جمعہ، 12 دسمبر، 2008
اور اپگریڈ ہوگئی
شکریہ عمار۔
منگل، 9 دسمبر، 2008
دسمبر
تیری یادوں سے سُلگتا
ستم بر آرہا ہے
پھر دسمبر کے برف زاروں میں
تیری یادوں کی ارتھیاں اٹھائے
ہم بھٹکتے پھریں گے
پھر انھیں جلاتے جلاتے
خود کو شمشان بنا ڈالیں گے
اپنے آپ کو ہی جلا ڈالیں گے
اور تیری یادیں آسیب بن کر
پھر ہم سے چمٹ جائیں گی
پھر اک نیا سال ہوگا
پھر وہی فرقتوں کے غم ہونگے
پھر وہی انداز
تیرے اے صنم ہونگے
پیر، 8 دسمبر، 2008
پاکستان کے سینکڑوں سکالرزکو بیرون ملک جانے سے روک دیا گیا
پاکستان کے اعلیٰ تعلیم کے اداروں کو فنڈز اور سہولیات فراہم کرنے والے کمیشن ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے مالی بحران کے پیش نظر رواں سال غیر ملکی سکالرشپس حاصل کرنے والے سینکڑوں سکالرز کو بیرون ملک بھیجنے سے روک دیا، تمام سکالرز کو باقاعدہ طور پر آگاہ کر دیا گیا، سینکڑوں طلباء اعلیٰ کارکردگی، ٹیسٹ، انٹرویو کے بعد ایچ ای سی کی بیرون ملک ایم اے، ایم فل کی سکالرشپ حاصل کرنے کیلئے منتخب ہوئے تھے اور چند دنوں میں بیرون ملک روانہ ہونا تھا لیکن مالی طور پر غیر مستحکم ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے تمام سکالرز کو اپنے پروگرام ملتوی کرنے کے بارے آگاہ کر دیا کیونکہ ایچ ای سی فنڈز کی عدم دستیابی کی وجہ سے طلباء کی مالی امداد نہیں کر سکتا۔
رپورٹ کے مطابق چند سکالرز نے عید کے فوراً بعد سترہ اور اٹھارہ دسمبر کو بیرون ملک اعلیٰ تعلیم کے لئے روانہ ہونا ہے جبکہ اٹلی، جرمنی اور فرانس کی سکالرشپ حاصل کرنے والے درجنوں طلباء نے ضروری قرار دیا جانے والا چھ ماہ کا لینگجویجز کورس بھی مکمل کر لیا۔ ایچ ای سی کی طرف سے گزشتہ پانچ سالوں میں مالی بدعنوانیوں اور من پسند اداروں کو اربوں روپے کے فنڈز کی فراہمی کی وجہ سے سکالرشپ پر جانے والے طلباء کو مالی امداد فراہم کرنے میں ناکام ہو گیا۔
ایچ ای سی کے اعلیٰ افسر کے مطابق ادارہ بمشکل پہلے سے بیرون ملک بھیجے جانے والے طلباء کو مالی امداد فراہم کر رہا ہے جو دنیا کی بڑی جامعات اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں سکالرشپ پر اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں رپورٹ کے مطابق ایچ ای سی نے مالی بحران کی وجہ سے مستقبل میں بھی تمام سکالرشپس کے پروگرامز اور دو سو پچاس مختلف اکیڈیمک اور انفراسٹرکچر کے منصوبے بھی منسوخ کر دیئے ہیں اس وقت ایچ ای سی کو دس ارب روپے کے شدید مالی بحران کا سامنا ہے
القمر پر فائل ہونے والی یہ خبر بلاتبصرہ
جمعہ، 28 نومبر، 2008
لوڈ شیڈنگ پھر سے: اوقات پر واپسی مبارک
انجوائے لوڈ شیڈنگ و بے روزگاری۔
بدھ، 26 نومبر، 2008
طیارے گرانے کی صلاحیت ہے، نہیں ابھی حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں
کراچی ۔ پاک فضائیہ کے سر براہ ایئر چیف مارشل تنویر احمد نے کہا ہے کہ جاسوس طیاروں اور میزائل حملوں کوروکنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ فیصلہ حکومت کوکرنا ہے کہ وہ کس وقت ان صلاحیتوں سے فائدہ اٹھاتی ہے۔ یہ بات انھوں نے آئیڈیاز 2008ء نمائش میں میڈیا سے گفتگو کے دوران کہی۔ انھوں نے جے 17 تھنڈر کے بارے میں بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ پاک فضائیہ ایسی صلاحیت رکھتی ہے کہ وہ جاسوس طیاروں اور جدید ترین میزائلوں کو اپنی حدود میں نشانہ بنا سکے لیکن اس بارے میں پاکستان کی سیاسی قیادت کو فیصلہ کرنا ہے کہ آیا وہ حملہ آوروں سے جنگ کے لیے تیار ہے یا نہیں۔ انھوں نے کہا کہ ضرورت پڑنے پر پاک فضائیہ اپنی تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لائے گی۔
ہمارے وزیر دفاع صاحب اس کے بالکل الٹ فرما رہے ہیں۔ جیسا کہ وہ شروع سے ہی بیان دیتے آرہے ہیں کہ اتنی بلندی پر طیارے گرانے کی ہم میں صلاحیت نہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔
کراچی ۔ وزیر دفاع احمد مختار نے کہا ہے کہ پاکستان بلندی پر پرواز کرنے والے طیاروں کے خلاف کارروائی کے لیے ٹیکنالوجی کے حصول کی کوشش کر رہا ہے ۔ منگل کو یہاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس مقصد کے لیے دوست ممالک سے با ت چیت ہو رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ میزائل ٹیکنالوجی پروگرام کو بھی ترقی دی جائے گی۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے بہت بڑی قیمت ادا کی ہے اور اس میں 12 سوسیکورٹی اہلکار اور ساڑھے چار ہزار شہری جاں بحق ہوئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ القاعدہ سے سب سے زیا دہ خطرہ پاکستان کو لاحق ہے ۔ ایک سوال پر انھوں نے کہا کہ پی آئی اے کو ہونے والے نقصانات کے حوالے سے سابق انتظامیہ کے خلاف کئی بارکارروائی کے خلاف کئی بار کارروائی نہیں ہو سکی۔ ایک اور سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ دفاع بجٹ میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔
اب بتائیں کہ کس کی بات کا اعتبار کیا جائے؟
بدھ، 19 نومبر، 2008
سرجی
تو میں آج کل ٹیوشن پڑھا رہا ہوں۔ محلے کے ہی ایک دو بچے ہیں جو میرے پاس پڑھنے آتے ہیں۔ نالائق اتنے ہیں کہ بس حق ادا کردیتے ہیں اس صفت کا۔ بڑا بھائی دسویں میں ہے نویں کی دو عدد سپلیوں کے ساتھ، انگریزی اور ریاضی میں۔ اور میرے پاس ریاضی ہی پڑھتا ہے۔ ساتھ انگریزی کا بھی کبھی پوچھ لیتا ہے۔ آج کہنے لگا سرجی فیشن اور ڈریم پر پیرا گراف لکھ دیں گے؟
میں نے کہا کرنا کیا ہے کہتا پرچے میں ان میں سے ایک لازمی آجاتا ہے اس لیے یاد کرنے ہیں۔ میں نے کہا پائلٹ سپر ون سے کرلو تو بولا وہاں مشکل لکھے ہوئے ہیں۔ میں نے کہا مضامین کا کیا کرو گے تو بولا وہ سکول والے سر تین لکھ کر دے دیں گے جن میں سے ایک آجاتا ہے۔
پھر بولا کوئی خط نہیں مل سکتا جو سارے خطوں میں لکھا جاسکے۔ پندرہ خط ہیں، ایک لڑکے کے پاس ایسا خط تھا جو ہر مضمون پر پورا اترتا تھا اور اس نے انگریزی پاس بھی کرلی ہے۔
میں نے اس کی طرف دیکھا، سوچا اور پھر سر جھکا لیا۔۔ اور بولا ابھی تو نہیں لکھا لیکن دیکھتا ہوں شاید کسی سے مل جائے ایسا خط۔
یہ حقیقت ہے کہ بی اے تک ایسے ٹوٹکے چلتے ہیں۔ ایک خواب نامی مضمون میں ایکسیڈنٹ کو گھسیڑ کر دو مضمون بنا لیے جاتے ہیں۔ میں سڑک کے کنارے جارہا تھا کہ میں نے ایک بس کو آتے دیکھا۔ پھر ایکسیڈنٹ ہوا اور پھر آخر میں ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا پتا چلا یہ تو خواب تھا۔ اب اگر خواب والا آجائےتو سارا لکھ دو ورنہ آخری حصہ نکال دو۔ خط ایک ہوتا ہے، لیکن اس کا مضمون ایسا مبہم ہوتا ہے کہ پندرہ بیس عنوانات تلے آجاتا ہے۔ شاگرد خوش ہوجاتے ہیں، استاد کو پیسے مل جاتے ہیں اور پرچے بھی پاس ہوجاتے ہیں۔
اس سے مجھے اپنی بات یاد آگئی اگرچہ ہمارا حال اس لڑکےسے کچھ بہتر ہی تھا لیکن پیرے اور مضمون کا فرق نہ اس وقت پتا تھا نہ بی کام کرنے تک ہی پتا چلا۔ اب آکر پتا چلا ہے کہ پیرے کا مطلب ایک ہی پیرے میں سب لکھنا ہوتا ہے اور مضمون کئی پیروں پر مشتمل ہوتا ہے۔ پیرا کیسے لکھنا ہے، مضمون کیسے لکھنا ہے یہ یونیورسٹی میں آکر پتا چلا ہے، سٹڈی سکلز نامی ایک مضمون میں ورنہ ککھ بھی نہیں پتا تھا۔
ہمارا حال کیا ہے اور ہمارے مستقبل کا حال کیا ہے۔ اور ہم ترقی کے دعوے کرتے ہیں۔
جمعرات، 13 نومبر، 2008
55 وزیر
وڈے کچھ سنا اپنے 55 وزیر ہوگئے ہیں۔
چھوٹے نے وڈے سے کہا تو وڈا چونک گیا۔
55 وزیر واہ 55 وزیر
بھوکی ننگی قوم کے پچپن وزیر ہاہاہاہاہا
بھوکی ننگی قوم کے پچپن وزیر
وڈے نے گنگنانا شروع کردیا۔
چھوٹا پہلے تو حیران ہوا پھر ہولا ہاں بھوکی ننگی قوم ہی ہے۔
وڈا پھر بڑبڑایا ننگی قوم بھوکی ننگی قوم ننگ وطن ہاہاہا
ننگ وطن ننگ انسانیت ننگ ضمیر
بھوکی ننگی قوم کے پچپن وزیر
بھوکی ننگی قوم کے پچپن وزیر
ہاہاہاہاہا
بھوکی ننگی قوم کے پچپن وزیر
اور چھوٹا تاسف سے وڈے کو دیکھنے لگا۔ یہ تو کریک ہی ہوتا جارہا ہے۔
اوئے یہ کیا بک بک لگا دی ہے تم نے ۔ حکومت کا فرمان ہے کہ ان وزیروں کی تنخواہ ایم این اے سے بھی کم ہے۔
ہاہاہاہاہا
وڈے نے پھر قہقہہ لگایا ہاں۔ ان پر کونسا خرچ ہوگا۔ کونسا ہمارا ہوگا۔ باہر سے آئے گا۔
اللہ کے واسطے قرضہ دے دو۔ 17 کروڑ پاکستانیوں کی حکومت کے لیے قرضہ چاہیے۔ بھوکی ننگی قوم کی بھوکی ننگی حکومت، نہیں بھوکی ننگی نہیں ،امیر کبیر حکومت۔ امیر کبیر حکومت؟ وڈے نے خود سے سوال کیا۔
نہیں فقیر حکومت ہاہاہا فقیر حکومت۔ در در جاکر مانگتی ہے۔ ارے خدا کا واسطہ کوئی دو چار ارب ڈالر دے دو۔ ہمارے وزیروں مشیروں کی تنخواہیں دینی ہیں۔ الاؤنسز کم نہ پڑ جائیں۔ ارے تمہیں تمہارے جیزرز کرائسٹ کا واسطہ کچھ دے جا۔ کچھ دے جا سخیا۔ دیکھو اس قوم کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں بھوکے ہیں۔ سر پر چھت نہیں۔ آخر ان کی دیکھ بھال کون کرے گا۔ دے جا سخیا پاکستان کی حکومت کے لیے دے جا۔
دے جا سخیا اللہ دے ناں دا۔ دے جا سخیا اللہ دے ناں دا۔
وڈے نے پھر قہقہے لگانے شروع کردئیے۔
دے جا سخیاں وزیراں دے ناں دا۔ دے جا سخیا۔۔
اتوار، 2 نومبر، 2008
کون کہتا ہے اردو یتیم ہے
علوی امجد خدا کرے تمہاری دنیا اور آخرت ایسے سنورے کہ دیکھنے والے رشک کریں۔ بخدا میرے پاس الفاظ نہیں کہ میں اس بندے کی تعریف کرسکوں، میرے پاس شکریے کے الفاظ نہیں، جو کام اس بندے نے کردیا ہے وہ اردو کے لیے صدیوں پر محیط ایسی چھلانگ ہے جو اسے کہاں سے کہاں پہنچا دے گی۔ اب کوئی طعنہ نہیں دے سکے گا کہ اردو والے اردو کے لیے کچھ نہیں کررہے۔ جب تک ہم میں علوی امجد جیسے سپوت موجود ہیں اردو مر نہیں سکتی، بخدا اردو زندہ رہے گی اور اپنے مخالفین کے سینوں پر مونگ دلتی رہے گی۔ علوی امجد اور علوی نستعلیق زندہ باد۔
اگر آپ نے ابھی تک علوی نستعلیق اتار کر انسٹال نہیں کیا تو کتنی بڑی نعمت سے محروم ہیں آپ۔ ارے ابھی اتاریں، انسٹال کریں اور میرے بلاگ کا فائرفاکس میں مزہ لیں خالص اردو رسم الخط کے ساتھ، نستعلیق میں اسی نستعلیق میں جس کے آپ اخباروں، رسالوں اور تصویری اردو کی ویب سائٹس پر عادی ہیں۔ اب یہ سب کچھ ممکن ہے۔
انشاءاللہ یہ ابتدا ہے۔ ابھی ایسے کئی نستعلیق میدان میں اتریں گے اور دنیا اردو کا عروج انٹرنیٹ پر دیکھے گی۔
علوی امجد اور امجد نستعلیق کی بنیاد بننے والے خط رعنا فونٹ کے خالق فاروق سرور خان کا بہت شکریہ۔ اللہ ان کے دو جہانوں کو سنوار دے انھوں نے اردو کو سنوار دیا۔
یہ فونٹ لینکس پر ونڈوز سے بھی پیارا لگ رہا ہے۔ اوبنٹو پر فائرفاکس 3 میں مجھے ابھی تک کوئی مسئلہ نظر نہیں آیا جبکہ ونڈوز پر فائرفاکس میں ہی اردو محفل کے نیویگیشن بار کے روابط اوپر نیچے نظر آرہے تھے۔
جمعرات، 30 اکتوبر، 2008
جرم
سہ پہر کا وقت تھا، ٹیوشن پڑھا کر اوپر آیا تو نظر بجلی کے بل پر پڑ گئی۔ اٹھایا رقم پڑھی اور رکھ دیا۔ والدہ کہنے لگیں آج پکانے کے لیے کچھ نہیں دال لے آؤ۔
"حنیف سے لے آؤں"
"نہیں وہ کم دیتا ہے شیخوں سے دونوں مکس لے آؤ بیس کی"
اور میں شیخوں کی دوکان سے دال لینے چلا گیا۔ وہاں کچھ اور گاہک موجود تھے۔ ایک لڑکا جس نے کوئی سودا لیا اور چلا گیا۔ ایک بچی جو چھٹی ساتویں کی طالبہ لگتی تھی اپنی ننھی سی بہن کے ساتھ وہاں تھی۔
"وہ ناں ہمیں آج سودا دے دیں"
"پیسے"
