یوسف رضا گیلانی نے اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد تقریر کرتے ہوئے متعدد انقلابی تبدیلیوں کا اعلان کیا ہے۔ جیسے طلباء یونینز کی بحالی، میڈیا یونینز کی بحالی اور قبائلی علاقوں سے ایف سی آر کے خاتمے کا اعلان بلاشبہ تاریخی اقدامات ہیں۔ لیکن یہ اور اس طرح کے دوسرے اعلانات جو وزیر اعظم نے کیے ہیں ان کے لیے بہت دھیرج سے عمل درآمد ہوسکے گا۔ اعلانات تو ہوگئے ہیں لیکن ان کے لیے قانون سازی کرنا اور متبادل نظام لانا ایک بڑا چیلنج ثابت ہوگا۔ ایف سی آر اگرچہ کالا قانون تھا لیکن اس کے بعد قبائل عوام تھانہ کچہری کلچر بھی قبول نہیں کریں گے۔ اس کی بجائے وہ اپنے جرگہ سسٹم کو مزید فعال دیکھنا چاہیں گے۔ حکومت کو اس کا بہترین ممکن متبادل مہیا کرنا ہوگا ورنہ بات تعمیر سے تخریب کی طرف جاسکتی ہے۔ قبائلی علاقوں میں ڈیڑھ صدی سے موجود وہ مراعات یافتہ طبقہ جو پولیٹیکل ایجنٹ کہلاتا ہے اس صورت حال پر اچھا خاصا تلملائے گا اور اس کی مخالفت ضرور کرے گا۔
طلباء اور میڈیا یونینوں پر پابندی کا خاتمہ اچھی چیز ہے لیکن اس کے لیے بھی مناسب قانون سازی کی ضرورت ہے۔ ہمارا تو دور ہی گزر گیا دو سال انٹر کے اور دو سال گریجویشن کے اور ہمیں پتا ہی نہ تھا کہ یونین بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ لیکن اب الیکشنوں کا حکم دے دیا گیا ہے لیکن اس کے لیے مناسب ضابطہ اخلاق ضرور تشکیل دینا چاہیے۔ کہیں کالج اور تعلیمی ادارے سیاسی اکھاڑے ہی نہ بن جائیں۔ ہم ویسے بھی ہر معاملے کو بگاڑنے اور اس کی ممکنہ منفی حد تک لے جانے میں مہارت کاملہ رکھتے ہیں۔ پابندی تھی تو کیا حال تھا اب جانے کیا ہو۔۔۔
دعا ہے کہ جو وعدے کیے گئے ہیں ان پر عمل بھی کیا جائے۔
دعوے تو بڑے بڑے کیے ہیں مگر جناب نے یہ بتایا ہے کہ یہ سب کیسے ممکن ہوگا؟
جواب دیںحذف کریںاس سلسلے میں عوام اور سول سوسائٹی کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس منصوبے میں اعلان کردہ منصوبہ جات پر عمل درآمد کو یقینی بنوائے۔
جواب دیںحذف کریں