی پروگرامنگ کی دنیا میں میرے دودھ کے دانت بھی نہیں آئے اور مجھے پروگرامنگ کی الف بے کا بھی پتا نہیں سوائے وی بی سکس کے ان اسباق کے جو میں نے چھ سال پہلے میٹرک کرنے کے بعد کمپیوٹر پر اپنی ابتدائی کورس کے ساتھ دو تین ماہ ایویں مذاق ہی مذاق میں پڑھے تھے، لیکن میرا خیال ہے کہ بنیادی تصورات سیکھنے کے بعد مجھے ڈاٹ نیٹ کو ہی سیکھنا ہوگا اور اسی لیے میں نے مونو کے بارے میں رات تفصیلًا تحقیق کی۔ اور وہ تحقیق کیا تھی یہ اگلی کسی قسط میں ملاحظہ کیجیے۔ آپ کا شکریہ آپ نےاتنی دیر تک میری میں میں برداشت کی۔
آپ کی میں میں بہت پسند آئی۔
جواب دیںحذف کریںلسانیات میں آپ کہاں سے اور کون سی ڈگری کر رہے ہیں۔
اگر تمہیں ریاضی پسند ہے تو تم گوڑھے پروگرامر بن سکتے ہو۔
جواب دیںحذف کریںلسانیات میں فی الحال تو ایم ایس سی اپلائڈ لنگوئسٹکس کی ڈگری لینی ہے۔ اپلائیڈ لنگوئسٹکس کا آج کل کافی شہرہ ہے۔ عمومًا اس سے مراد ٹیچنگ اور انگلش لینگوئج ٹیچنگ لی جاتی ہے۔ لیکن لسانیات کے اور شعبے بھی ہیں جیسے کمپیوٹیشنل لسانیات اور مجھے اس میں کام کرنے کا شوق ہے۔
جواب دیںحذف کریںریاضی اتنی پسند بھی نہیں اور دشمنی بھی نہیں اس سے۔ امید ہے گزارہ کرلوں گا۔
بہت خوب! اللہ آپ کو استقامت عطا کرئے۔
جواب دیںحذف کریںوی بی ڈاٹ نیٹ کے لیے آپ بازار سے وژویول سٹوڈیو 2005 کی سی ڈی لے کر انسٹال کرلیں۔
ایم ایس ڈی این پروگرامنگ کے امدادی مواد پر مشتمل ہوتی ہے۔
شکریہ۔
جواب دیںحذف کریںمیں اسے ٹورنٹ سے اتار رہا ہوں۔ پھر رائٹکروں گا۔ ایک ڈی وی ڈی کا مواد ہے اسے چار پانچ سی ڈیز پر رائٹ کرنا پڑے گا۔
بازار سے خرید لیں۔ 90 روپے کی تین سی ڈیاں ہوں گی۔
جواب دیںحذف کریںمیں دیکھتا ہوں بازار سے کیا سلسلہ ہے اس کا۔۔۔
جواب دیںحذف کریں