"آپ کو پتا ہے ابو بیمار ہیں آپ ادھار دے دیں مہینے کے مہینے پیسے مل جاتے ہیں آپ کو پہلے بھی"
"لیکن اب دو ماہ سے پیسے نہیں ملے"
"اصل میں بھائیوں کی ابھی تنخواہ نہیں ملی"
"تمہارا بھائی تو اس دن میں موٹر سائیکل پر ملا تھا اور کہہ رہا تھا کہ کھاتے سے میرے ابے کا تعلق ہے میرا نہیں"
شیخ جی کے چہرے پر تمسخرانہ سے مسکراہٹ تھی، اور بچی کے چہرے پر لجاجت۔۔ اس دوران شیخ جی نے میرے ہاتھ سے پچاس روپے پکڑ لیے۔
"کیا لینا ہے"
"بیس کی مونگ مسور ملا کر دے دیں"
میں نے کہا اور انتظار کرنے لگا۔ اس بچی کے الفاظ میرے دماغ پر ہتھوڑوں کی طرح بجنے لگے۔
"آج کا سودا ادھار دے دیں پیسے مہینے کے آخر میں دے دیں گے"
"آج کا سودا ادھار دے دیں پیسے مہینے کے آخر میں دے دیں گے"
میں نے شیخ جی سے سودا پکڑا اور بقایا تیس روپے بھی پکڑے۔ ایک بار سوچا کہ یہ پیسے اس بچی کو دے دوں تاکہ ان کا چولہا جل جائے۔ پھر میرے سامنے میرے گھر کے خرچے آگئے۔ فلاں چیز لانی ہے، فلاں چیز لانی ہے۔ بجلی کا بل 5 روپے 65 پیسے فی یونٹ کے حساب سے 333 کا 2400 روپے دینا ہے۔ میں نے اس بچی پر ترحم آمیز نگاہ ڈالی اور سرجھکا کر چلا آیا۔
شاید میری مجبوری تھی، یا زمانے کی بے رحمی تھی، لیکن میں اپنی نظروں میں گر گیا۔ میرے اندر اتنا دکھ بھر گیا کہ اگر میں اسے ان الفاظ کی صورت میں نہ ڈھالتا تو جانے کیا ہوجاتا۔
جمعہ، 17 اکتوبر، 2008
پٹرولیم پر ٹیکس
پچھلے دنوں ایک پوسٹ میں پٹرولیم پر حکومتی ٹیکس کا ذکر کیا تو بدتمیز نے تبصرے میں کہا کہ حکومت اتنا ٹیکس نہیں لے رہی۔ آج جنگ میں یہ خبر پڑھی تو سوچا شئیر کرتا چلوں۔
کراچی (اسٹاف رپورٹر) حکومت نے ہائی اسپیڈ ڈیزل پر بھی11 روپے سے زائد فی لیٹر ٹیکس وصول کرنا شروع کردیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمتوں میں بڑے پیمانے پرکمی کے باوجود حکومت نے وعدے کے مطابق عوام کو ریلیف فراہم نہیں کیا بلکہ پیٹرولیم مصنوعات کو ٹیکس وصولی کا بڑا ذریعہ بنا لیا ہے۔ 16 اکتوبرکو حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات میں کمی کرنے کی بجائے انہیں سابقہ سطح پر برقرار رکھنے کا اعلان کرتے ہوئے اپنے ٹیکس کی شرح بڑھا دی ہے۔ 15 اکتوبرکے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے تحت حکومت ہائی اسپیڈ ڈیزل پر16 فیصد کی شرح سے 10.94 روپے فی لیٹر سیلز ٹیکس اور33 پیسے فی لیٹر پیٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی پی ڈی ایل وصول کررہی ہے۔ اس طرح ڈیزل پر ٹیکس کی شرح 11 روپے سے بڑھ گئی ہے۔ لائٹ ڈیزل پر یہ شرح 13.55 روپے فی لیٹر ہے۔ نئے نوٹیفکیشن کے تحت پیٹرول کے ایک لیٹر پر عائد پی ڈی ایل کی شرح 25.12 فی لیٹرکردی گئی ہے جوکہ پاکستان میں فی لیٹر پیٹرول پر آج تک عائد ہونے والی پی ڈی ایل کی سب سے زیادہ شرح ہے۔ پیٹرول پر 11.26 روپے کے سیلز ٹیکس کو شامل کرنے سے ایک لیٹر پیٹرول پر حکومتی ٹیکس کی شرح 36.38 روپے تک جا پہنچی ہے اگر اس میں کسٹمز ڈیوٹی کو شامل کیا جائے تو یہ40 روپے فی لیٹر سے بھی بڑھ جائے گی۔ ایچ او بی سی پر حکومت نے پی ڈی ایل کی شرح 23.37 روپے سے بڑھاکر30.51 روپے فی لیٹرکردی ہے۔ سیلز ٹیکس کے ساتھ ایچ او بی سی پر ٹیکس کی شرح 43.76 روپے فی لیٹر تک پہنچ گئی ہے۔کسٹمز ڈیوٹی کے ساتھ یہ شرح 50 روپے سے بھی بڑھ جاتی ہے۔ پیٹرولیم سیکٹر سے اس بڑے پیمانے پر ٹیکس وصولی کے باوجود حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ وہ عوام کو ریلیف دینے کیلئے سبسڈی دے رہی ہے۔
پیر، 13 اکتوبر، 2008
آلو کا بھرتہ
طریقہ:- سب سے پہلے آلوؤں کو اچھی طرح دھو لیں۔ اس کے بعد ڈنڈا لیں اور انھیں کسی سل پر رکھ کر کچل لیں۔
لیجیے بھُرتہ تیار ہے۔
چونکہ اب یہ آپ کے کسی کام کا نہیں اس لیے اسے تیسرے جزو ترکیبی یعنی مرغیوں کو ڈال دیں۔ ان کا بھی بھلا ہوجائے گا آپ کو بھی گناہ نہیں ہوگا۔
احتیاط: وہ خواتین و حضرات جن کے پاس مرغیاں نہ ہوں اس ڈش سے پرہیز کریں۔ ان کے ہاں ایک تو نعمت کے ضیاع کا خدشہ ہے ساتھ گناہ بھی ہوگا۔
نوٹ: احتیاط پر عمل نہ کرنے کی صورت میں مصنف، ویب سائٹ اور انتظامیہ ذمہ دار نہ ہونگے۔
مزید تراکیب کے لیے ہمارے ساتھ رہیے۔
اتوار، 12 اکتوبر، 2008
ایچ ای سی یتیم ہوگیا
اس پر کئی اعتراضات بھی تھے کہ اعلی تعلیم پر توجہ دے کر بنیادی تعلیم کو نظر انداز کردیا گیا۔ فنڈز گویا لٹائے گئے۔ لیکن یہ اپنی طرز کی ایک منفرد کوشش تھی جس میں لوگوں کو ڈاکٹریٹ اور ایم فل کے لیے زیادہ سے زیادہ متوجہ کرنے کی کوشش کی گئی اور اس سکیم کے تحت ہزاروں لوگ زیر تعلیم ہیں۔
اب دیکھیے اعلی تعلیم کا مستقبل کیا ہوتا ہے۔
منگل، 30 ستمبر، 2008
اور کل عید ہے
خیر کمینی سی خوشی ہی سہی لیکن خوشی تو ہے۔
ایک بار پھر عید مبارک۔۔۔ ان کو جن کی ابھی نہیں ہوئی۔:D
پیر، 29 ستمبر، 2008
بدھ، 17 ستمبر، 2008
ہفتہ، 13 ستمبر، 2008
پاکستان ایک بار پھر کشکول اٹھائے
اس وقت پاکستانی معیشت پھر سے دس سال پہلے والی پوزیشن پر کھڑی ہے۔ پچھلے ڈیڑھ سال سے ہونی والی ایجی ٹیشن، دہشت گردی کے خلاف جنگ اور متحدہ بحرانوں نے معیشت کا جنازہ نکال دیا ہے۔ شوکت عزیز حکومت جس نے بڑے فخر سے کہا تھا کہ ہم نے کشکول توڑ دیا (جو اصل میں آئی ایم ایف سے چھٹکارے پر کہا گیا تھا ورنہ پاکستان عالمی بینک، ایشیائی بینک اور دوسرے ایسے اداروں سے اس کے بعد بھی قرض لیتا رہا ہے)۔ اب وہی کشکول پھر سے اٹھائے ہم کبھی ایک کی طرف دیکھ رہے ہیں کبھی دوسرے کی طرف۔
تیل کی سٹے بازی نے ہماری معیشت کا بھرکس نکال دیا اور اس وقت پاکستان اندرون و بیرون ملک اربوں ڈالر کا مقروض ہے۔ اندرونی جانب بجلی پیدا کرنے والے آزاد اداروں کا مقروض (کوئی ایک سو بیس ارب روپے کسی اخبار میں پڑھے تھے) اور بیرونی طرف سعودی عرب جیسے ممالک کے تیل کے بل کا۔ وزیر خارجہ اور دوسرے کئی لوگ حتی کہ ابتدائی دنوں میں نواز شریف اور زرداری جی نے بھی سعودیہ کا دورہ کیا تاکہ کچھ مہلت حاصل کی جاسکے۔
ہمارا روپیہ تاریخ کی کم ترین سطح پر ہے، سٹاک مارکیٹ میں سے غیر یقینی حالات کی بنا پر غیر ملکی سٹے بازوں نے روپیہ نکال لیا ہے۔ افراط زر اس ماہ 25 فیصد کی شرح تک پہنچ چکی ہے۔ جس کی وجہ سے چیزوں کی گرانی انتہائی حدوں کو چھو رہی ہے۔
پانی کی کمی مرے پر سو درے ہیں۔ اس بار بارشیں ہونے کے باوجود دریاؤں میں پانی کم ہے اور پنجاب کے لیے بری خبر یہ کہ اس کو پچاس فیصد تک کم پانی ملنے کا خدشہ ہے۔ یعنی اگلی گندم کی فصل کے لیے پانی کی عدم دستیابی۔ اس بار بھی اکثر علاقوں میں کسانوں نے چاول اس امید پر کاشت کرلیے کہ بارشیں ہورہی ہیں۔ لیکن شیخوپورہ کے اردگرد (میرے ننھیال) کے علاقے میں زمینیں بارش کو ترستی ہی رہ گئیں۔ یہ علاقہ کبھی نہری پانی سے اچھا خاصا سیراب ہوا کرتا تھا اب پانی کے کھال آدھے سے بھی کم بھرے ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے کسانوں کو مہنگا ڈیزل خرید کر فصلوں کو ٹیوب ویل کا پانی دینا پڑتا ہے۔ ان علاقوں میں چاول کی فصل کی نگہداشت بہت مشکل سے ہوپارہی ہے۔
اور آئی ایم ایف کی ٹیم پاکستان پہنچ گئی ہے۔ ان کا مقصد کیا ہے۔ سب کے سامنے ہے۔ کچھ قرض دینے کے لیے یہ لوگ اپی ڈھیروں شرائط منوائیں گے۔ جن میں (بشمول منافع بخش) حکومتی اداروں کی نجکاری، سبسڈی کا خاتمہ، ٹیکسوں میں اضافہ اور غیر ترقیاتی اخراجات میں میں کمی جیسی چیزیں شامل ہونگی۔ اس بار ترقیات بجٹ ویسے بھی کم رکھا گیا ہے، مزید کم خسارہ کم کرنے کے چکر میں ہوجائے گا۔
قبائلی علاقوں میں جاری جنگ اور امریکی حملوں نے سرمایہ کاری کا بیڑہ غرق کردیا ہے۔ سرمایہ دار زرافے کی سی خصلت والا جانور ہے جو خطرے کو کئی میل دور سے ہی محسوس کرکے بگٹٹ بھاگ لیتا ہے۔ پاکستان میں یہ حال ہے کہ یہاں سے سرمایہ دھڑا دھڑ دبئی اور یورپ منتقل ہورہا ہے۔ پچھلے سالوں میں اربوں ڈالر دبئی کی رئیل اسٹیٹ میں لگ چکے ہیں، وہاں ہمارے سرمایہ کار ٹھیکیداری کررہے ہیں، بزنس کررہے ہیں اور یہاں عوام مکانوں کو ترس رہے ہیں۔
بجلی کا بحران ابھی مزید سنگین ہوگا۔ اگلے ایک سال میں لوڈ شیڈنگ ختم کردینے کے دعوے پورے ہوتے نظر نہیں آرہے۔ ابھی ستمبر ہے مجھے خدشہ ہے کہ اکتوبر کے وسط سے ہی سردیوں کی لوڈ شیڈنگ شروع ہوجائے گی۔ اور یہ 8 دس گھنٹے نہیں 16 سے 20 گھنٹے تک کی لوڈ شیڈنگ ہوگی۔ وجہ پانی کی کمی ہوگی۔ لوڈ شیڈنگ پر قابو پانے کے لیے جو ہنگامی انتظامات کیے جارہے ہیں ان میں سرفہرست کرائے کے بجلی گھروں کی فراہمی ہے۔ لیز پر لیے گئے یہ پلانٹ اچھے خاصے مہنگے پڑیں گے۔ جتنی ان کی لیز ادا کی جائے گی اتنے میں شاید نیا پلانٹ مہیا ہوجائے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ متعلقہ مینوفیکچررز سے نئے ٹربائن دستیاب ہی نہیں اور اس کا واحد حل یہ ہے کہ ڈیزل اور مٹی کے تیل سے چلنے والے کرائے کے ٹربائن حاصل کیے جائیں۔ ان سے بجلی کی کمی تو پوری ہوجائے گی لیکن اس کا اثر قیمتوں، معیشت اور صنعت پر کیا پڑے گا وہ اظہر من الشمس ہے۔ انڈیا کی طرز پر ہمیں کوئی بھی ایٹمی توانائی دینے کا نہیں۔ لے دے کر ایک چین رہ جاتا ہے۔ کاش ہمارے حکمران چین سے ایٹمی ٹیکنالوجی حاصل کرسکیں۔ صدر صاحب پہلا دورہ چین کا فرما رہے ہیں اللہ کرے اس میں دس بارہ ایٹمی ری ایکٹرز کی بات بن جائے۔ ایٹم بم تو ہم نے چوری کرکے بنا لیا لیکن ایٹمی توانائی سے بجلی بنانے کے معاملے میں ابھی بہت پیچھے ہیں۔ توانائی کے لیے ایران پاکستان، وسطی ایشیائی ریاستوں سے اور قطر سے گیس کی درآمد کو بھی جلد از جلد حتمی شکل دی جائے۔ پاکستان کے پاس اگلے بیس برس میں ملکی گیس کے نام پر شاید کچھ ہی بچے۔ استعمال تو پہلے ہی ہورہے تھے لیکن اب پٹرول کی بجائے گیس پر انحصار بہت زیادہ بڑھ گیا ہے یعنی گیس اتنی ہی جلدی ختم بھی ہوجائے گی۔
ہمیں متبادل ذرائع توانائی پر بھی غور کرنا ہوگا۔ شمسی توانائی ایک بہترین آپشن ہے۔ اگر اس سلسلے میں اقدامات اٹھائے جائیں تو بحران آدھے سے بھی کم رہ سکتا ہے۔ لیکن یہ سب تب ہی ہوسکتا ہے جب ہم مخلص ہوں اور اس جنگ سے ہماری جان چھوٹے۔ یوں لگ رہا ہے جیسے یہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ہمارے منہ سے نوالے بھی چھین لے گی۔
بدھ، 10 ستمبر، 2008
ٹیکس، ٹیکس اور ٹیکس
پچھلے دو ماہ سے ہم ٹیکس بھر رہے ہیں۔ پہلے پراپرٹی ٹیکس آیا اڑھائی مرلے کا مکان اور دو دوکانیں جن کا کرایہ 1500 ماہانہ ہے پر سال میں 3300 روپیہ ٹیکس وصول کرتی ہے حکومت۔
اس کے بعد صدر کی روزگار سکیم سے لیا گیا چنگ چی لوڈر رکشہ، جس کی ٹوکن فیس اور فٹنس فیس مبلغ 2425 روپے ادا کرنے کا حکم آگیا ہے۔ ابھی اس کی قسط کے پیسے کسی نہ کسی طرح پورے کیے تھے اور ٹیکس کا مژدہ آگیا۔
یہ تو انفرادی حال ہے۔
اجتماعی حال بجلی پر کتنے سرچارج اور ٹیکس وصول کیے جارہے ہیں۔ ستر کی دہائی کے مشرقی پاکستان کے سیلابی متاثرین سے لے کر نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ تک کا فی یونٹ ٹیکس ہم بھرتے ہیں۔
سیلز ٹیکس سولہ فیصد کردیا گیا ہے جو ہر چیز پر نافذ ہے۔
بجلی پر پہلے سبسڈی دی جاتی تھی اب وہ بھی ختم کردی گئی ہے چناچہ پچھلے ماہ سے بلوں میں سولہ فیصد جی ایس ٹی بھی شامل ہے۔
اگلے ماہ سے اکتیس فیصد اضافہ مزید متوقع ہے۔ یعنی ہمارا بل جو پچھلے ماہ 1600 تھا اس بار 2000 آیا اور اگلی بار 2500 کے اریب قریب ہوگا۔
