ایک کے بعد ایک، جیسے لائن میں لگی ہوئی آفتیں یکے بعد دیگرے وقوع پذیر ہورہی ہیں۔ اب کل کراچی میں پل گرگیا ہے۔ سنتے ہیں اپنے مشرف صاحب کے میگا پروجیکٹس، جن کا وہ تسبیح کی طرح ہی ہر انٹرویو میں ورد کیا کرتے ہیں یہ بھی حصہ تھا۔ اب ہوا کیا کہ این ایل سی کو بلیک لسٹ کردیا گیا ہے۔ چار پانچ لوگوں کو معطل کردیا گیا ہے۔ مرنے والوں کو امداد دی جارہی ہے ۔ اللہ اللہ خیر صلا
دو چار میں شور رہے گا پھر وہی پرانی صورت حال۔ سارا ناردرن بائی پاس دوبارہ تو بننے سے رہا۔۔اتنا حصہ پھر سے بن جائے گا اور کام پھر چلے گا۔ لیکن اس چیز کی کیا گارنٹی ہے کہ ایک حصہ گرگیا تو باقی حصے نہیں گریں گے۔ یہ پل تو دوبارہ بن جائے گا وہ چنے والا جو اپنے بچوں کا کفیل تھا، جس کے بچے یتیم ہوگئے ان کا کون سرپرست ہوگا اب۔ جو بیوائیں ہوگئیں ان کا کون رہ جائے گا۔ وہ پانچ پانچ لاکھ روپے؟؟
کراچی کے ناظم صاحب کو گلہ ہے کہ اس شہر کے 13 سرپرست ہیں اور یہ کہ انھیں اس پروجیکٹ کی ہوا بھی نہیں لگنے دی گئی، ان کے پاس ڈیزائن تک نہیں یہ وہ ۔ ہر کسی کو ایک دوسرے سے گلہ ہوگا۔۔اور ہم منہ دیکھیں گے الزام کس کو دیں۔۔۔
کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ یہ جو آفتوں کی قطار لگی ہوئی ہے یہ ہمارے اپنے اعمال ہیں۔۔ہم ہیں ہی اس قابل کہ ہمیں چھتر پڑیں اور پڑتے ہی چلے جائیں۔۔۔
بس یار کیا تبصرہ کروں.. کچھ الفاظ ہی نہیں مل رہے.. ان پلوں کو بنانے میں انہوں نے نہ جانے کتنے لوگوں کو بے گھر کیا ہے.. اور جو شہر نے ٹریفک جام کی تکلیفیں سہی ہیں وہ اس کے علاوہ ہیں.. مگر پھر بھی کمبختوں نے اپنا کام ایمانداری سے نہیں کیا..
جواب دیںحذف کریںمیں جانتا ہوں کہ اگر ایک حصہ کیا پورا کا پورا پل ہی گرجاتا تو پھر بھی کچھ نہیں ہونا تھا.. کجا کہ ہم ایک حصہ کو روئیں.. حصہ بن جائے گا.. کچھ عرصہ اور شیرشاہ والوں کو ٹریفک جام سہنا پڑے گا.. جہاں پہلے ہی سڑکیں پتھر کے زمانے کا نظارہ پیش کر رہی ہیں.. نئی حکومت آئے گی اور وہ کمپنی پھر کوئی اور پل بنا رہی ہوگی..
واقعی گناہ ہمارے ہی ہیں..
شاکر ابھی تک بڑے لوگ یہ تنقیدسُن رہے ہیں کچھ دنوں بعد بولیں گے کیا ہوا پُل تو امریکا میں بھی گرتے ہیں۔
جواب دیںحذف کریںاین ایل سی کو بلیک لسٹ نہیں کیا گیا، بلکہ اس فرم کو بلیک لسٹ کیا گیا ہے جس نے کنسلٹنسی فراہم کی تھی۔ سٹی ناظم کا شکوہ نیا نہیں اور ان کی حکومت کو اس سلسلے میں الزام دینا اسلئے غلط ہے کیونکہ نادرن بائی پاس قومی ہائے وے اتھارٹی نے تعمیر کیا تھا۔ اس کی تعمیر میں کسی شہری ادارے نے نہ حصہ لیا نہ کبھی ان سے کوئی رائے طلب کی گئی۔ گرچہ یہ منصوبہ ازبس ضروری تھا لیکن سوال یہ ہے کہ کراچی کے شہری ان آفات ناگہانی پر کس سے سوال کریں؟ یعنی حد ہوگئی اب راہ چلتے لوگوں پر پل گرنے لگے ہیں۔ عجیب بے حسی ہے۔
جواب دیںحذف کریںپانچ لاکھ روپے فی کس معاوضہ اتنا ارزاں ہے شہریوںکا قتل عام۔
ذلالت ہے یار یہ سب۔ اور سب ہمارے چپ رہنے کی وجہ سے ہے۔
جواب دیںحذف کریںیہ بات آپ کی بجا ہے مکی بھائی کہ ان پلوں اور سڑکوں کے لیے عوام کو جانے کتنی خواری سہنی پڑتی ہے۔ ہمارے ایک اوور ہیڈ بننا تھا، ساتھ کچی بستی تھی اس کو خالی کروانے کے لیے اچھے خاصے پاپڑ بیلنے پڑے تھے۔ کوئی اپنا گھر کیسے چھوڑتا ہے ایسے ہی تو نہیں چھوڑ دیتا۔
جواب دیںحذف کریںان کا کیا جاتا ہے بھئی، پیسے عوام کے لگ رہے ہیں۔۔۔خون پسینہ ان کا بہہ رہا ہے۔
Shukar hai mutalqa wazeer, sadar sahib, waseer e azam, army chief sub bhai log hain warna is haadsay ko bhee Punjab kee sazish qarar day diyya jata..۔۔۔
جواب دیںحذف کریںKarachi ka bera garq karnay walay Karachi say hee hain...
جواب دیںحذف کریںسارے ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں بھیا۔
جواب دیںحذف کریںوہ دن گئے جب پنجاب ہی قصور وار ہوتا تھا۔ پنجابی بھی تنگ ہیں اب تو حکومت سے۔
آپ اردو میں لکھتے تو مجھے خوشی ہوتی۔۔
پُل بنایا این ایل سی نے جو خالص فوجی ادارہ ہے ۔ بنوایا نیشنل ہائی وے اتھارتی نے جس کے سربراہ عرصہ دراز سے یکے بعد دیگرے جوجی جرنیل ہوتے ہیں اور جو پورا محکمہ فوجیوں سے بھرا پڑا ہے ۔ تعمیر کے دوران انسپیکشن کی ذمہ داری اسی ادارے کی ہوتی ہے ۔ مگر ان کو کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا ۔
جواب دیںحذف کریںفوجی بادشاہ جو ہوئے سرکار۔
جواب دیںحذف کریںکس کی مجال ہے جو کچھ کہہ دے۔