اتوار، 4 اکتوبر، 2009

چینی کا بحران اور عدلیہ

میرے کچھ احباب کو یہ بات بڑی چبھ رہی تھی کہ عدلیہ بحال ہوگئی اور کام اس نے ٹکے کا بھی نہیں کیا۔ پچھلے ایک ماہ سے جاری کشمکش، اپیلوں، رِٹس اور تاریخوں کے بعد آخر کار سپریم کورٹ نے حکومت کو حکم دے ہی دیا کہ وہ چینی 40 روپے فی کلوگرام کا نوٹس جاری کرے۔ ملاحظہ ہو خبر

آخر کار سپریم کورٹ نے حکومت اور سرمایہ داروں کے حلقوم پر ہاتھ رکھ ہی دیا۔ لیکن اس سب کا فائدہ کیا ہوگا؟
اس کا فائدہ اس وقت تک نہیں ہوگا جب تک سسٹم ٹھیک نہ ہو۔ لوگ عدالتوں میں بیٹھنے والوں کو فرعون کہنے لگے ہیں، اسے طرح طرح سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ میں پچھلے کئی دنوں سے یہ سوچ رہا تھا کہ یہ جو عدلیہ آزاد ہوئی ہے تو یہ کتنی آزاد ہوئی ہے۔ صاحبو کئی دن تک اپنے پی ون پروسیسر جیسے دماغ کو زحمت دینے کے بعد نتیجہ یہ نکلا کہ گن کے پانچ عدالتوں کے جج اگر ٹھیک کام کر بھی رہے ہیں تو ان سینکڑوں ماتحت عدالتوں کا کیا جو اب بھی ویسے ہی کام کررہی ہیں؟ جناب مسئلہ سسٹم میں ہے مسئلہ عدلیہ کی آزادی میں نہیں۔ وہ تو جو ہونا تھا ہوگیا اور بہترین ہوگیا۔ اب آگے کام ہے سسٹم کو ٹھیک کرنا۔
عدلیہ آزاد ہوگئی۔ عدلیہ ازخود نوٹس بھی لے رہی ہے۔ عدلیہ سماعتیں بھی رکرہی ہے۔ لیکن بات پھر یہ ہے کہ اس پر عملدرآمد کس نے کرانا ہے؟ ٹھیک سمجھے! انتظامیہ نے۔ اور انتظامیہ اگر نہ عمل کرنا چاہے تو کون مائی کا لال اسے روک سکتا ہے؟ پاکستان کی نوکر شاہی کے تاخیری حربے تو ویسے بھی کلاسکس کی حیثیت رکھتے ہیں۔
بات اتنی سی ہے کہ گنتی کے چند لوگ جو عدالتوں میں بیٹھے ہوئے ہیں جادو کی چھڑی سے سب کچھ ٹھیک نہیں کرسکتے۔ اس کے علاوہ بھی عمل ہونا چاہیے۔ ہم نے سمجھا کہ عدلیہ ٹھیک ہوگئی تو سب کچھ ٹھیک ہوگیا۔ پھول نگر کے واقعے پر کسی بلاگر نے عدلیہ کو کوسنے دیے، اہم مقدمات کی لمبی لمبی تاریخیں دینے پر گل افشانیاں کی گئیں۔ لیکن بات پھر وہی ہے کہ عدلیہ کے پاس کوئی جادو کی چھڑی نہیں۔ ان ججوں کی بھی حدود ہیں۔ انتظامی بھی اور انسانی بھی۔ کتنے مقدمات کی سماعت کرلیں؟ آخر کتنے؟ آخر انھوں نے اپنے خاندان کو بھی وقت دینا ہے اور خود آرام بھی کرنا ہے۔ یہاں تو ہر دوسرا واقعہ ازخود نوٹس کا متقاضی ہے کیا کیا کر لیں عدالتیں۔ یہ تو ان کی مہربانی ہے کہ چینی بحران جیسے ایشو پر ہی ایکشن لے رہی ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ چینی مافیا کے پاس ابھی کارڈز کا یہ بڑاسارا ڈھیر ہے جسے کھیل کر وہ بڑے آرام سے حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرسکتے ہیں۔ ان میں سرفہرست ملوں کی بندشن اور مل مزدوروں کی "سپانسرڈ" ہڑتالیں ہیں۔ یہی ہڑتالیں کسانوں سے بھی کروائی جاسکتی ہیں جن کی فصل کھیتوں میں تیار کھڑی ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت کے گوڈوں میں پانی ہے یا نہیں۔ کیا وفاقی حکومت یا کم از کم حکومت پنجاب جس نے ملوں پر پولیس تعینات کردی ہے ملوں کو اپنی تحویل میں لے کر چلوا سکے گی؟ کیا یہ لوگ اتنے قابل ہیں؟
اب یہ نہ کہہ دیجئے گا کہ افتخار چوہدری خود آکر ملیں بھی چلوانا شروع کردے۔ مودبانہ گزارش ہے کہ عدالتوں کو کوسنے کے بعد معاشرےکو بھی دیکھیں وہاں کیا کیا ہے جو عدالتیں نہیں کرسکتیں۔ کسی بھی صورت نہیں۔ چونکہ عدالتی کاروائی ریکارڈ اور گواہوں کی محتاج ہے۔ اس کا ایک طریقہ کار ہے جو کم از ہمارے موجودہ حالات میں بہت وقت طلب کام ہے۔ جب کہ ہمیں انتظامی سطح پر ایسی ہی بحالی درکار ہے جیسی عدالتوں میں ہوئی۔
باقی ساڈا کی جاندا اے۔ جتھے چار گالاں کڈدے او اوتھے اٹھ کڈو۔ نہ عدالتاں دا کچھ جانا اے تے نا حکومت دا۔ سب نے چلدیا رہنا۔ اساں تُساں کڑھدیاں رہنا تے زندگی ٹردی جانی اے۔

5 تبصرے:

  1. میرے بھاءی یہ سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں بہت مشکل ہے کچھ اچھا ہو گا

    جواب دیںحذف کریں
  2. ایک فہرست بنائیں شوگر مل مالکان کی۔ پھر ان میں سے دیکھئے کتنوں کی وابستگی نون لیگ کے ساتھ ہے اور کتنوں کی پی پی اور قاف لیگ کے ساتھ۔ پھر آپ کو سمجھ آجائے گی پنجاب حکومت کی "پھرتیوں" اور عدلیہ کے ازخود نوٹس کی :)

    جواب دیںحذف کریں
  3. اگر سپریم کورٹ چینی پیدا کر سکتی تو اسکی قیمت بھی متعین کر سکتی تھی!

    جواب دیںحذف کریں
  4. جناب پیدا کرنا ان کا کام ہے جو اب بدمعاشی بھی کررہے ہیں۔ سپریم کورٹ کا کام اس بدمعاشی کے خلاف انصاف مہیا کرنا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں

براہ کرم تبصرہ اردو میں لکھیں۔
ناشائستہ، ذاتیات کو نشانہ بنانیوالے اور اخلاق سے گرے ہوئے تبصرے حذف کر دئیے جائیں گے۔