موبائل فون کے ریٹس پر 21 فیصد جی ایس ٹی وصول کیا جارہا ہے۔ چناچہ دو منٹ میں ہی دس روپے کٹ جاتے ہیں۔
پٹرولیم پر اچھا خاصا ٹیکس فی لیٹر وصول کیا جارہا ہے جو کسی بھی طرح بیس روپے سے کم نہیں۔
اور انھی ٹیکسوں پر عوام کی حکومت چل رہی ہے۔ اور عوام بس ہورہے ہیں۔
ہفتہ، 6 ستمبر، 2008
صدارتی انتخاب، ججوں کی دوبارہ حلف برداری
منگل، 2 ستمبر، 2008
اک "براؤزر" ہور
شاید اب جنگِ براؤزراں مزید دلچسپ ہوجائے۔ وجہ اس بیان کی یہ ہے کہ انٹرنیٹ ایکسپلورر، فائر فاکس، اوپیرا اور سفاری کے بعد اب وڈّے پاء جی نے بھی میدان میں آنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اور حسب معمول یہ براؤزر – جیسا کہ کمپنی کی پالیسی ہے- آنے والے 23 برسوں تک کے لیے بطور بی ٹا جاری کردیا جائے گا۔ نام کروم Chrome ہے۔اور گوگل کا یہ ویب براؤزر ویب کٹ پر مشتمل ہے۔ ویب کٹ ایک انجن ہے جو ایچ ٹی ایم ایل وغیرہ کرو رینڈر کرنے میں مدد دیتا ہے۔
حسب معمول و توقع اسے عمومی انداز میں متعارف کروانے کی بجائے گوگل نے یہ خبر باوثوق ذرائع کے ذریعے جاری کروائی ہے۔ یہ ویب کامک یہاں دیکھا جاسکتا ہے۔ 38 صفحات کے اس کامک میں گوگل نے براؤزر اور پروجیکٹ کے بارے میں تمام تفاصیل مہیا کی ہیں۔ ایک آزاد مصدر ویب براؤز بنام کروم Chrome
کچھ خصوصیات واقعی لائق توجہ ہیں۔ جیسے اس کا نیا جاوا سکرپٹ انجن وی 8 جو کثیر عملی(بیک وقت ایک سے زیادہ عمل کاری ) کا ڈیزائن استعمال کرتا ہے، شاید اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ پورے براؤزر کو چھیڑے بغیر انفرادی صفحات کو انفرادی طور پر ہی ختم کرسکتے ہیں۔ اس کے لیے میموری کی کچھ قربانی البتہ دینا پڑتی ہے۔ ایک بلاگ پوسٹ میں گوگل نے مزید وضاحت کی کہ ہر صفحے کا اپنا ریت خانہ ہے یعنی اپنی دنیا جس میں طوفان آنے سے دوسرے کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔
اس میں وہی عام خصوصیات جیسے اینٹی فشنگ سے بچاؤ، ٹیب وغیرہ موجود ہونگی۔ اس کا ونڈوز ورژن آج جاری کیا جانا ہے جبکہ لینکس اور میک ورژن بعد میں آئیں گے۔ سکرین شاٹس پہلے ہی منظر عام پر آچکی ہیں۔ اور اس کا مواجہ دیکھ کر لگتا ہے جیسے گوگل کی بٹن اور ونڈو کے بارے میں اپنی ہی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد ہے۔ ایسے ہی میکنٹوش نے سفاری کے ساتھ کیا تھا۔
پیر، 1 ستمبر، 2008
ہفتہ، 30 اگست، 2008
صدارت اور آصف علی زرداری
بطور صدارتی امیدوار آصف علی زرداری کی عوام میں غیر مقبولیت کو اب ایک اور انداز میں ایک کالم نگار پیش کررہے ہیں۔ پی پی پی کو ایک ہی چیز کی فکر ہے اور وہ ہے کہ 12 سال کے بعد جو اقتدار ملا ہے اس پر ہر طرف سے گرفت مضبوط کرلی جائے۔ باقی ستے خیراں ہیں۔ ججوں کو بھی پی سی او کے تحت بحال کیا جارہا ہے۔ زرداری جی جن کے نازک کندھوں پر پورے ملک کی ذمہ داری ہے اب ایوان صدر میں بیٹھ کر اسے بہ احسن سرانجام دے سکیں گے۔
مجھے تو یہ سمجھ نہیں آتی جب صدر ایک علامتی عہدہ ہے، صرف وفاق کی علامت تو اس کے لیے زرداری جی اتنے کشٹ کیوں اٹھا رہے ہیں۔ اپنی بے عزتی خراب کروارہے ہیں اور پارٹی کی الگ درگت بن رہی ہے۔ صدر بن کر زرداری کو کیا مل جائے گا؟ صدر پی پی پی کا ہوجائے گا، ایوان صدر سے کوئی مداخلت نہیں ہوسکے گی، پانچ سال کی آئینی مدت پوری ہونے کے امکانات روشن ہوجائیں گے۔ وغیرہ وغیرہ اس کے جواب ہوسکتے ہیں۔ سوال یہ ہے اگر سترہویں ترمیم ختم کردی جاتے ہے تو صدر کی طرف سے مداخلت کا خدشہ پھر بھی ختم ہوجاتا ہے۔ لیکن اب یہ ختم نہیں ہوگی۔ زرداری صاحب اب گولف کھیلنے اور تقاریب کا افتتاح کرنے تو جائیں گے نہیں۔ کوئی دھوم دھڑکا پاس ہونا چاہیے چاہے وہ 58-2بی ہی ہو۔
اوپر ذکر کیے گئے کالم نگار مخالفت کو پھر پنجابی اسٹبلشمنٹ کی کارستانی قرار دے رہے ہیں۔ پنجاب نے یہ کردیا، پنجاب نے وہ کردیا۔ اب پنجاب ایک چھوٹے صوبے سے صدر بھی نہیں بننے دے رہا۔ میرا ذاتی طور پر خیال تھا کہ پی پی پی اب بلوچستان سے صدر لائے گی۔ جو سندھ سے بھی زیادہ مستحق صوبہ ہے۔ لیکن وائے قسمت وڈے سائیں راضی نہ ہوئے۔ کھٹک تو اسی وقت لگ گئی تھی جب موصوف نے ضمنی انتخابات نہ لڑے اور 3 ماہ کے وزیر اعظم بعد میں بھی حاضر سروس رہے۔
ن لیگ سے اتحاد واقعی غیر فطری تھا اور اسے ختم ہونا ہی تھا۔ لیکن پارٹی کا طرز عمل اور زرداری جی کے لارے لپوں نے نواز شریف کو یہ سب پہلے ختم کرنے پر مجبور کردیا۔ پی پی پی کی فکر کہ اقتدار مضبوط ہوجائے امید ہے چھ ماہ کے بعد اگلے ماہ مُک ہی جائے گی۔ اب دیکھتے ہیں معیشت کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔ سعودی عرب سے قرضے کی بات بھی ہوگئی ہے۔ عالمی بینک بھی "امداد" دے رہا ہے۔ امید ہے اس بھیک سے کچھ عرصہ تو گزرے گا ہی۔
جمعہ، 29 اگست، 2008
اسلام اور موسیقی از مولانا شاہ محمد جعفر پھلواروی
پیر، 18 اگست، 2008
بابا مشرف (مرحوم)
لو جی بابا مشرف مواخذے کے ڈر سے مستعفی ہو ہی گیا۔ بقول اس کے پارلیمنٹ کو چلتا بھی کیا جاسکتا تھا اور سپریم کورٹ کو پھڈے میں ملوث بھی کیا جاسکتا ہے لیکن اس نے احسان عظیم کرتے ہوئے سب سے پہلے پاکستان کو رکھ کر استعفے کا فیصلہ کیا۔
آہ!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!
تیرے جانے کے بعد تیری یاد آئی۔ اب یاد آیا کرے گی اچھا بندہ تھا کم لوٹا اب والے زیادہ تجربہ کار لٹیرے ہیں۔
اس استعفے پر پی پی پی کو تو صدر کا عہدہ مل گیا۔ ہمیں کیا ملے گا۔ آٹا، بجلی، گیس اور ضروریات زندگی سستی ہوجائیں گی؟ یہ سب اس حکومت پر منحصر ہے جس کے گوڈوں میں پانی نظر نہیں آتا۔
اب دیکھ لیتے ہیں کہ جج بحال ہوتے ہیں ان سے یا نہیں۔ یا پھر وہی مشاورت مشاورت کھیلنا شروع ہوجاتے ہیں یہ لوگ۔
گڈ بائی بابا مشرف جی۔ اب اگر عدالتی ٹرائل ہوجائے تو موج ہی ہوجائے پھر مزید کسی آمر کو جرات نہ ہو ایسا کرنے کی۔ پر نہیں۔ لگتا تو یہی ہے کہ اسے چپکے سے باہر نکال دیا جائے گا اور جب فوت ہوگا تو اسے گارڈ آف آنر اور پرچم مہیا ہوگا۔
اتوار، 17 اگست، 2008
14 اگست
سیٹیوں کی عجیب و غریب بین کرتی ہوئی کریہہ آوازیں، جیسے بچہ رو رہا ہو۔
موٹر سائیکلوں کے سائلنسر سے نکلنے والا ناقابل برداشت اور نفرت انگیز شور، جو کان میں پڑتے ہی غصے کی لہر پیدا کررہا تھا۔
اور پٹاخے، چھوٹے بڑے اور درمیانے چلتے ہوئے پٹاخے، جو مرے پر سو درے کی طرح چاروں طرف سے یکساں آواز میں نازل ہورہے تھے۔
سونے پر سہاگہ اس کا دوست، جس نے اسے دیکھ کر آواز دے لی۔
"ہاں بھئی شہزادے کیا تیاری کی ہے جشن آزادی کی"۔ حسب توقع چھوٹتے ہی اس نے سوال کیا۔
جواب میں وہ کچھ لمحے بے تاثر انداز میں اسے دیکھتا رہا پھر بولا "تُو بتا تیرے پاس کیا تیاری ہے"۔
اور جواب میں اس کے دوست نے جیب سے ایک سیٹی نکال کر بجائی۔ بین کرنے کی کریہہ آواز اطراف میں پھیلتی چلی گئی۔
"اس بار یہ سیٹیاں چل رہی ہیں جشن آزادی پر شہزادے اس لیے میں نے بھی لے لی ہے۔ ورنہ تو ہمارا اصل آئٹم تو موٹر سائیکل والا ہوتا ہے۔ اس بار بھی سائیلنسر نکلوا لیا ہے۔ پٹاخے موجود ہیں۔"
"بس؟"
"ہاں اس بار جھنڈے والی شرٹ بھی سلوا لی ہے۔ شام کوکمپنی باغ چلیں گے پہن کر۔ ذرا موج میلا ہوجائے گا۔" اس کے دوست نے معنی خیز انداز میں آنکھ ماری اور بھونڈے انداز میں ہنسنے لگا۔
"مجھ سے پوچھے جارہا ہے، اپنی بتا تُو تو کئی دن سے پروگرام بنا رہا تھا"۔
"کچھ نہیں یار بس ساری تیاری ختم ہوگئی"۔
"کیوں؟ خیر تو ہے؟"
"بس یار آج ابے نے پٹاخے دیکھ لیے۔ اس نے میرے پٹاخے چلا دئیے"۔
"اوہو افسوس ہوا سن کر۔ میرا ابا کچھ نہیں کہتا۔ جو مرضی کرو۔ وہ تو کہتا ہے یہی دن انجوائے کرنے کے ہوتے ہیں۔ بچوں کو تنگ نہیں کرنا چاہیے۔ "
"بس یار میرا ابا عجیب قسم کا اباہے۔ کبھی تو لگتا ہے میرا ابا ہے ہی نہیں۔ کہتا ہے اگر جشن آزادی منانی ہے تو پڑھو۔ پڑھ کر ملک کی خدمت کرو۔ اور اچھے اچھے کام کرو۔ اس کے خیال میں یہ سارے کام اچھے کام نہیں"۔ آخری جملے پر اس کا لہجہ کٹیلا ہوگیا۔
"چل شہزادے تو فکر نہ کر۔ پٹاخے بھی مل جائیں گے۔ اور موٹر سائیکل تو اپنی ہے ہی تو بھی ساتھ آجا۔ کمپنی باغ چلتے ہیں۔ آنکھیں ٹھنڈی کرنے کئی سجن بیلی ہونگے وہاں ۔" اس کے دوست نے اس کے کندھے پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔ اور وہ بھی ابے کے چھتر بھول کر مسکرا دیا۔ پھر دونوں 14 اگست "منانے" کی تیاری کرنے لگے۔ ایک بار پھر بین کرنے جیسی سیٹی کی آواز ابھرنے لگی۔ جیسے وطن اپنی حالت پر بین کررہا ہو۔
جمعرات، 14 اگست، 2008
جشن آزادی مبارک
اللہ کریم اس ملک پر اپنا لطف و کرم رکھے۔ رات گیارہ بجے لاہور میں ایک خودکش بم دھماکے میں 10 افراد کے جاں بحق ہونے کی اطلاع ہے۔
اتوار، 3 اگست، 2008
کمی کمین
لاہور میں وزیر اعلٰی شہباز شریف کے آنے کے بعد پولیس والوں نے بھی پارکوں اور باغوں سے فحاشی سے خاتمے کے لیے پھر سے مہم شروع کردی ہے۔ جوڑوں کو سرعام روک کر بے عزت کیا جاتا ہے۔ شادی ہالوں میں جاکر جوتے لگائے جاتے ہیں۔ تو باہر بھی تو ان کی ٹور ہونی چاہیے۔ آخر یہ ملک ان کے مامے کا ہے اور ہم کمی کمین غریب غرباء جنھیں جو چاہے آکر دبا دے، استحصال کردے، ظلم کرے۔ کون پوچھنے والا ہے۔
خاور کھوکھر نے غلطی کی۔ اسے تو چاہیے تھا جاپان میں بیٹھا ہے تو چپ چاپ بیٹھا رہے۔ یہ تو محفوظ ہے۔ خواہ مخواہ میں پنگا لے بیٹھا۔ اب بھی وقت ہے وڈوں سے معافی مانگ لے اور آئندہ ایسے کاموں سے توبہ کرلے۔
ہفتہ، 2 اگست، 2008
ٹیگ ٹیگ اور ٹیگ
احباب پچھلے دو ماہ سے ٹیگ ٹیگ کھیل کر ہلکان ہوئے جاتے ہیں۔ میں ہوتا تو جنگلوں میں نکل جاتا سب چھوڑ چھاڑ کر۔ اتنی دیر میں تو ٹیگ بھی اک گئے ہونگے۔ مودبانہ گزارش ہے کہ پوسٹ لکھیں اور اس میں ایک دوسرے کی متعلقہ پوسٹ کے روابط دینے کی عادت ڈالیں۔ خیر ہمیں بھی ابوشامل نے کانٹوں سوری ٹیگوں میں گھسیٹ لیا سو ونگار پوری کررہے ہیں۔
ونڈوز یا لینکس؟
دونوں
ہالی وڈ یا بالی وڈ؟
دونوں ہی۔
پیپسی یا کوک؟
جو مل جائے
کراچی یا لاہور؟
فیصل آباد ;)
سیب یا انگور؟
غریب آدمی کو تو جو سستا مل جائے
پاپ یا راک؟
جس کا گانا پسند آجائے ورنہ ہلکے پھلکے رومانوی گانے و غزلیں۔
چائے یا کافی؟
چائے ہی۔
نہاری یا حلیم؟
حلیم کبھی کبھار۔
فورمز یا بلاگ؟
دونوں
دوست یا کزن؟
دوست
کرکٹ یا فٹ بال؟
کرکٹ
پرسکون یا پریشان؟
منحصر بہ وقت
چونکہ یہ کھیل ہر جگہ پھر چکا ہے اس لیے ہمیں مزید کوئی بندہ یاد نہیں آرہا۔ کسی نے تو اسے بند کرنا ہی تھا ہم بند کررہے ہیں۔ ابوشامل کے ٹیگ شدگان باقی چار اسے آگے بڑھانا چاہیں تو بسم اللہ۔۔۔
جمعہ، 1 اگست، 2008
ایک واری فیر
قدیر کی طرح ہم تڑی دے کر انٹرنیٹ سے نہیں بھاگتے بس کچھ حالات ایسے ہوجاتے ہیں کہ ۔۔۔۔۔۔
کبھی سرور اڑ جاتا ہے، کبھی تھیم خراب ہوجاتا ہے اور اتنے میں ہمارا موڈ خراب ہوجاتا ہے۔ تین ماہ کی غیر حاضری کے بعد ہم پھر سے حاضر ہیں اور امید ہے کہ اب حاضر ہی رہیں گے۔
سنا ہے ہمارا انٹرویو شنٹرویو کرنا ہے وڈے لوگوں نے۔ اپنا سوال نامہ بھیجو بھئی ہم بھی انٹرویو دیں آخر دو سال پرانے بلاگر ہیں اور اب "کھنڈز" میں شمار ہوتے ہیں۔
کھنڈ کی سمجھ نہ لگے تو کسی پنجابی دوست سے پوچھ لیجیے گا۔ اردو میں اس کا بڑا لمبا سا بنتا ہے سرد و گرم چشیدہ شاید....
خیر بلاگ تو بن گیا ہے مہربانی نبیل نقوی کی ہے جنھوں نے اردو کوڈر کو سپیس فراہم کی۔ شکریہ پاء جی۔ مزید یہ کہ کوئی اللہ والا ایک عدد لوگو بنا دے ہمارے نام کا۔ اوپر سائیڈ بات میں لوگوں نظر آرہا ہوگا اس کے سائز کا ہم تاعمر مشکور رہیں گے۔ خود سے نہیں کریں گے تو ہم خود جا دھمکیں گے تب تو کرنا ہی پڑے گا اس لیے ایسے ہی کردیں تو بہتر ہے۔ ;)
وسلام
جمعرات، 10 اپریل، 2008
اردو کوڈر آنلائن ہے
اردو کوڈر فورم کو ایس ایم ایف پر منتقل کردیا گیا ہے۔ نیا ربط یہ ہے۔ urducoder.com سے ری ڈائرکشن اب نئے ربط پر ہی ہوتی ہے۔
شاکر القادری صاحب کا شکریہ انھوں نے باوجود تکلیف میں ہونے کے پی ایچ پی بی بی 3 کا اردو پیکج بھی جاری کردیا لیکن میں نے جمہوری اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے قدیر، محب اور نبیل کے مشورے کو مدنظر رکھا۔ پرانے فورم کا ڈیٹا کامیابی سے منتقل کرلیا گیا ہے لیکن کچھ نہ کچھ ڈیٹا ضائع ضرور ہوا ہے جس کا ثبوت آنے والے کچھ ایررز تھے۔ لیکن مجھے امید ہے کہ غیر اہم قسم کا ڈیٹا ہوگا۔ اراکین فورم سے درخواست ہے اگر وہ کسی بھی قسم کی مشکل پائیں تو مجھ سے رابطہ کریں اور میں آگے رابطہ کروں گا ;) :D
استعمال کریں اگر یہ کام نہ کرے تو پی ایچ پی بی بی 3 تو ہے ہی۔
بدھ، 9 اپریل، 2008
منظرنامہ
کراچی میں صورت حال بگڑنا شاید اب معمول بن جائے۔ پہلے مہاجر قومی موومنٹ کو سامنے لایا گیا۔ اب وکلاء کو ایک فریق کے طور پر ابھارا گیا ہے۔ پچھلے ایک سال کی جدوجہد نے وکلاء کو بھی اپنے ہونے کا احساس دلا دیا ہے۔ اور یہ احساس کسی بھی وقت منفی صورت میں ظاہر ہوسکتا ہے۔ ملیر بار کو جلانا، وکلا کے دفاتر کو جلانا کسی "نامعلوم" کی کاروائی نہیں۔ متحدہ کو مشرف دور میں جس سکھ کا سانس ملا تھا اور انھوں نے پورے ملک میں تنظیم سازی کرنے کی سوچی تھی وہ سکھ انھیں اب نصیب نہیں ہوگا۔ انھیں پھر سے کراچی کی پسوڑی ڈال دی گئی ہے۔ یہ تو طے ہے کہ متحدہ سندھ حکومت میں شامل ہوگی۔ چاہے ماہانہ بنیادوں پر ہی اختلافات جنم لیں لیکن نچلا بیٹھنا متحدہ کی عادت نہیں۔ دوسری صورت میں سندھ اسمبلی تو کراچی میں ہی ہے اور ویسے بھی ملک کی ساری تجارت اسی کے راستے ہوتی ہے۔ چناچہ متحدہ کراچی میں بیٹھ کر ہی پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت کو پڑھنے پا سکتی ہے۔
کراچی سے باہر اگر کوئی ذرا پرسکون علاقہ ہے تو وہ پنجاب ہے۔ اس میں ق لیگ نے بسم اللہ کردی ہے۔ شیر افگن جو پہلے ہی ذہنی بیماری کا بہانہ کرکے سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس سے بچا تھا اب زیادہ زہریلا ہوجائے گا۔ جوتے جس نے بھی مارے، کام اس نے خوب کیا سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ ق لیگ نے پنجاب اسمبلی کا بائیکاٹ کردیا ہے۔ یعنی صوبائی اسمبلی میں اس دوران ہونے والی کوئی بھی قانون سازی بغیر کسی بحث کے اور بغیر کسی اعتراض کے ہوجائے گی۔ شیر افگن نے میانوالی کے عوام کو لاہوریوں کے خلاف بھڑکانے کی کوشش بھی کرڈالی ہے۔ عوام تو ہیں ہی جذباتی اس کا نتیجہ اب وقت ہی بتائے گا۔
ان دو واقعات نے عدلیہ کی بحالی سے نظریں ہٹا دی ہیں۔ ایک عام آدمی کی حیثیت سے اگر میں دیکھوں تو وہ چیزیں جن پر فوکس ضروری تھا پس پشت چلی گئی ہیں۔ آٹے کا بحران پھر سے سر اٹھا رہا ہے۔ غذائی اجناس کا مسئلہ جوں کا توں ہے۔ پانی، بجلی کے بحران بھی وہیں ہیں۔ مجھے تو یوں لگتا ہے کہ ایک بار پھر نوے کی دہائی کی سیاست شروع ہوگئی ہے۔ وہی کنجر خانہ۔ بس چہرے وہ نہیں رہے لیکن ان کا کردار وہی ہے۔
اس ساری صورت حال سے جرنل (ر) پرویز مشرف مغرب کو ایک بار پھر شاید باور کرانے میں کامیاب ہوجائے کہ اس تھرڈ ورلڈ ملک کے تھرڈ کلاس لوگوں کے لیے جمہوریت زہر قاتل ہے۔ دیکھا میں نہ کہتا تھا یہ لوگ جمہوریت کے قابل ہی نہیں۔ انھیں "حقیقی" جمہوریت ہی چاہیے جو صرف میں ہی مہیا کرسکتا ہوں۔ او آئی سی کی سربراہ کانفرنس تھی تو جنرل صاحب یہاں بیٹھے رہے اب سیاستدانوں کو لڑوا کر آرام سے چھ روزہ سرکاری دورے پر چین سدھار رہے ہیں۔ پیچھے وزیر اعظم تحقیقاتی کمیٹیوں کا اعلان کرتے پھریں اور آٹھ سالہ دور اقتدار کا گند دھونے کے لیے منصوبے بناتے رہیں۔ جناب کے دوروں کے ریکارڈ میں 6 روز اور شامل ہوجائیں گے۔
میں کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کروں
اس کا نام گل خان تھا۔ اور اس کے ساتھی لڑکے کا نام اخلاق احمد۔ کل شام ساڑھے سات کے قریب اس دوکان پر ڈاکوؤں نے حملہ کردیا۔ ندیم اسلم جیولرز منصور آباد کے اچھے خاصے مشہور اور کھاتے پیتے جیولرز ہیں۔ پہلے بھی ایک بار ڈکینی کی کوشش ہوچکی تھی جس کی وجہ سے انھوں نے دو محافظ رکھ چھوڑے تھے۔ لیکن یہ محافظ بھی کچھ نہ کرسکے۔ درندوں نے سب سے پہلے انھیں مزاحمت پر گولیاں ماریں۔ پھر دوکان کے شوکیس توڑ کر زیورات اور نقدی نکال کر فرار ہوگئے۔ گل خان اور اخلاق احمد موقع پر ہی جاں بحق ہوگئے تھے۔ جبکہ ایک گاہک خاتون کی ٹانگ میں گولی لگی۔
پولیس نے ملزموں کی گرفتاری کے لیے تین ٹیمیں تشکیل دے دی ہیں۔ لیکن وہ کہاں پکڑے جاسکتے ہیں۔ اگر پکڑے بھی گئے تو گل خان اور اخلاق احمد کے گھر والوں کو ان کے سپوت لوٹا سکیں گے؟ ان کے قتل کا ذمہ دار کون ہے؟ وہ معاشرہ جس کی بدولت وہ اتنے مجبور ہوگئے کہ اپنی جان داؤ پر لگا کر دوسروں کو سیکیورٹی فراہم کریں؟ یا وہ درندے جو انسانیت کے نام پر دھبہ ہیں؟ ان کے بچوں اور گھر والوں کی کفالت کون کرے گا؟ دونوں شاید پردیسی تھے۔ دور کہیں کسی علاقے میں بیٹھے ان کے عزیز جنھوں نے دو وقت کی روٹی کی امید میں انھیں اتنی دور جانے دیا تھا اب ان کے بے جان لاشے وصول کر جانے کتنا روئے ہونگے۔۔۔ کون ذمہ دار ہے اس سب کا؟ شاید ہم سب۔ :(
ہفتہ، 5 اپریل، 2008
اردو کوڈر فورم کا نیا فورم سافٹویر
خیر بات یہاں پہنچتی ہے کہ محمد علی مکی تو بسلسلہ روزگار آنلائن آنے سے معذور ہیں آج کل۔ تو نیم حکیم یعنی ہماری ذات شریف ہی پیچھے رہ جاتی ہے جسے فورم کی انتظامیہ کہا جائے۔ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ فورم کا سافٹویر بدل دیا جائے۔ اس کے لیے دو سافٹویرز ہمارے زیر غور ہیں۔ پی ایچ پی بی بی تین جس کی بہترین مثال القلم ہے اور سمپل مشین فورمز جس پر اردو ٹیک فورمز بہترین طریقے سے چل رہے ہیں۔ پی ایچ پی بی بی کی ایک ساکھ ہے جبکہ ایس ایم ایف فورمز سافٹویر اپنی سادگی لیکن پرکاری کے لیے جانا جاتا ہے۔ اب آپ فرمائیں کہ نیا فورم سافٹویر کونسا ہو۔ فورم کی ڈیٹابیس ہم نے دونوں میں بدل کر دیکھ لی ہے۔ دونوں سافٹویرز بہترین چل رہے ہیں۔ ایس ایم ایف نے منتقلی کے دوران کچھ ایررز دئیے تھے لیکن میری آزمائشی تنصیب میں بہترین چل رہا ہے۔ ایک بات اور ایس ایم ایف کا ورژن 2 جلد ہی آرہا ہے (لیکن وہ اردو کردہ نہیں ابھی تک جبکہ پی ایچ پی بی بی 3 اردو شدہ موجود ہے۔ )۔ نیچے ہم اپنے بلاگ کا پہلا پول فٹ کررہے ہیں۔ رائے دیجیے تاکہ جلد از جلد اردو کوڈر کو پھر سے آنلائن کیا جاسکے۔پول 10 تاریخ تک آنلائن رہے گا اور پھر اس کے مطابق فیصلہ کرکے انشاءاللہ 10 کو ہی فورم آنلائن کردیا جائے گا۔
[poll=2]
جمعہ، 4 اپریل، 2008
بارشیں، بجلی اور غذائی اجناس
پچھلے ایک سال سے پاکستان شدید غذائی بحران میں مبتلا ہے اور یہ بحران آئندہ بڑھتا ہی نظر آرہا ہے۔ عالمی سطح پر بھی اسی قسم کی پیش گوئیاں کی جارہی ہیں کہ دنیا بڑے غذائی بحران کا شکار ہوسکتی ہے۔ پاکستان میں تو پہلے ہی صورت حال بہت خراب ہے۔ آٹے کا بحران پھر سے سر اٹھا رہا ہے۔ کراچی میں فلور ملوں کا کوٹہ کم کردیا گیا ہے۔ میرے ایک عزیز بتا رہے تھے کہ آٹے کا تھیلا لینے کے لیے سارا دن ذلیل ہوا ہوں پوری کالونی میں کسی بھی دوکان پر آٹا نہیں تھا۔ فیصل آباد میں متوسط طبقے کے لوگ یوٹیلٹی سٹور سے آٹا لینے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ہمارے گھر کے قریب واقع سٹور پر پچھلے کئی ہفتوں سے آٹا نہیں آیا۔
کل رات سے فیصل آباد میں لوڈ شیڈنگ ختم کردی گئی ہے۔ سات سے آٹھ تک بند رہنے والی بجلی صرف چند منٹ بند رہ کر دوبارہ آگئی۔ آج بھی 9 سے 10 تک کے لیے بجلی بند نہیں ہوئی۔ شاید ڈیموں میں پانی وافر مقدار میں آچکا ہے۔ لیکن اس کی قیمت شاید ہمیں گندم اور دوسری فصلوں کے بحران کی صورت میں ادا کرنی پڑے۔ اس سال کپاس کی فصل بھی ہدف سے کم حاصل ہوگی۔ گندم کی فصل کو تو دوہرا صدمہ اٹھانا پڑا ہے۔ جنوری میں پڑنے والی سردی کی شدید لہر نے گندم کے پودے ہی جلا ڈالے۔ کہتے ہیں سردی کا بہترین علاج ہے کہ فصل کو پانی دے دیا جائے۔ اس سے درجہ حرارت معتدل ہوجاتا ہے۔ لیکن اس وقت پانی کہاں تھا۔ ڈیم تو بیوہ کی مانگ کی طرح خالی تھے۔ اب بارشیں ہورہی ہیں تو گندم کی فصل پھل دینے کے لیے تیار ہے۔ اسے اس وقت گرمی کی ضرورت ہے لیکن ان بارشوں سے اتنی ٹھنڈ ہوگئی ہے کہ مجبورًا دوہرا کھیس لے کر سونا پڑ رہا ہے پھچلے دو تین دن سے۔ ورنہ کمرے میں سونا ہی محال ہوتا جارہا تھا اس سے پہلے ۔
ملک کی آدھی آبادی اور چورانوے اضلاع خوراک کے بحران کا شکار ہیں۔ پھچلے ایک سال میں آٹے کی قیمت 28 فیصد اور چاول کی قیمت 48 فیصد بڑھ چکی ہے۔ مجھے یاد ہے آج سے صرف دس سال پہلے تک میرے نانا اور ماموں کے گاؤں اور آس پاس کے علاقے میں چاول کثرت سے کاشت کیا جاتا تھا۔ میں سانگلہ ہل کے علاقے کی بات کررہا ہوں جو فیصل آباد سے لاہور جاتے ہوئے شیخوپورہ سے کچھ ادھر واقع ہے جنکشن ہے اور اچھا خاصا شہر بن چکا ہے۔ لیکن اب پانی کی کمی کی وجہ سے چونا (چاول کی فصل چُونا نہیں چونا پیش کے بغیر) کاشت کرنا موقوف کردیا گیا ہے۔ بہت کم جگہ سے چاول کی سوندھی خوشبو اٹھتی محسوس ہوتی ہے۔
آنے والا وقت نہ جانے ہم پر کیسی آزمائشیں لارہا ہے۔ لیکن اس کا دیباچہ ہی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے۔ پاکستان، چین، افغانستان، بھارت، نیپال اور بھوٹان جیسے ممالک ہمالیہ کے گلئیشیرز سے نکلنے والے دریاؤں سے پانی حاصل کرتے ہیں۔ عالمی موسمی تبدیلیوں نے ان کے پگھلنے کی رفتار کو بہت تیز کردیا ہے۔ ایک طرف جہاں بنگلہ دیش جیسے علاقے سطح سمندر بلند ہونے سے ڈوب جائیں گے وہاں پاکستان جیسے علاقے پانی نہ ہونے کی وجہ سے شدید غذائی بحران کا شکار ہوجائیں گے۔ دنیا کے قریبًا تین ارب افراد ان ممالک میں رہتے ہیں۔ ہمالیہ کی جھیلیں جو گلیشئیرز کے پگھلنے سے وجود میں آتی ہیں اپنی گنجائش سے زیادہ بھر رہی ہیں اور آئندہ پانچ سے دس برس میں یہ اپنے کناروں سے چھلک کر کروڑوں لوگوں کو نقل مکانی پر مجبور کردیں گی۔ اربوں ڈالر کی املاک تباہ ہوجائیں گی اور شدید سیلابوں سے ایک وسیع علاقہ زیر آب آکر تباہ ہوجائے گا۔ جس حساب سے یہ گلیشئیر پگھل رہے ہیں لگتا ہے ہمالیہ کا دامن ان سے خالی ہوجائے گا۔ پھر بارشیں ہوا کریں گی اور سیلاب کی صورت میں سمندروں کی نذر ہوجایا کریں گی۔
پاکستان کو اپنے پانی کے ذخائر کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ورنہ ہمارے پلے ککھ نہیں رہے گا اور پاکستان سے زندہ بھاگ جیسے نعرے سچ ثابت ہوجائیں گے۔ اس وقت ڈیموں کی تعمیر جنگی بنیادوں پر کرنے کی ضرورت ہے۔ سندھ کے زیریں علاقوں کے رہنے والوں کو اعتراض ہے کہ پانی روکنے سے ڈیلٹا کا علاقہ تباہ ہورہا ہے۔ اوپر والے یہ شور مچاتے ہیں کہ اتنا پانی ضائع ہوجاتا ہے۔ اس سلسلے میں ایک وسیع مذاکرے کا اہتمام ہونا چاہیے۔ ڈیم ضرور بننے چاہیئں چاہے ان سے نہریں نہ نکلیں بلکہ پانی واپس دریا میں ہی ڈال دیا جائے تو کچھ برا نہیں۔ پاکستان میں ابھی سے نظر آرہا ہے کہ پانی ایک مخصوص وقت میں وافر مقدار میں ہوتا ہے اس کے بعد کوئی چار ماہ ہمیں ہاتھ ملنا پڑتے ہیں۔ مجھے یاد نہیں پچھلے دس سال میں کبھی ڈیم اس طرح خالی ہونے کے بارے میں سنا ہو۔ تربیلا اور منگلا کی گنجائش تیزی سے کم ہورہی ہے۔ گار اور مٹی نے ان کی جھیلوں کی گنجائش بہت کم کردی ہے۔ کبھی کبھی میں سوچا کرتا ہوں اگر ان کی بھل صفائی ہی کردی جائے تو بہت سی گنجائش نکالی جاسکتی ہے۔ لیکن یہ خالی ہی تو نہیں ہوجاتے۔ ڈیڈ لیول تلے پانی ہوتا تو ہے جو کہ اچھا خاصا ہوتا ہے۔ تاہم ان کی صفائی کرنا ناممکن نہیں ہونا چاہیے۔ اگر اس کا کوئی طریقہ نکل آئے تو ہم شاید آئندہ بحرانوں کو کچھ وقت کے لیے ٹال سکیں۔
وقت بہت تیزی سے ہمارے خلاف ہوتا جارہا ہے۔ اگر ہم نے اس کے ساتھ چلنے کی کوشش نہ کی تو ہمیں اس کی بہت بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔ کاش یہ بات ہماری سمجھ میں آجائے۔ کاش ہم کچھ کرلیں، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے۔
ہفتہ، 29 مارچ، 2008
وزیراعظم کا سو ایام کا پلان
طلباء اور میڈیا یونینوں پر پابندی کا خاتمہ اچھی چیز ہے لیکن اس کے لیے بھی مناسب قانون سازی کی ضرورت ہے۔ ہمارا تو دور ہی گزر گیا دو سال انٹر کے اور دو سال گریجویشن کے اور ہمیں پتا ہی نہ تھا کہ یونین بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ لیکن اب الیکشنوں کا حکم دے دیا گیا ہے لیکن اس کے لیے مناسب ضابطہ اخلاق ضرور تشکیل دینا چاہیے۔ کہیں کالج اور تعلیمی ادارے سیاسی اکھاڑے ہی نہ بن جائیں۔ ہم ویسے بھی ہر معاملے کو بگاڑنے اور اس کی ممکنہ منفی حد تک لے جانے میں مہارت کاملہ رکھتے ہیں۔ پابندی تھی تو کیا حال تھا اب جانے کیا ہو۔۔۔
دعا ہے کہ جو وعدے کیے گئے ہیں ان پر عمل بھی کیا جائے۔
جمعرات، 27 مارچ، 2008
اوپن سوسی کے ساتھ پہلا دن
خیر انسٹالیشن کے بعد لاگ ان ہوئے اور کوئی ستر بار تو کوشش کرہی لی ہوگی ریزولوشن بدلنے کی لیکن مجال ہے جو 1024 ضرب 768 سے ایک انچ آگے پیچھے ہوجائے۔ اصل میں ونڈوز پر تو یہ ٹھیک ہے لیکن لینکس پر ہمارا گرافکس کارڈ مسئلہ کرجاتا ہے اور سکرین ایک طرف کو چلی جاتی ہے اور سکرین کا سائز بھی کافی چھوٹا ہوجاتا ہے جیسے ونڈوز پر 800 بائی 600 کی ریزولوشن پر ہوتا ہے۔ اوبنٹو پر گسٹی کے بعد ریزولوشن بدلنے کا بڑا اچھا سسٹم آگیا تھا سوسی کو ابھی تک کوئی توفیق نہیں ہوئی۔
خیر اس کو بھی چھوڑتے ہیں ہم ایک کچھ کرلیں گے اس کا ایک طرف ایک پینل لگا دینے سے شاید کام بن جائے اوپن سوسی کا ورژن 11 جلد ہی آرہا ہے شاید وہاں معاملہ ٹھیک ہوجائے۔ آگے کی سنیے ہمیں پیکج منجر کی سمجھ نہیں آرہی تھی۔ یاسٹ اپنے پلے تو نہیں پڑاعجیب سی چیز ہے۔ جی ٹی کے میں اس کا موجہ ہے اور سوسی والوں نے سارا کے ڈی ای کنٹرول سینٹر اس میں گھسیڑ دیا ہے۔ سارے سسٹم کی کنفگریشن یہیں سے ہوسکتی ہے لیکن سافٹویر کا انتظام مجھے پسند نہیں آیا۔ ہم تلاش میں تھے کہ ایڈوانسڈ پیکجنگ ٹول مل جائے کہیں سے۔ آخر ہمیں آفیشل دستاویزات سے اس کا ایک حل مل ہی گیا ہے۔ انشاءاللہ آج رات بیٹھ کر ہم اسے اور سنیپٹک کو انسٹال کرلیں گے۔اس کے بعد سسٹم کو اپڈیٹ کریں گے تاکہ کچھ کام کا سلسلہ بن سکے۔
اس میں وہی پرانا مسئلہ ہے فائر فاکس کا جو کبھی اوبنٹو میں تھا دو سال پہلے جس کی وجہ سے اردو کے فونٹس ٹھیک رینڈر نہیں ہوتے تھے۔ مجھے نعمان کے بلاگ پر ایک بار پھر جانا ہوگا لگتا ہے۔ لیکن پہلے اپگریڈ کروں گا سسٹم کو شاید کام بن جائے ایسے ہی ورنہ پھر پینگو کو ڈس ایبل کروں گا۔
دعا کیجیے اس کا اور میرا ساتھ بن جائے۔ میں اس بار بڑے خشوع و خضوع سے اوبنٹو کو چھوڑ کر آیا ہوں۔ ورنہ اس کی چاٹ ایسی لگی ہے کہ کوئی اور ڈسٹرو ایک دن سے زیادہ میرے پاس ٹکی ہی نہیں۔ ایک آپس کی بات بتاؤں لینکس میں میرا سب سے زیادہ تجربہ اے پی ٹی استعمال کرنے کا ہے اور اوبنٹو کو بار بار انسٹال کرنے کا۔ اور کچھ نہیں آتا مجھے۔ باقی ادھر ادھر سے ٹیوٹوریل پکڑ کر گزارہ کرلیا کرتا ہوں۔ ;)
منگل، 25 مارچ، 2008
امید
نئی حکومت آگئی ہے اور ہر کسی کی طرح مجھے بھی اس حکومت سے ہزاروں توقعات وابستہ ہیں۔ بجلی سستی ہوجائے گی۔ آٹا ملا کرے گا۔ گیس بھی سستی ہوجائے گی۔ گھی کے ایک کلو کے لیے گھنٹوں خوار نہیں ہونا پڑے گا اور لوڈ شیڈنگ ختم ہوجائے گی نیز جج بحال ہوجائیں گے۔ سمجھ لیں ہر وہ کام جو "ہو" سکتا ہے مملکت خداداد میں اور ہم اس کے "ہونے" کے منتظر ہیں مجھے اس کے"ہونے" کی اس نئی حکومت سے امید ہے۔
لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ امید کتنی درست ہے۔ لگا تو ہم لیتے ہیں۔ جاوید چوہدری کے ایک کالم میں اس نے کچھ ایسی ہی بات کی کہ ہر نئے وزیراعظم کے آنے پر لوگ نئے سرے سے اس کی شان میں بھجن گانا شروع ہوجاتے ہیں لیکن جب وہ چلا جاتا ہے تو انداز کلام بدل جاتا ہے اور الفاظ الٹ ہوجاتے ہیں میں نے تو یہ کہا تھا لیکن اس نے سنی ہی نہیں ۔۔۔۔
امید لگانا درست ہے لیکن بے جا امیدیں لگانا اور پھر خون جلانا بے کار ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ اس وقت ملک کی معیشت کی جو حالت ہے اس میں ریٹ اوپر تو جاسکتے ہیں نیچے آنے کا دور دور تک کوئی امکان نہیں۔ ہمیں ترقیاتی بجٹ میں کٹوتی ک"ا اشارہ" مل چکا ہے۔ ہماری برآمدات اور درآمدات کا فرق ہر ماہ نئی بلندیاں دیکھتا ہے۔ توانائی کے بحران نے ہماری صنعت کا بیڑہ غرق کردیا ہے۔ لے دے کر ایک کراچی اسٹاک ایکسچینج ہے جو نئی حکومت کے آنے پر تیزی دکھا سکتی ہے لیکن کراچی سٹاک ایکسچینچ سے ہمیں کیا فرق پڑتا ہے؟ ہاں خزانہ بھی بھرا ہوا ہے لیکن ان ڈالروں سے ہم اپنا مزار بھی نہیں بنوا سکتے یہ اسی طرح خزانے شریف میں سڑتے رہیں گے۔
چناچہ امید ذرا ہولی رکھیے۔ جج تو بحال ہوجائیں گے انشاءاللہ۔ لیکن نچلی سطح پر انصاف کا بول بالا شاید ہی ہوسکے۔ جانے کب تک مزید کچہریوں میں جھوٹے مقدمات میں برسوں ذلیل ہونا پڑے گا ابھی۔ گھی بھی دستیاب ہونا شروع ہوجائےگا لیکن یہ بھول جائیں کہ اس کی قیمت سو روپے سے کم ہوگی۔ بجلی کی قیمت میں اضافہ اور لوڈ شیڈنگ میں کمی کا ہونا بھی کوئی مستقبل قریب کی بات نہیں لگتی۔ اس میں "ترقی" ہی نظر آتی ہے۔
امید لگائیے لیکن ایسی نہیں کہ بعد میں خون جلانا پڑے۔ یہی حقیقت ہے کہ یہ حکومت اگر اتفاق سے ایماندار نکل بھی آئی تو اس جیسی کئی حکومتیں درکار ہونگی ہمیں ساٹھ سال کا گند دھونے کے لیے۔
پیر، 24 مارچ، 2008
الحمد اللہ
کاش ہماری اعلٰی عدلیہ کی طرح نچلی سطح پر موجود منصف بھی ٹھیک ہوجائیں۔ہمارا نظام انصاف بہت بگڑ چکا ہے اتنا کہ پھوڑے سے ناسور بن گیا ہے۔ مقدمے بازی کا مطلب ہے کہ آپ کے پاس جو کچھ ہے وہ عدالتی کارندوں کو جمع کروا دیں۔ ہمارے ایک عزیز ایک دو ناجائز مقدموں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ فرماتے ہیں ہر بار قریب کی تاریخ لینے کے لیے بھی رشوت مانگتے ہیں۔ پچھلی بار دوسرا فریق آیا ہی نہیں اور انھیں پھر تاریخ قریب کی ڈلوانے کے لیے رشوت دینا پڑی۔۔
اتنی مہنگائی اور کاروبار میں بے تحاشا مندی کے ساتھ ایسے خرچے ۔۔۔ غریب آدمی کیسے جی سکتا ہے۔۔ اب گیس والوں نے بھی فی یونٹ ساڑھے تین روپے اضافے کی درخواست اوگرا کو دے دی ہے۔ گیس کا بل جو کبھی ڈیڑھ سو سے زیادہ نہیں آیا کرتا تھا پچھلے چار پانچ سالوں میں تین گنا ہوچکا ہے۔ اور آگے جانے کتنا بڑھے گا۔
ملک میں افراط زر نے متوسط طبقے کے لیے حساس اعشاریوں کو خطرناک حدوں تک پہنچا دیا ہے۔ عام آدمی کی قوت خرید اس بری طرح متاثر ہوئی ہےکہ دوکاندار سارا دن بیٹھ کر مکھیاں مارا کرتے ہیں۔ لیکن کیا کریں کھانا تو ہے ڈیڑھ سو روپے کلو مرچ نہیں لے سکتے لیکن سو روپے کلو کے قریب ریٹ کی کوئی سبزی تو لینی ہی ہوگی جو پاپی پیٹ کی آگ بجھا سکے۔
پتا نہیں ترقی کہاں ہوئی ہے ہمیں تو کہیں نظر نہیں آتی۔ اتنی بھوک میں نے اپنی اس مختصر سی زندگی میں پہلی بار دیکھی ہے۔ گھی کے ایک پیکٹ کے لیے گھنٹوں کی خواری، کبھی آٹے کے ایک تھیلے کے لیے ذلالت مقصد صرف یہ کہ کچھ پیسے بچ جائیں۔ دل خون کے آنسو روتا ہے۔
عالمی سطح پر توانائی اور خوراک کے بحران نے اس صورت حال کو مہمیز کیا ہے۔ تیل تو جو مہنگا تھا سو مہنگا تھا ہی گھر کی توانائی بھی کم پڑتی جارہی ہے۔ بجلی اب صرف 20 گھنٹے کی رہ گئی ہے اور یہ پنجاب کے شہری علاقوں کی بات ہے کراچی اور دوسرے دیہی علاقوں میں یہ 20 گھنٹے بھی نہیں آتی۔ ملک کو پچھلے آٹھ سالوں میں ڈنگ ٹپاؤ پالیسی پر چلایا گیا ہے۔ ان آٹھ سالوں کا خمیازہ جانے ہمیں کتنے عشرے بھگتنا پڑے۔
ہمارے ملک میں ذرائع رلتے پھرتے ہیں لیکن کسی کو خیال نہیں۔ میں کئی بار یہ سوچ چکا ہوں اور اپنے دوستوں سے ذکر بھی کرچکا ہوں کہ ہمارے پاس اتنی دھوپ ہوتی ہے کہ کئی کالاباغ ڈیم بھی اتنی بجلی پیدا نہیں کرسکتے۔ اگر شمسی توانائی کی ٹیکنالوجی حاصل کرنے کی طرف توجہ دی جائے تو کیا بعید ہے کہ ایک دو سال میں ہی بجلی کا بحران غائب ہوجائے۔ لگژری کے لیے قرضہ دیا جاتا ہے، الم غلم خریدنے کے لیے کریڈٹ کارڈز موجود ہیں کیا اس کام کے لیے بینک قرضے نہیں دے سکے؟ یہ ٹیکنالوجی ابھی مہنگی ہے لیکن اس کے فوائد بھی تو دیکھیں۔ متبادل توانائی بورڈ چند پائلٹ پراجیکٹ شروع کرکے جانے کہاں غائب ہے۔ آٹھ دس پون چکیاں اور ایک آدھ گاؤں میں شمسی بجلی کے لیے پائلٹ پراجیکٹ چلانے سے توانائی کا بحران کم تو نہیں ہوجائے گا۔ ہمارے حکمران ساری دنیا سے کشکول اٹھائے بھیک مانگتے پھرتے ہیں ایک بار یہ بھی مانگ لیں۔
میں جارہا ہوں
جمعرات، 20 مارچ، 2008
عید۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا دعوٰی کسے نہیں ہے؟ سب کو ہے مجھے بھی ہے۔ ہر سال کوئی نیا شوشہ ہی چھوٹتا ہے اس معاملے میں۔ اب پچھلے کچھ عرصے سے محفل نعت منعقد ہوتی ہے جس میں ایک خوش نصیب کو عمرے کا ٹکٹ بذریعہ قرعہ اندازی دیا جاتا ہے۔ کیا عشق کے لیے عمرے کا ٹکٹ ضروری ہے؟
جن کوٹھوں پر چند دن پہلے بسنت کے نعرے لگائے گئے تھے اور رات بھر غل غپاڑہ کیا گیا انھی پر اب سبز جھنڈے لگا دئیے گئے۔۔۔یہ کیسا عشق ہے جو سبز جھنڈے لگانے، رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی جوتی والے نقش سینے پر لگانے اور نعرے لگانے تک محدود ہے؟
آج رات تو مجھے یوں لگا جیسے یہ 12 ربیع الاول کی شب نہیں شب قدر ہے۔ سرکاری ٹیلی وژن پر ایک سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کانفرس ہورہی ہے شاید اس میں ایک بندہ کاغذوں کے پلندے سے سبق پڑھ کر سنا رہا تھا اور باقی ڈھیر سارے سامنے بیٹھے ہوئے تھے۔ کئی تو اپنے سبق یاد کرنے میں اردگرد سے بے خبر تھے۔ یہ کیسا عشق ہے؟
ڈنمارک والے کچھ عرصے بعد تیلی لگا دیتے ہیں اور پھر گھر جلنے کا تماشا دیکھتے ہیں۔ ہم بھی پھونکیں مار مار کر اپنا ہی آشیانہ جلا ڈالتے ہیں۔ کل کسی جگہ خبر پڑھی کہ اب تک ہونے والے مظاہروں میں 50 مسلمان راہی ملک عدم ہوچکے ہیں۔
ہم سے پہلے کے مسلمان عشق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر کہاں جا پہنچے اور ہم ہیں کہ ہر سال اتنا اہتمام کرتے ہیں پھر بھی تنزلی ہی تنزلی ہے ترقی کہیں نظر نہیں آتی۔۔۔۔ہر شے سے برکت اٹھتی جاتی ہے۔۔۔قتل غارت گری ہر سال بڑھتی جاتی ہے یہ کیسا عشق ہے ہمارا جس کا فیضان ہمیں نصیب نہیں ہوتا؟
کہیں ہم غلط تو نہیں کسی جگہ؟
بدھ، 19 مارچ، 2008
اوپن سورس کی حکمت عملی
آزاد مصدر پراجیکٹس زیادہ دیر نہ چل سکنے کے سلسلے میں خاصے بدنام ہیں۔ اکثر پراجیکٹ جو بہت مشہور ہوئے ان کی وجہ یہ ہے کہ انھیں اچھی سپانسر شپ حاصل ہے اور وہ مارکیٹ میں جگہ بنا چکے ہیں۔ ایک اور چیز جو میں نے ان مقبول پراجیکٹس کے بارے میں نوٹ کی وہ ان کی حد سے بڑھی ہوئی سہولیات ہیں۔ غضب خدا کا آپ کو ہر چیز کا حل مل جاتا ہے۔ اب فائر فاکس کو ہی لے لیں اضافتوں کے نام پر آپ فائر فاکس کو جانے کیا کیا روپ دے سکتے ہیں۔ ایف ٹی پی ٹرانسفر کی سہولت، اس میں بیٹھ کر بلاگ لکھیں، آنلائن بک مارکس محفوظ کریں اور جانے کیا کیا۔۔
یہ اضافتوں والا سلسلہ بہت اچھا ہے۔ آپ پروگرامر کو ایک حد تک اجازت دے دیتے ہیں کہ وہ سافٹویر میں قابل تبدیلی اضافے کردے۔ اس حکمت عملی کی کامیاب مثالیں فائر فاکس اور ورڈپریس ہیں۔ اس کو بنیاد بنا کر اب کئی دوسرے پراجیکٹس بھی اس طرف آرہے ہیں۔ اوپن آفس مشہور زمانہ آزاد مصدر آفس پروگرام ہے۔ یہ پچھلے کچھ عرصہ سے اضافتوں کے سلسلے میں آگے آرہا ہے ۔اگرچہ یہ ابھی انگلیوں پر گنی جاسکتی ہیں لیکن اوپن آفس 3 جو کہ ستمبر اکتوبر کے قریب مارکیٹ میں آرہا ہے میں اضافتوں کے لیے اچھا فریم ورک مہیا کیا گیا ہے۔ امید کرتے ہیں کہ اس سے اوپن آفس میں بہت زیادہ سہولیات میسر آجائیں گی۔ اس وقت اوپن آفس میں بہت سی چیزیں سرے سے موجود ہی نہیں جو اس کے کمرشل متبادل مائیکروسافٹ آفس کے پانچ سال پرانے ورژنز میں بھی ہیں۔ عام سی مثال ایک عدد کلپ بورڈ ٹول ہے جو آپ کو فعال ہونے پر 24 کاپی کرنے کی اجازت دیتا ہے جنھیں آپ ترتیب وار ایسے ہی ورڈ فائل میں پیسٹ کرسکتے ہیں۔
مونو اور مونو ڈویلپ آج کل میرےعشق میں شامل ہیں اور میں سوتے میں بھی ان کے بارے میں سوچتا ہوں۔ یہ ایک الگ داستان ہے کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔ مونو ڈویلپ بھی پلگ انز کی طرز پر خصوصیات اور فیچرز میں اضافے پر عمل پیرا ہے۔ اس وقت اگرچہ اس کے پلگ ان نوویل کے ہی تیار کردہ ہیں لیکن مستقبل میں امید کی جاسکتی ہے کہ لوگ ایویں کھیڈ تماشے کے لیے اس کے پلگ ان تشکیل دے دیا کریں گے۔
اتوار، 16 مارچ، 2008
اردو میں بلاگ کس کے لیے لکھیں؟
مجھے ان سے اختلاف ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ ہم ہر اس تحریر پر تبصرہ کرتے ہیں جو اچھی لگتی ہے۔ دوسری بات یہ کہ تبصرہ نہ کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ کو پڑھا نہیں جارہا اور تیسری بات یہ کہ آپ خود بھی دوسروں کے بلاگز پر تبصرے کریں گے تو لوگ آپ کے بلاگ پر تبصرے کریں گے۔
تبصرے حاصل کرلینا بلاگنگ کی معراج نہیں ہے۔ ایک وقت تھا جب مجھے تبصرہ نہ ہونے کا بہت قلق ہوا کرتا تھا۔ لیکن آہستہ آہستہ میں نے تبصرے کی توقع ہی چھوڑ دی۔ اب کوئی تبصرہ کرے یا نہ کرے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ نئے بلاگرز کے لیے میری کچھ تجاویز ہیں اگرچہ بدتمیز پہلے ہی اس سلسلے میں تجاویز دے چکا ہے۔
تبصروں کی آس نہ رکھیں۔ اس کی بجائے آپ اگر کلک کاؤنٹر جیسے پلگ ان استعمال کریں تو آپ کو پتا لگے گا کہ آپ کو پڑھا جارہا ہے۔ اپنی ویب سائٹ کے اعدادو شمار کسی بھی ویب سائٹ کاؤنٹر سے حاصل کی جاسکتی ہیں۔ گوگل اینالیٹکس کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ آپ کو پتا چلے گا کہ کون کون آپ کا بلاگ پڑھ رہا ہے اور کہاں سے پڑھ رہا ہے۔
تحاریر لکھتے رہیں۔ اگر داد وصولنی ہے تو انوکھے موضوعات چنیں۔ یہ موضوع میں نے پہلی بار ضمیمہ پر دیکھا اور اس پر تبصرہ کرنے پر مجبور ہوگیا۔
سیاست پر لکھیں، یا کسی اور موضوع پر اپنی رائے کا کھل کر اظہار کریں۔ بس لکھ ڈالیں لیکن یہ بھی نہ ہو کہ آپ بلاگنگ کے نشئی ہوجائیں۔
بلاگ پر وہ لکھیں جو لوگ پڑھنا چاہتے ہیں۔ میرے بلاگ پر ورڈپریس اور لینکس کے کئی ٹیوٹوریلز موجود ہیں۔ میں نے یہ سب خود سیکھا اور پھر آگے سکھانے کے لیے لکھا۔ ان تحاریر کی وجہ سے اب بھی کئی نئے قاری میرے بلاگ پر آتے ہیں بلکہ اگر کوئی لینکس کے بارے میں پوچھے تو میں اپنے بلاگ کا ربط بلاتکلف دے دیا کرتا ہوں۔ آپ بھی کچھ ایسا لکھیں جو قاری کو سیکھانے کی نیت سے لکھا گیا ہو۔
بلاگ آپ کی ذاتی ڈائری ہے جو آنلائن آگئی ہے۔ اس سے بہت زیادہ توقعات لگانا خاصا پریشان کرتا ہے بعد میں۔ بس اسے اپنی روٹین بنا لیں ایک ایسی جگہ جہاں آپ دل کی بھڑاس نکال سکتے ہیں۔ کم از کم میں تو ایسا ہی کیا کرتا ہوں۔
اور ایک آخری بات زبان کے سلسلے میں۔ مجھے یہ احساس بڑی شدت سے ہورہا ہے کہ اردو کی خدمت کے نام پر ہم اس کی ٹانگ توڑ رہے ہیں انٹرنیٹ پر۔ اردو میں املاء کی غلطیاں بہت زیادہ کی جارہی ہیں۔ اردو بلاگرز سے التماس ہے کہ لکھنے کے بعد تین چار بار پوسٹ کو پڑھ لیا کریں۔ ہم ذ کو ز اور ز کو ذ بنا رہے ہیں۔ ت اور ط کی تمیز ختم ہوتی جارہی ہے۔ براہ کرم اردو املاء کا خیال رکھیے۔ اگر آپ کی زبان معیاری ہوگی تو قاری پر اچھا اثر پڑے گا اس کا بھی۔ عجلت میں کی گئی پوسٹ پھوہڑ پنے کو ظاہر کرتی ہے۔ خود میرا یہ حال ہے کہ دو تین بار پڑھنے کے باوجود غلطیاں رہ جاتی ہیں جنھیں پوسٹ کرنے کے بعد پھر مدون کرکے درست کیا کرتا ہوں۔
وسلام
بدھ، 12 مارچ، 2008
میرے مولا یہ کیسی بستی ہے
جہاں زندگی جینے کو ترستی ہے
میرے مولا یہ کیسی بستی ہے
جہاں دہشت مکینوں پہ ہنستی ہے
میرے مولا یہ کیسی بستی ہے
جہاں صبح و شام آگ برستی ہے
میرے مولا یہ کیسی بستی ہے
میرے مولا یہ کیسی بستی ہے
پیر، 10 مارچ، 2008
اور کتنی آزمائشیں میرے مولا :((
اور کتنی آزمائشیں میرے مولا
کب تک ہم بے گناہوں کے لاشے اٹھاتے رہیں گے
کب تک اپنے ہیرے جیسے جوانوں کے مردہ جسم اپنے کاندھوں پر ڈھوتے رہیں گے
کب تلک یہ آزمائشیں میرے مولا
کب تک
یہ آنکھیں تیری رحمت کے انتظار میں پتھرا گئی ہیں
رحم اے رب ذ الجلال
رحم فرما اے اللہ ہم پر رحم فرما۔۔
ارحم الرٰحمین اب سکت نہیں ہے۔
اب حوصلہ نہیں رہا
اے مالک ہم یہ بوجھ نہیں اٹھا سکتے
تجھے تیرے پیاروں کا واسطہ ہم پر کرم فرما۔۔
رحم اے مالک دو جہاں :((
اے دین کے ٹھیکیدارو
کیا ہم نے کبھی یہ کہا کہ تم نے دین میں رسمیں ایجاد کرلیں؟
کیا ہم نے کبھی یہ کہا کہ تم 360 دنوں میں ایک دن اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کرکے اپنے فرض سے بری الذمہ ہوجاتے ہو؟
کیا ہم نے کبھی تمہارے جھنڈے لگانے پر اعتراض کیا؟
جو تم اب شاہ کے پیسے کھا کر ہم پر کرتے ہو؟
آخر ہم کیوں سیاہ جھنڈے نہ لہرائیں؟
کیا تمہیں یاد نہیں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کیا ہے؟
"جس قوم میں انصاف نہ رہے وہ قوم تباہ ہوجاتی ہے"
کیا تم اندھے، گونگے بہرے ہو کہ تمہیں نظر نہیں آتا؟
کیا تمہیں یہ بربادی اپنی آنکھوں سے دکھتی نہیں؟
تو پھر ہمیں کیوں روکتے ہو؟
کیوں شاہ کا پیسہ کھا کر فتوٰی دیتے ہو کہ سیاہ جھنڈا لہرانا گناہ ہے؟
ہم ماتم کیوں نہ کریں؟
اپنی قوم کی بربادی پر ماتم کیوں نہ کریں؟
جس سے انصاف بھی چھن گیا۔۔۔
ہم آخر ماتم کیوں نہ کریں۔۔۔۔ ؟
پیر، 3 مارچ، 2008
تازہ ترقیاں
میں نے اسے سمجھایا بیٹا نوٹوں کو کونسا کھا لینا ہے۔ نوٹ چھاپنے سے پہلے ان کے پیچھے بطور ضمانت سونا رکھا جاتا ہے یا ڈالر یورو رکھے جاتے ہیں۔ نوٹ ہونگے اور ان سے خریدنے کے لیے چیزیں نہ ہونگی تو نوٹ کونسا پیٹ بھر دیں گے۔ اسے یہ بات سمجھ آگئی لیکن میرے لیے سوچ کا ایک در وا ہوگیا۔
ابھی دو دن پہلے ہی تیل کی قمیتیں بڑھائی گئی ہیں۔ پٹرول 3 روپے اور ڈیزل 5 روپے۔ ابھی کرم فرما کہتے ہیں کہ یہ مزید بڑھیں گی۔ میں نے جب یہ سوچا کہ اس "دیباچے" کا ہم پر کیا اثر پڑے گا تو بڑی سادہ سی تصویر ابھری۔ پیداواری لاگتیں بڑھ جائیں گی۔ خصوصًا لانے لے جانے یعنی نقل و حمل کے اخراجات بڑھ جائیں گے جس کے نتیجے میں کھانے پینے کی چیزوں کی قمیت سے لے کر کرایے تک سب کچھ بڑھ جائے گا۔
اس سلسلے میں مطلع واپڈا نے عرض کردیا ہے۔ بجلی کی قیمت 9 فیصد تک بڑھا دی گئی ہے۔ ہم ہر سال کی طرح اس بار بھی گرمیوں میں ہر اس چیز کو بند کرتے پھر رہے ہونگے جو "چل" رہی ہو بجلی سے نہیں ہمارے خون سے۔ لیکن بل اس بار بھی تین ہزار سے کم نہیں آئے گا بلکہ شاید 4000 تک پہنچ جائے ۔
ملک میں افراط زر کی شرح اس وقت 8 فیصد کے قریب ہے جو حالیہ تیل کی قیمتیں بڑھانے سے 10 فیصد تک پہنچ جائے گی۔ یعنی "پیسے بڑے کھانے کو کچھ نہیں"۔ ملک کی برآمدات میں مناسب کمی دیکھنے میں آئے گی اور ہوسکتا ہے کچھ عقلمند آجر فیکٹریوں سے سرمایہ نکال کر کراچی سٹاک ایکسچینچ میں لگا کر منافع کمانے کی سوچیں۔
ملک میں اس وقت جو سیکٹر ترقی کررہا ہے وہ آئی ٹی ہے۔ لیکن آئی ٹی سب کا پیٹ نہیں بھر سکتی۔ انٹرنیٹ کے ریٹس وہ واحد چیز ہیں جو سستے ہورہے ہیں۔ کاش ان کے کھانے سے پیٹ بھر جاتا تو میں 1024 کلو بٹس کی ایک ڈی ایس ایل لائن 1199 روپے مہینہ میں لے کر اس جھنجھٹ سے ہی جان چھڑا لیتا۔ لیکن بدقسمتی سے ایسا کچھ نہیں۔ یا پھر کاروں کی قیمت بھی کم ہوگئی ہے یہی کوئی 34 ہزار روپے فی کار تک۔ اگر اس سے روزی روٹی کا کوئی بندوبست ہوسکتا تو میں ضرور ایک عدد کار لے لیتا اور قصہ ہی تمام ہوتا۔
ملک میں بیرون ممالک کے ری کنڈیشنڈ آلات تھوک کے حساب سے آرہے ہیں۔ گاڑیاں، بسیں، کاریں، کمپیوٹر، مانیٹر، کمپیوٹر کے لوازمات، موبائل فون اور نہ جانے کیا کچھ۔ آپ نے اگر کچھ کمانا ہے تو ان میں سے کسی کاروبار سے منسلک ہوجائیں۔ یا اپنی زرعی زمین بیچ کر شہر آجائیں۔ اگر شہر کے قریب زمین کے مالک ہیں تو کھیتوں کو ہموار کروا کر ایک کالونی کا منصوبہ شروع کرلیں۔ بلدیہ کو روکڑا لگوا کر آپ کی گیس بھی منظور ہوجائے گی، بجلی بھی اور پانی سیورج بھی۔ زمینیں بیچیں اور گھر بیٹھ کر کھائیں۔ یہ نہ سوچیں اس قیمتی اراضی سے جو ہر سال گندم ہوتی تھی وہ کہاں سے آئی گے۔ گندم تو باہر سے آہی رہی ہے۔ اللہ کا بڑا فضل ہے پچھلے سال وافر گندم ہونے کے باوجود ملک خداداد کے رہنے والے آتے کو ترستے رہے اور کئی کئی دن چاول کھا کر گزارہ کرتے رہے۔
کشکول ٹوٹ گئے ہیں۔ اب اگر آئی ایم ایف نے ترقیاتی اخراجات میں 100 ارب روپے کی کٹوتی کا کہا ہے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ روشن خیال حکومت تو چلی گئی اب آنے والوں نے کیا کرلینا تھا؟ اس لیے بہتر ہے یہ غیر ضروری اخراجات ختم ہی کردئیے جائیں۔ ٹیکس وصولیوں کے ہدف میں کمی کردی گئی ہے اس کو بھی سنجیدگی سے نہ لیں اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔ ڈیموں میں ایک ہفتے سے بھی کم کا پانی رہ گیا ہے اس کی بھی فکر نہ کریں آپ۔
بس آپ اپنے آپ کو تیار کرلیں کرایوں میں اضافے کے، سبزیاں سو روپے کلو تک خریدنے کے، "ڈھیر سارے پیسے" کے لیے، بجلی کی سردیوں سے بھی بدترین لوڈ شیڈنگ کے لیے (جو کہ انشاءاللہ ایک ماہ میں شروع ہوا چاہتی ہے)۔
جمعہ، 29 فروری، 2008
اگلے چھ ماہ
اب پھر سے چھ ماہ کا ایک فل سٹاپ لگ گیا ہے میرے تعلیمی کیریئر میں۔ میرا حال بھی اس پینڈو جیسا ہے جو بتیاں دیکھ کر اس طرف چل پڑتا ہے۔ اچھا بھلا کامرس کا سٹوڈنٹ تھا کہ لسانیات میں ٹانگ اڑا لی۔ چلو یہ تو ٹھیک تھا لیکن جو کورس شروع کیا وہ صرف ایک سال کا تھا۔ اور جہاں یہ کروایا جارہا تھا وہ یونیورسٹی بھی زندہ باد ہے۔
اب وہ سال کا کورس ختم ہوجائے گا اور میں پھر ایم اے کے لیے چھ ماہ تک منہ اٹھا کر دیکھتا رہوں گا۔ ستمبر اکتوبر سے شروع ہونے والے سمسٹر سے میں مارننگ میں موجود اسی کورس کے جونیر بیچ میں بیٹھ سکوں گا جو ایم ایس سی کے ٹائٹل سے شروع کیا گیا ہے۔ ان چھ ماہ کو کیا کیا جائے؟
ڈھیر سارا سوچنے کے بعد میں نے فیصلہ کیا ہے کہ ان چھ ماہ میں مجھے سی شارپ سیکھنا ہوگی۔ اپنی انگریزی بولنی بہتر کرنا ہوگی اور ساتھ جاب کرنا ہوگی۔
بس یہ چھ ماہ اور مزید نہیں۔ میں ویلا رہ رہ کر اک گیا ہوں۔ اب دل کرتا ہے کہ کام کیا جائے اور دبا کر کیا جائے۔ والدین کو بھی سکون دیا جائے 23 سال سے میرے جیسا ڈشکرا پال رہے ہیں وہ جو صرف موج کرتا ہے۔
میں نے سوچا ہے کہ نبیل نقوی کے لکھے گئے اردو ایڈیٹر کو لینکس پر پورٹ کروں۔
اردو لغت اطلاقیے کو لینکس پر چلانے کا بندوبست بھی کروں۔
اور کارپس لنگوئسٹکس کے لیے پروگرامنگ کرنے کی کوشش کروں۔
اب اس میں کس حد تک کامیاب ہوتا ہوں یہ تو اگلے چھ ماہ ہی بتائیں گے۔ مجھے امید ہے یہ چھ ماہ مجھے بہت کچھ دے کر جائیں گے۔ زندگی میں پہلی بار میں نے پلان کیا ہے کچھ کرنے کے لیے۔۔دعاؤں میں یاد رکھیے گا۔
جمعرات، 28 فروری، 2008
اوبنٹو کی دو خبریں
فُل سرکل اوبنٹو لینکس کا ترجمان ایک ای میگزین ہے۔ اس میں اوبنٹو لینکس کے مختلف ذائقوں، اس کے بارے میں ٹیوٹوریل اور خبریں وغیرہ شئیر کی جاتی ہیں۔فل سرکل کا شمارہ نمبر 10 منظر عام پر آچکا ہے اپنی کاپی اتاریں اور پڑھیں۔
بدھ، 27 فروری، 2008
KubuntuKDE4 Alpha
اتوار، 24 فروری، 2008
دعا
اے اللہ ہم گنہگار ہیں، سیاہ کار ہیں، ہمارے دلوں پر سیاہی نے پہرے بٹھائے ہوئے ہیں، ہم سنتے دیکھتے ہیں لیکن بہرے اور اندھے بن کر رہتے ہیں۔۔۔۔اے پروردگار ہم تیرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام لیوا ہے۔۔تجھے تیرے نبی کا واسطہ محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کا واسطہ،، ان کی آل کا واسطہ ان کے اصحاب کا واسطہ ہم پر کرم فرما، ہم پر اپنی رحمت فرما
مالک ہم کمزور ہیں، بے بس ہیں ناتواں ہیں۔ دشمن ہمیں اندر اور باہر سے گھیرے ہوئے ہے۔۔۔اگر تیرا سہارا نہ ہوا تو ہم کسی قابل نہ رہیں گے بے شک تیرا سہارا ہی تمام سہاروں سے بہتر ہے
اے اللہ تو ہماری مدد فرما، ہم دھتکارے ہوؤں کو اپنے نبی کے صدقے، اپنے سوہنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے اپنی رحمت میں چھپا لے۔
اے اللہ ہمارے ملک پر اپنی رحمت رکھ۔ مالک ہم نے اسے تیرے اور تیرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر حاصل کیا تھا ہمیں توفیق دے کہ ہم یہاں تیرا نام اونچا کرسکیں۔
اے اللہ ہمیں ظلم، ناانصافی اور برائی کے خلاف سینہ سپر ہونے کی توفیق دے۔
اے پروردگار ہمارے رہنماؤں کو توفیق دے کہ وہ ان وعدوں کو پورا کریں جن کا انھوں نے قوم سے وعدہ کیا ہے۔
رب کریم ہمیں اپنے دشمنوں کو پہچاننے کی توفیق دے۔ ان کے خلاف ہر محاذ پر لڑنے کی توفیق دے۔
اے پروردگار اس ملک کو ہم نے خون کی ندیاں بہا کر حاصل کیا ہمیں توفیق دے ہم اسے بچانے کے لیے بھی خون کی ندیاں تک بہا سکیں۔
ہمارے بھائی جو ہم سے ناراض ہیں ہمیں انھیں منانے کی توفیق دے۔
یا اللہ ہمارے سندھ میں، ہمارے پنجاب میں، ہمارے سرحد میں، ہمارے بلوچستان میں برکت عطاء فرما۔
یااللہ ہمیں ایک ہوجانے کی توفیق دے۔
یاللہ ہمیں نفرتوں سے نکل کر محبتوں کو عام کرنے کی توفیق دے۔
اے مالک اس ملک کی نوجوان نسل کو پیارے پاکستان کی سربلندی کے لیے محنت کوشش کرنے کی توفیق دے۔
ارحم الرٰحمین ہم کچھ نہیں، ہم کچھی بھی تو نہیں، سب کچھی تیری رحمت کے سبب ممکن ہے، کالی کملی والے کا صدقہ، پیارے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا صدقہ ہم پر اپنی رحمت فرما۔ ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جسے اٹھانے کی ہم میں طاقت نہیں۔ اے مالک ہم ناتواں ہیں، کمزور ہیں ہمارے ساتھ نرمی کا معاملہ فرما۔
اے اللہ ہمیں اپنی محبت اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت عطاء فرما اور اس محبت کو عام کرنے کی توفیق عطاء فرما۔
اے اللہ ہمیں آستین کے سانپوں سے ہوشیار رہنے کی توفیق عطاء فرما اور ان کا سر کچلنے کا حوصلہ عطاء فرما۔
مالک سب کچھ تیرے بس میں، ہم تیرے بےبس بندے ہمارے ساتھ نرمی کا معاملہ رکھ۔
آمین
اللھم صل علٰی سیدنا و مولانا محمد و علٰی اٰل سیدنا و مولانا محمد و اصحاب سیدنا و مولانا محمد و بارک وسلم وصل علیک
پیر، 18 فروری، 2008
نئی حکومت خدشات توقعات
اس پر ایک نہیں کئی سوالیہ نشان ہیں۔ جو ٹرینڈ اب تک نظر آرہا ہے اس کے مطابق پنجاب میں ن لیگ کو اکثریت حاصل ہے۔ سندھ میں پی پی پی کو۔ غالب امکان ہے کہ بلوچستان سے بھی پی پی پی کو اچھا حصہ مل جائے گا اور سرحد سے بھی حسب توفیق اچھی نشستیں کھینچ لینے میں کامیاب ہوجائے گی۔ پی پی پی اکثریت میں تو ہوگی لیکن جماعت سازی اس کے بس کا کام نہیں ہوگا۔ اس کو کم از کم نواز لیگ یا پھر ایم کیو ایم سے اتحاد کرنا پڑے گا۔ یا پھر ق لیگ سے اتحاد۔۔۔
مرحومہ نے بھی اپنی زندگی میں آئیں بائیں شائیں کی اور کسی منڈیر پر ٹک کر نہیں بیٹھی۔ یہی حال اب لیڈروں کا ہے۔ زرداری نے کسی بھی جماعت کے ساتھ مفاہمت کا اشارہ تک نہیں دیا۔ اگرچہ نوازلیگ کے ساتھ ان کی گاڑھی چھن رہی ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ پندرہ سال تک ایک دوسرے کے بدترین سیاسی مخالفین رہنے والے اتنی جلدی حکومت میں بیٹھ جائیں گے۔
نئی حکومت جو بھی بنی نواز لیگ اپنی بات منوانے کی پوزیشن میں بہت کم ہوگی۔ جس کے نتیجیے میں ججوں کی بحالی کا عمل متاثر ہوسکتا ہے۔ اس وقت مجھے بہت افسوس ہورہا ہے اگر تحریک انصاف وغیرہ بھی اس میں شامل ہوجاتیں تو آج ججوں کی بحالی کے لیے زیادہ امکانات ہوتے۔ پیپلز پارٹی ایسے کسی بھی فیصلے کی سختی سے مخالفت کرے گی۔ زرداری صاحب مفاہمتی آرڈیننس کے صدقے ہی جیل سے باہر ہیں ورنہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلی حکومت پچھلی حکومت کی پالیسیوں کو جاری رکھے گی یا؟ پچھلے کئی ادوار سے تو ہم پچھلی حکومت کی ہر نشانی پر سرخ لکیر پھرتا دیکھتے آرہے ہیں۔ یہ مشرف ہی تھا جس نے فوجی صدر ہونے کی وجہ سے اپنی بات منوائی۔ مشرف کتنا ہی برا ہو لیکن اس نے اعلٰی تعلیم کو جتنا فنڈ فراہم کیا وہ پاکستان کی تاریخ میں اس سے پہلے ممکن ہی نہ تھا۔ بے تحاشا سکالرشپس دی گئیں جس کے بل پر ہزاروں طلبا ایم فل اور پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ یونیورسٹیوں کے ڈھیر لگ گئے اور نئے نئے کورسز پڑھائے جانے لگے۔ اگرچہ اس میں بھی بہت سی خرابیاں ہیں جیسے تعلیم کا معیار وغیرہ۔ لیکن اس پالیسی میں پہلی بار ایک سائنسدان ڈاکٹر عطاء الرحمٰن کو اعلٰی تعلیم کے سیاہ و سفید کا مالک بنایا گیا۔ اعلٰی تعلیم کا بجٹ ایک بار کٹ بھی چکا ہے لیکن ایوان صدر نے اس کی کمی پوری کردی تھی۔ چونکہ اس وقت فوجی وردی موجود تھی۔ لیکن اب کیا ہوگا؟
ہمارے ہاں جو شعبہ سب سے متاثر ہوتا ہے وہ تعلیم ہے۔ نئی حکومت میں یہ لگ رہا ہے کہ اعلٰی تعلیم کا بجٹ بہت سکیڑ دیا جائے گا۔ شاید پچھلے آٹھ سالوں کی "کارکردگی" کی بنیاد پر ڈاکٹر عطاءالرحمٰن کو بھی احتساب عدالتوں کے چکر لگانے پڑیں۔ یہی ایک جمہوری حکومت میں اور آمریت میں فرق ہوتا ہے۔ آمر کے پاس جو وژن ہوتا ہے وہ اسے لاگو کردیتا ہے اور ہر حال میں لاگو کرتا ہے۔ جمہوریت ایسا ہجوم بن جاتا ہے جس میں جتنے منہ اتنی آوازیں۔ لیکن یہ آوازیں اپنے کھابوں کے لیے ہمیشہ یک آواز ہوتی ہیں۔ مجھے اعلٰی تعلیم کے لیے وقف شدہ فنڈز غرب مکاؤ یا ایسے ہی کسی دوسرے زمرے میں منتقل ہوتے نظر آرہے ہین۔
چلتے چلتے ایک اور بات ق لیگ والوں نے اپنے پیشرؤوں کے لیے بڑے مناسب قمسم کے ایشوز چھوڑے ہیں۔ جیسے کہ تیل کی قیمتیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔تیل کی قیمتیں ایک دو روپے لیٹر نہیں کم از کم دس روپے لیٹر بڑھ جائیں گی۔ عالمی مارکیٹ میں تو آپ کو ریٹس کا اندازہ ہی ہے۔ بھارت میں بھی کچھ دن پہلے تیل کی قیمتیں بڑھا دی گئی ہیں۔ اب لگتا ہے کہ پٹرول کم از کم 80 روہے لیٹر اور ڈیزل 50 روپے لیٹر ہوجائے گا۔ اس کے ساتھ ہی مہنگائی کی ایک اور شدید لہر اٹھے گی۔ ضروریات زندگی کی ہر چیز مہنگی ہوجائے گی۔ بشمول بجلی جس کے فی یونٹ اضافے کی درخواست فورًا کردی جائے گی۔ ایک پرآزمائش گرما ہمارا منتظر ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ووٹ ڈالنے گیا تو دیکھا
وہاں ایک محلے دار نے ہی ہماری رہنمائی پولنگ سٹیشن تک کی۔ قریبی پرائیویٹ سکول میں بننے والا یہ پولنگ سٹیشن مناسب حد تک پرہجوم تھا۔ ہم نے ایک سے پوچھا پھر دوسرے سے پھر تیسرے سے آخر مطلوبہ بندے کے پاس جاکر کہا کہ ہمارا ووٹ یہ ہے پرچی پر لکھ دو۔ لیکن یہ کیا ہمارا ووٹ تھا ہی نہیں اس لسٹ میں۔
آہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم واپس گھر کو آئے۔ پھر اس امیدوار کے دفتر نما میں گئے اور پھر وہاں سے واپس پولنگ سٹیشن۔ پھر اس بندے نے ہمیں کہا کہ آپ کا ووٹ نہیں ہے یہاں یہ کوئی ماجد خان ہے۔ آہ۔۔۔۔۔۔۔۔پھر واپس آئے۔ پھر سوچا ان کے پاس نہیں تو پیپلز پارٹی والے سے پوچھ لیتے ہیں۔ اس کے دفتر چلے گئے تو وہ بےچارے اپنی پریشانیوں میں تھے۔ یکے بعد دیگرے لوگ ووٹ نمبر نکلوانے کے لیے نازل ہورہے تھے۔ آخر کچھ دیر اس کے ہاتھ میں شناختی کارڈ دینے کے بعد واپس لیا اور پھر ہمیں عقل آئی کہ ہماری گلی والا دفتر ادھر نہیں دوسری طرف ہے۔ وہاں گئے اور پھر نون لیگ والے امیدوار کے دفتر میں لسٹ پر نام نہ ملا۔ آخر ساتھ تیر والے دفتر میں ہمیں اپنا نام مل گیا اور ہم نے نعرہ بلند کردیا مل گیا مل گیا۔ دیکھنے والا لڑکا بے چارہ خوش ہوگیا کہ چلو ایک ووٹ بن گیا۔ ہم نے پرچی پر لکھوایا اور چلے پولنگ سٹیشن کو۔
وہاں پہنچ کر پھر اصل بندے کو ڈھونڈا۔ اب کے ہمیں چونکہ عقل آگئی تھی اس لیے اپنی گلی کا نمبر بتا کر مطلوبہ لسٹ والے بندے کے پاس گئے۔ اسے پرچی دکھائی۔ اس نے تصدیق کی اورلسٹ سے نام کاٹ کر ہمیں بوتھ نمبر دو کی طرف راہ دکھائی۔ وہاں گئے۔ پولنگ آفیسر کو شناختی کارڈ تھمایا۔ انگوٹھے پر نشان لگوایا۔ اس نے پرچی پر نشان لگادیا اور ہم پرچی لینے کے لیے لائن میں لگ گئے۔ ہماری باری آنے لگی تو افسر بولا یار ایک نیسلے کی بوتل لادو۔ اسے بوتل لا کر دی اور پھر انگوٹھا لگا کر بیلٹ پیپر لیا۔ آٹھ خانوں والی مہر اٹھائی "گیلی" کی اور بوتھ میں جاکر شیر پر ٹھپہ لگا دیا۔
ہمیں کئی بار خیال آیا کہ آزاد امیدوار کو ووٹ دے دیں۔ چونکہ وہ بندہ ہم جیسا ہی لگتا تھا۔ مثلًا اس کے "دفتر" پر ٹینٹ کی چھت بھی نہیں تھی۔ اور ایک ہی دفتر تھا اس کا جس میں وہ خود ہی ایک کرسی اور میز سمیت موجود تھا۔ حیرت ہے باقی پولنگ سٹیشن پر اس کا "نام لیوا" کون ہوگا۔ ہمیں ترس تو بہت آیا لیکن پھر دل پر پتھر رکھ لیا۔ نواز شریف کو بھی اس لیے ووٹ دیا ہے کہ وہ ججوں کی بحالی کا وعدہ کرتا ہے۔ ورنہ یہ امیدوار وہی پرانے گھگے تھے جو پچھلے تین چار الیکشنوں میں اسی ٹکٹ پر اسی حلقے سے کھڑے ہوتے ہیں۔
اجمل صاحب کی بات تھی تو سچ کہ اس کو ووٹ دیں جس کو آپ مل بھی سکیں۔ لیکن جس کو ملنے کی امید کی جاسکتی تھی اس کے کامیاب ہونے کی امید نہیں تھی ووٹ ضائع ہی جاتا۔ سو ہم نے سوچا نون لیگ ہی سہی۔ ورنہ تو تحریک انصاف کو ووٹ دینے کا ارادہ تھا۔ مجھے عمران خان سے گلہ ہے اس نے بائیکاٹ کرکے اپنے کئی متوقع ووٹر کھودئیے اور ہمیں انتخابات میں چوائس سے محروم کردیا۔
آخر میں وہ تصاویر جو میں نے اپنے موبائل سے کھینچیں۔ آپ کو نون لیگ کا دفتر نظر آئے گا۔ تیر والوں کا بھی ساتھ ہی ہے۔ اس کے ساتھ ہی سائیکل والوں کو دیکھ کر آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ ادھر ان کی کتنی "عزت" ہے۔ موصوف دو حلقوں سے امیدوار ہیں اور ٹاؤن ناظم بھی تھے شاید اب بھی ہوں۔ لیکن مجھے جو بھی ملا اس نے کہا شیر کو یا تیر کو ووٹ ڈالنا۔ ایک دوست تو یہاں تک بولا اب یہ نہ کہہ دینا کہ سائیکل کو ووٹ ڈالا ہے۔ اور ایک آدھ تصویر میں آزاد امیدوار بھی نظر آئے گا جسے میں ووٹ ضرور دیتا۔۔۔۔مگر میں نے اپنے محلے کو دیکھنے کی بجائے قومی سطح پر دیکھا جہاں بڑے مسائل ہیں۔
ویسے اڑتی اڑتی سنی تھی کہ تیر والے 35 ووٹوں پر موٹر سائیکل دے رہے ہیں۔ اور سائیکل والے شناختی کارڈ جمع کروانے پر سائیکل دے رہے ہیں۔ لاہور میں مستنصر حسین تارڈ کو 1500 نقد ملے لیکن ادھر ابھی شاید رواج نہیں چلا۔ ورنہ میں تو تیار تھا کہ سائیکل ہی سہی۔ ووٹ کا کیا ہے ووٹ تو اپنی مرضی سے دینا ہوتا ہے۔ چوروں کو مور پڑ گئے تو کیا ہوجائے گا۔ خیر یہ تھی روائیدادِ الیکشن۔۔۔۔
ادھر ابھی تک کسی ناخوشگوار واقعے کی اطلاع نہیں۔ اگرچہ سرکاری ٹیلی وژن کے مطابق کم از کم دو جگہوں سے بیلٹ پیپر اڑائے جاچکے ہیں اور لاہور سمیت کئی جگہوں پر فائرنگ کے واقعات میں کئی لوگ بھی پرلوک سدھار چکے ہیں۔
جمعرات، 14 فروری، 2008
پھولوں کا کوئی موسم نہیں ہوتا
اودے رنگ رنگیلے پھول
پھولوں کا کوئی موسم نہیں ہوتا
ان چھوئے ان کہے
کلیوں جیسے کورے جذبے
جذبوں کا کوئی موسم نہیں ہوتا
محبتوں کو قید کرتے ہو
محبتوں کا کوئی موسم نہیں ہوتا















یہ پھول ان سب کے نام جن سے میں محبت کرتا ہوں۔ میرے دوست، میرے عزیز، میرے اساتذہ، میرے ماں باپ، میرے بہن بھائی اور وہ سب جنھیں میں دل سے بہت قریب محسوس کرتا ہوں۔ یہ پھول ان کے لیے میری محبتوں کا اظہار ہیں۔
یہ پھول اس شخص کی خدمت میں خراج تحسین ہیں جسے دنیا افتخار محمد چوہدری کے نام سے جانتی ہے۔ نیلسن منڈیلا کو چھ سال قید میں رکھا گیا تھا ہم دس سال کے لیے بھی تیار ہیں۔ چیف جسٹس آپ جب بھی آزاد ہونگے ہم آپ کا استقبال ایسے ہی کریں گے۔ وطن پر بے یقینی کی فضائیں ہیں تو کیا ہوا، وطن پر ناامیدی کی پرچھائیں ہیں تو کیا ہوا ہم پرعزم ہیں ، ہم پرامید ہیں روشن کل کے لیے ۔۔۔۔ ہم منتظر ہیں اس روشن اجالے کے جو ظلمتوں کو مٹا دے گا اور اس ارض پاک کو نئی رفعت و بلندی عطاء کرے گا۔
اے اللہ میرے وطن کی حفاظت کرنا۔
پیر، 11 فروری، 2008
تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
آج یوٹیلٹی سٹور پر عورتیں بی بی نظیراں کو بہت یاد کررہی تھیں۔ میں نے کہا وہ دن بھول گئے ہیں جب اس خصم نے اسی طرح قطاروں میں لگوا کر گھی کے ساتھ تین تین کلو پیاز دئیے تھے۔ جن سے دس فٹ کی دوری سے بدبو کے بھبھکے اٹھتے تھے۔۔
اب میں نے پوچھا یہ کیا قصہ ہے تو۔ والدہ کہنے لگیں اس وقت گھی 35 روپے کلو تھا جی سی پی بہت سے لوگوں کو یاد ہوگا جی سی پی بناسپتی جس کی ملیں یا تو بند ہوگئیں یا پرئیویٹائز کردی گئیں۔۔ تو بات ہورہی تھی قیمت کی اس وقت بھی گھی یوٹیلٹی سٹور سے سستا ملتا تھا عام مارکیٹ کی نسبت۔۔۔ بی بی کے بابو یعنی خصم ارجمند نے بھارت سے بڑی مقدار میں پیاز درآمد کئے۔۔وہ پیاز خراب ہورہے تھے بلکہ آدھےسے زیادہ گل سڑ چکے تھے اور پر یہ پیاز غریبوں کو گھی کے ساتھ تین تین کلو کرکے دئیے گئے۔۔ ورنہ گھی نہیں ملتا تھا۔۔۔
آج کل بھی یوٹیلٹی سٹور والے گھی کے پیکٹ کے ساتھ (چینی ہے تو یا آٹا ہے جس چیز کا بھی بحران ہو اس کے ساتھ) کوئی نہ کوئی چیز لازمی خریدنے پر مجبور کرتے ہیں ورنہ گھی نہیں ملتا۔۔ کبھی تکہ مصالحہ، کبھی لکس صابن، کبھی ٹوتھ پیسٹ اور کبھی فئیر اینڈ لولی جو چیز بھی سٹاک میں زیادہ ہو۔ اب ہم جیسے غریب غرباء جنھوں نے تکے کو دور سے ہی سلام کیا ہوتا ہے اس تکے مصالحے کا کیا کریں؟ سو اس دن امرودوں پر چھڑ کر کھایا اور مشرف کو دعائیں دیں۔
بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔۔ مقصد صرف اتنا تھا کہ ہم کتنی جلدی بھول جاتے ہیں نا؟ بی بی نظیراں فوت ہوگئی تو اب وہ فرشتی اور بہشتن ہوگئی ہے۔ زندہ باد بھئی اس قوم کے۔۔۔
جمعہ، 8 فروری، 2008
معذرت
وسلام
بدھ، 6 فروری، 2008
ایک بھاگا ہوا بچہ
منگل، 29 جنوری، 2008
گلوبل سائنس کی مدد کیجیے
گلوبل سائنس پاکستان کا واحد اردو سائنسی جریدہ ہے۔ میں نے کمپیوٹر کے بارے میں اس رسالے سے سیکھا اور آج بھی میرے پاس اس کے مضامین کی فوٹو کاپیاں کہیں پڑی ہوئی ہیں۔۔۔آج اس کو مالی بحران کا سامنا ہے۔ اصل میں یہ کبھی بھی اتنا مضبوط نہیں رہا۔ پچھلے کئی سال سے اس کے آخری صفحے پر صرف ایک اشتہار ہوتا ہے وہ بھی ایک ڈبل روٹی کا۔ یہ بھی جانے کون پاگل ہیں سالے جو ایک سائنسی جریدے کو اشتہار دے دیتے ہیں۔ ورنہ آج تک اس کو کوئی اور اشتہار نہیں ملا۔ کبھی سپائیڈر پڑھا ہے آپ نے؟ تو پتا ہوگا کہ اشتہار کیا ہوتے ہیں۔۔
اس ماہ کے جریدے سے پتا چلا ہے کہ ان کا مالی بحران اتنا بڑھ گیا ہے کہ شاید رسالہ 3ماہ بھی نہ چل سکے۔۔۔آپ سے اپیل ہے کہ گلوبل سائنس کو مرنے سے بچانے کے لیے ہاتھ بٹائیے۔ یہ چندے کی اپیل نہیں ہے۔ اس رسالے کی سالانہ زروصولی 500 روپے ہے۔ خود لییجے اور اپنے دوست احباب اور نزدیکی تعلیمی اداروں کو لینے کی ترغیب دیجیے۔ بخدا یہ رسالہ پاکستان میں سائنس کے نام پر واحد بجھتا چراغ ہے۔ اگر یہ بجھ گیا تو اگلے کئی سالوں تک ہمیں اندھیرا برداشت کرنا پڑے گا۔۔۔۔مدد کیجیے اگر آپ صاحب دل اور صاحب درد ہیں۔۔۔ڈاک اور منی آرڈر کے لئے رسالے سے رجوع کریں یہ ان پتوں پر رابطہ کریں۔ رسالہ پورے پاکستان میں اچھے بک سٹالز پر مل جاتا ہے۔
monthly Global Science,
139-Sunny Plaza,
Hasrat Mohani Road, Karachi.
Voice: 021-2625545
پیر، 28 جنوری، 2008
ترقی کی حقیقت
کل کی اخبار میں ایک خبر آئی ہے کہ کال میٹ نامی ایک کمپنی کے حصص جو چند ماہ پہلے 65 روپے تک خرید و فروخت ہوچکے ہیں اب 20 روپے سے بھی کم میں بک رہے ہیں۔ اور جن کے پاس یہ حصص تھے ان کا سرمایہ ڈوب گیا ہے۔
میں نے غور کیا تو بہت سی چیزیں سامنے آئیں۔ پچھلے آٹھ سال میں معیشت کی 7 فیصد افزائش اسی بل پر دکھائی جاتی رہی ہے۔ بینکوں کا قرضوں کا کاروبار، ٹیلی کام کے شعبے میں سرمایہ کاری، سٹاک مارکیٹ میں بیرونی سرمایہ کاری اور سروسز کے بزنس۔۔۔
میں نے غور کیا تو احساس ہوا کہ ان آٹھ دس سالوں میں کوئی ایسی ترقی نہیں ہوسکی جو زمین پر قائم ہو۔ یہ سب جس کو بنیاد بنا کر ترقی دکھائی جاتی رہی ہے کہ نتیجہ آج یہ ہے کہ بیرونی سرمایہ کار انڈسٹری لگانے کی بجائے سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ لگانے میں زیادہ دلچسپی لے رہے ہیں۔ آخر انھیں ضرورت ہی کیا ہے کہ وہ انڈسٹری لگائیں سو بکھیڑے پالیں اور پھر چار پیسے کمائیں۔ بس کراچی کی سٹاک مارکیٹ کے بھیڑیوں سے رابطہ کریں حصص خریدیں، مصنوعی تیزی سے ان کی قیمتیں بڑھوائیں اور فروخت کرکے سائیڈ پر ہوجائیں۔ آم کے آم اور گھٹلیوں کے دام۔۔
بینکوں نے قرضوں کا جو کاروبار شروع کیا، کریڈٹ کارڈز دئیے گئے اور لیز پر گاڑیاں دی گئی ان سب نے صرف اور صرف کنزیومر ازم کو فروغ دیا ہے۔ یہ قرضے انڈسٹری لگانے کی بجائے ان کاموں کے لیے دئیے گئے جو معاشیات کی اصطلاح میں ان پروڈکٹو مانے جاتے ہیں۔ اب لوگوں کے پاس گاڑیاں تو ہیں لیکن ان کو چلانے کے لیے پٹرول کے پیسے نہیں۔ چناچہ وہ رینٹ اے کار پر چل رہی ہیں۔ یا بینک انھیں واپس لے رہے ہیں۔ یا لوگ بینک سے بھاگ رہے ہیں۔ کریڈٹ کارڈ استعمال تو کرلیا لیکن اب اس کا سود اور اصل واپس کرنے کے لیے گدھوں کی طرح لگے ہوئے ہیں۔
موبائل فون کے شعبے میں ہونےو الی سرمایہ کاری نے بہت کم مواقع پیدا کئیے ہیں۔ جبکہ صارفین اس سے ہزاروں گنا زیادہ پیدا ہوئے ہیں۔ اگر اس وقت پاکستان میں 7 کروڑ موبائل صارفین ہیں تو ان کو سروسز فراہم کرنے والا عملہ کوئی بہت لمبا چوڑا نہیں۔ ایک لاکھ یا دو لاکھ یا بڑی حد تو پانچ لاکھ کرلیں۔۔۔ موبائل فون آپریٹرز یہاں سے پیسہ کما کر دھڑا دھڑ ڈالر باہر منتقل کررہے ہیں۔ دوسری طرف موبائل سیٹس باہر سے درآمد کرنے میں ملک کا زرمبادلہ خرچ ہورہا ہے۔ میرے جیسا بھی اوکھا ہوکے 10000 والا سیٹ لے رہا ہے۔ اور پرویز مشرف بھی عوام کے ہاتھ میں چھنکنا دے کر خوش ہے کہ سات کروڑ موبائل صارفین ہوگئے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس کے معاشی اثرات کے ساتھ ساتھ انتہائی منفی سماجی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ میں مولوی نہیں لیکن اس موبائل نے نئی نسل کو خراب کرنے کی رفتار کو سو گنا کردیا ہے۔ لیٹ نائٹ پیکجز نے گرل فرینڈ اور بوائے فرینڈ کے ٹرینڈ کو زمین سے آسمان پر پہنچا دیا ہے۔ اجالے میں سبھی حاجی اور اندھیرے میں آج کی ساری نوجوان نسل اس حمام میں ننگی ہے۔ بے مقصد باتیں، بے وقت کی کالیں اور ساری ساری رات مقصد جاگ کر گزارنے والے یہ لوگ کیا خاک ترقی کریں گے؟
متبادل توانائی کے سلسلے میں انتہائی غفلت سے کام لیا گیا ہے۔ غریب کے ہاتھ چونی کی طرح اس کا ایک نام نہاد بورڈ تو بنادیا گیا ہے لیکن اس کے پاس فنڈز اور اختیارات کے نام پر کچھ نہیں۔ وہ صرف سوچ سکتا ہے اور آئیڈیے دے سکتا ہے۔ جو میں اکیلا ان سے زیادہ دے سکتا ہوں۔ کراچی کے نزدیک ٹھٹھہ اور اس کے نواح میں چند ونڈ ملز لگانے کا منصوبہ بنا ہے اور اس سلسلے میں سینکڑوں ایکٹر زمین بھی الاٹ کی گئی ہے لیکن اس سے پیدا ہونے والی بجلی کم از کم 10 روپے یونٹ ہوگی۔ ملک میں شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرنے کے وسیع امکانات موجود ہیں لیکن اس کے لیے صرف اتنا کیا گیا ہے کہ چند گنے چنے دیہاتوں کو پائلٹ پراجیکٹ کے نام پر شمسی توانائی کے منصوبے دے کر فرض ادا کردیا گیا ہے۔
گیس اور پٹرولیم کی پیداوار ایک سطح پر آکر رک گئی ہے۔ پچھے ایک سال میں گاڑیاں دھڑا دھڑ سی این جی اور ایل پی جی پر منتقل کی گئی ہیں جس کے نتیجے میں پہلے ایل پی جی کی قیمتیں 25 روپے سے 100+ پر پہنچ گئی ہیں اور اب قدرتی گیس کا بحران منہ پھاڑے کھڑا ہے۔ بغیر مستقبل کی منصوبہ بندی کئے اسی پیداوار میں رہتے ہوئے نئے صنعتی یونٹوں اور سی این جی اسٹیشنوں کو لائسنس اور گیس فراہمی کے معاہدے کئے جارہے ہیں جس کا نتیجہ بجلی کی طرح گیس کی بدترین لوڈشیڈنگ کی صورت میں نکلے گا۔ گیس کے تین منصوبے اس وقت زیر غور ہیں۔ پاکستان ایران، پاکستان قطر اور ایک وسطی ایشیائی ریاستوں سے بذریعہ افغانستان۔ ان میں پاک ایران منصوبہ ہی شاید اگلے ساتھ آٹھ سال میں پایہ تکمیل تک پہنچ سکے لیکن ایران کے تیور ابھی سے بتا رہے ہیں کہ وہ نرخ کے معاملے میں کوئی رعایت نہیں کرے گا۔
ملک کو عارضی بنیادوں سے نکال کر یومیہ بنیادوں پر چلایا جارہا ہے۔ سرکاری ملازمین کو کنٹریکٹ کے نام پر بھرتی کرکے ان سے ساری سہولیات چھین لی جاتی ہیں پھر انھی ملازمین کے کنٹرکیٹ ہر نئی مدت پر بڑھا دئیے جاتے ہیں۔ چناچہ نہ ہی مقابلے کی فضاء پیدا ہوتی ہے اور نہ ہی پرانے ملازمین کو کوئی فائدہ ہوتا ہے۔ پی ٹی اسی ایل اور پاکستان سٹیل جیسے کئی ادارے بڑی بے دردی سے نجی سرمایہ کاروں کے حوالے کردئیے گئے ہیں اور ان سے حاصل ہونے والی رقم یا تو قرضے اور ان کا سود دینے میں صرف ہورہی ہے یا پھر بلٹ پروف گاڑیاں اور سرکار کی زیب و زینت پر خرچ ہورہی ہے۔
عام آدمی سے لے کر حکومت تک کے پا س کماڈیٹیز یومیہ بنیادوں پر ہیں۔ آج اگر ہمارا معاشی بائیکاٹ کردیا جائے تو ہم کسی قابل نہیں رہیں گے۔ ہم ہر چیز باہر سے ڈنگ ٹپاؤ پالیسی کے تحت درآمد کررہے ہیں۔ سوئی، موم بتیاں، جوتے، کھلونے، موٹر سائیکل اور کاریں چین سے دھڑا دھڑ آرہی ہیں۔ بڑی چیزوں پر تو ڈیوٹی لگا کر بڑے سرمایہ کاروں کو تحفظ دے دیا گیا ہے۔ موٹر سائکل جو چین سے قریبًا 20000 میں آتا ہے یہاں چالیس ہزارمیں بکتا ہے۔ لیکن جوتے، موم بتیاں اور کھلونوں جیسی چیزوں نے مقامی چھوٹی صنعتوں کا بیڑہ غرق کردیا ہے۔ ملک کی بنی دس روپے والی موم بتی چین سے آنے والی اسی قیمت کی موم بتی کے مقابلے میں آدھےسے بھی کم ہے۔ مقامی طور پر سوفٹی اور گھریلوں جوتے بنانے والی صنعتیں بند ہوچکی ہیں یا آخری سانس لے رہی ہیں اور یہ لوگ اب چین سے جوتوں کے درآمد کنندہ بن گئے ہیں۔
ہر چند ماہ میں کسی نہ کسی چیز کا بحران پیدا کرکے اس کی قیمتیں بڑھا دی جاتی ہیں۔ پہلے چینی، پھر آٹا اور گھی اور اب دالیں بھی دستیاب نہیں۔ حکومت راشن کارڈ جاری کرکے اور چند ہزار یوٹیلٹی سٹورز پر راشن مہیا کرکے اپنا فرض پورا سمجھ رہی ہے۔ بڑے شہروں میں تو رُل کر کسی نہ کسی سٹور سے کچھ کھانے کو مل ہی جاتا ہے لیکن بلوچستان جیسے علاقوں میں جہاں یہ سٹور بھی نہیں لوگ نقل مکانی کرنے پر مجبور ہیں۔ پچھلے کچھ عرصے سے تیل کی قیمت منجمند ہے اور امید کی جارہی ہے اب یہ تحفہ عوام کو پیش کیا جائے گا۔ خیال کیا جارہا ہے کہ تیل کی قیمت شاید 70 روپے لیٹر سے بھی بڑھ جائے۔
سماجی، اقتصادی اور معاشی ہرمیدان میں ملکی بنیادی طرح طرح کے گھن کھوکھلی کرچکے ہیں۔ عوام میں بے حسی اس حد تک جا پہنچی ہے کہ اب وہ صرف اپنی اور اپنی روزی روٹی کی سوچتے ہیں۔ عزیز رشتہ داروں اور دوستوں کی بیٹھکوں میں ملک کے ٹوٹنے کا بڑے نارمل انداز میں جائزہ لے کر اعلان کیا جاتا ہے کہ بس اب پاکستان گیا۔۔۔۔۔
یااللہ ہم کہاں جارہے ہیں؟